رات کے سائے گہرے ہو چکے تھے۔ چاندنی نے کراچی کی گلیوں کو مدھم سی روشنی میں نہلا رکھا تھا، اور ہوا میں ہلکی خنکی گھل چکی تھی۔ شہر کی روشنیوں کے پار، غزنوی پیلس کی ایک بالکنی میں الیکزینڈر غزنوی تنہا بیٹھا تھا۔
سیاہ چمڑے کی ایک ڈائری اس کے ہاتھ میں تھی، جس پر سنہری حروف میں “دلبر میانے” لکھا تھا۔ جیسے ہی اس نے اس جلد کو چھوا، ایک عجیب سا احساس اس کے وجود میں سرایت کر گیا۔ اس کے گہرے بھورے نین نیچے جھکے ہوئے تھے، ماتھے پر بکھرے بال چاندنی میں چمک رہے تھے، اور قلم قرطاس پر نرم سرسراہٹ کے ساتھ کچھ الفاظ بکھیر رہا تھا۔
“ع”۔۔۔۔
تاریخ 10 فروری 2025
ڈائری کے اس صفحے پر اس نے دن و تاریخ کے ساتھ اس لفظ “ع” کو لکھا۔
وہ مغرور سی دکھنے والی نرم دل لڑکی سے آج ناجانے کیوں عقیدت سی محسوس ہوئی ہے۔
قلم چند لمحے کے لیے ٹھہرا، جیسے دل نے سانس روکی ہو۔
“یہ کیسی عقیدت ہے جو دل کے نہاں خانوں میں جگہ بنانے لگی ہے؟ کیوں تمہارا نام لبوں پر آتے ہی دھڑکن بے ترتیب ہو جاتی ہے؟ یہ کیسی کشش ہے جو ہر لمحے تمہاری طرف کھینچتی ہے؟
یہ عقیدت ہے یا عشق کا پہلا زینہ؟”
الیکزینڈر کی نظروں کے سامنے وہ لمحے چلنے لگے جب نورا اس کے سامنے کھڑی تھی۔خوداعتمادی سے بھرپور، اپنی دنیا میں مگن، کسی شہزادی کی طرح۔ وہ حسین تھی، مگر صرف چہرے کی خوبصورتی نے نہیں، بلکہ اس کے وجود میں چھپے وقار اور ذہانت نے الیکزینڈر کے دل میں ہلچل مچا دی تھی۔
“ع” صرف عقیدت کا پہلا حرف نہیں تھا، یہ عشق کا بھی پہلا دروازہ ہے، اور شاید، میں اس دروازے کے قریب آرہا ہوں۔۔۔”
ہوا کے جھونکے نے ڈائری کے صفحات کو پلٹ دیا، جیسے رات خود اس کے رازوں کو سن رہی ہو۔ الیکزینڈر نے گہری سانس لی، نظریں آسمان کی طرف اٹھائیں اور خود سے سوال کیا۔
رات خاموش تھی، مگر شاید کراچی کی فضا میں عشق کے پہلے حرف کی بازگشت سنائی دینے لگی تھی۔
👀❤️
کیفے ٹیریا میں خوشگوار ہلچل تھی۔ کچھ لوگ لنچ کر رہے تھے، کچھ کافی کے گھونٹ بھر رہے تھے، اور کچھ محض گپ شپ میں مصروف تھے۔ نورا ایک امپلائی کے ساتھ ایک میز پر بیٹھی ہوئی تھی۔
“یار، ماننا پڑے گا، سر الیکزینڈر کی پرسنیلٹی ہی الگ ہے!” عائمہ ( نورا کی امپلائی) نے چمچ کو کافی میں گھماتے ہوئے تبصرہ کیا۔
“ہاں، مگر مجھے لگتا ہے کہ اگر وہ تھری پیس سوٹ پہنتے تو ان کی شخصیت کا رعب اور بڑھ جاتا،” اس نے عام سے انداز میں کہا۔
“آفس میں آتے ہوئے لڑکوں کو تھری پیس ہی پہننا چاہیے، خاص طور پر ہائیر پوسٹ والوں کو ، ویسے بھی لڑکے تو آفس میں پروفیشنل تھری پیس میں ہی اچھے لگتے ہیں۔۔”
“بالکل! اس میں جو کلاس اور گریس ہوتی ہے نا، وہ کسی اور لباس میں نہیں،” عائمہ نے تائید کی۔
نورا نے مزاقیہ انداز میں سر جھٹکا، “اب دیکھو نا، ہمارے سر کے بیٹے کو ہی دیکھ لو۔ لگتا نہیں کہ وہ آفس آ رہے ہیں، لگتا ہے جیسے کسی بائیک ریس کے میدان میں جا رہے ہیں۔”
