وہ باہر پارکنگ کی جانب بڑھ رہی تھی کہ کائد غزنوی اس کے پیچھے آئے۔ دو سے تین بار اسے آواز دے چکے لیکن وہ نظر انداز کرتی چلتی جا رہی تھی۔
”مس ! ڈاکٹر “۔۔۔ رک جائیں کیوں اپنے پیچھے بھگا بھگا کر سانس کا مریض بنائیں گی“۔۔۔
کائد غزنوی کی بات سنتے وہ رکی اور پنجوں کے بل مڑتی ان کی آنکھوں میں دیکھتے گویا ہوئی
”پہلی بات ، میرا پیچھا کرنا بند کریں ، ورنہ میری نیکی پچھتاوے میں بدل جائے گی“۔۔۔۔
دوسرا ۔۔۔۔۔ ” بھاگنے سے کوئی سانس کا مریض نہیں بنتا“۔
ابرو اچکاتے وہ سنجیدگی سے گویا ہوئی ، اس کے لہجے میں ایک ٹھہراو سا تھا جس نے کائد غزنوی کو کافی محظوظ کیا۔
”دیکھیں میں یہی چاہتا ہوں کہ آپ اپنی یہ نیکی و احسان جو بھی ہے اسے واپس لے لیں ، میرے ساتھ آفس چلیں میں آپ کو آپ کی امانت لوٹا دیتا ہوں، کیونکہ کائد غزنوی ایسے ہی کسی کا احسان لینا پسند نہیں کرتا“۔۔۔۔
” اور میں امانی ملک ہوں جو ، نیکی کے بدلے اجر کی امید صرف خدا سے رکھتی ہے, اس کے بنائے بشر سے نہیں“۔
ٹھوس لفظوں میں باور کروائے وہ ، گاڑی میں بیٹھے جا چکی تھیں جب کہ وہ حیرانی کے عالم میں ابھی تک اس کے لفظوں میں گھرے کھڑے تھے۔
جاری ہے