یہ جملہ کہتے ہی جہاں نورا ہنسی وہیں ، عائمہ نے تھوڑی خفگی ظاہر کی۔
“اب ایسا بھی نہیں ہے”۔۔۔
وہ دونوں اپنی باتیں کرنے میں محو تھیں ،
لیکن انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ سب سننے والا کوئی اور بھی تھا۔
الیکزینڈر جو راؤنڈ لگاتے کیفے ٹیریا کو وزٹ کرنے آیا تھا اور کچھ فاصلے پر کھڑا کافی مشین سے اپنی کافی لے رہا تھا، لیکن اس کی نظریں اور چہرہ صاف بتا رہے تھے کہ وہ ہر لفظ سن چکا تھا۔اس نے ایک لمحے کو اپنی نظریں اٹھائیں۔ نورا کے چہرے پر ہلکی سی شرارت بھری مسکراہٹ تھی۔
الیکزینڈر نے خاموشی سے کافی کا کپ اٹھایا، ایک نظر اپنی بلیک ٹی شرٹ اور جینز پر ڈالی، اور پھر دھیرے سے مسکراتے ہوئے سر جھکا لیا۔
“ٹھیک ہے مس ملک…” اس نے دل ہی دل میں سوچا۔ “تھری پیس بھی پہن کر ٹرائی کر لیں گے”۔
اس نے بنا کوئی ردعمل دیے اپنی کافی کا پہلا گھونٹ بھرا اور آرام سے باہر کی طرف بڑھ گیا، لیکن اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی۔
💙💐
صبح کا وقت،
اونچی سیڑھیاں،
اور ایک بے ساختہ ٹکراؤ،
نورا جلدی میں تھی، ایک ہاتھ میں فائلز، دوسرے ہاتھ میں موبائل، اور ذہن میں ہزاروں خیالات۔ وہ تیز قدموں سے سیڑھیاں اتر رہی تھی، جب اچانک۔۔۔
“اوہ!” ایک جھٹکا محسوس ہوا، اور اگلے ہی لمحے اس کے ہاتھ میں موجود فائل نیچے گر چکی تھی۔
“سوری۔۔۔۔!” نورا نے فوراً نظریں اٹھائیں، لیکن جیسے ہی اس کی نظر سامنے والے شخص پر پڑی، اس کے لبوں پر آنے والے الفاظ وہیں رک گئے۔
الیکزینڈر غزنوی۔۔۔۔
لیکن آج الیکزینڈر وہ نہیں تھا جو عام دنوں میں آفس میں آتا تھا۔ آج وہ سیاہ تھری پیس سوٹ میں کھڑا تھا، چمکدار بلیک شرٹ، پالش شدہ جوتے، اور ہاتھ میں ایک رولیکس کی گھڑی جو روشنی میں ہلکی ہلکی چمک رہی تھی۔ وہ ویسا ہی پر رعب تھا، مگر آج کچھ الگ تھا، آج وہ مکمل پروفیشنل گریس میں تھا۔
نورا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ ایک لمحے کو وہ واقعی دنگ رہ گئی۔
“یہ ایلین ، نارمل انسان میں کیسا بدل گیا”۔۔۔
اس کو دیکھتے یہ ہی سوچ اس کے دماغ میں گردش کرنے لگی۔۔۔۔
الیکزینڈر نے ہاتھ بڑھایا، زمین پر گری فائل اٹھائی، اور دھیرے سے ایک آبزرویٹو نظر نورا پر ڈالی۔
“مس نورا، آپ ہمیشہ اتنی ہی جلدی میں ہوتی ہیں؟ یا پھر مجھے دیکھ کر رفتار مزید بڑھا دی جاتی ہے؟”
نورا نے جلدی سے اپنی فائل تھامی، “نہیں۔۔۔ وہ، میں بس جلدی میں تھی۔”
خود کو کمپوز کرتی وہ اب نارمل ہو گئی۔
الیکزینڈر نے ہلکی سی مسکراہٹ دبائی، ایک نظر اپنے سوٹ پر ڈالی، اور پھر معنی خیز لہجے میں بولا۔
“اچھا، تو؟ آج میں ریسنگ میدان میں جانے والا تو نہیں لگ رہا نا ؟
نورا، جو پہلے ہی سنجیدگی برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی تھی، ایک دم شرمندہ سی ہوتی نظریں چرا گئی۔
الیگزینڈر نے اس کے نظریں چرانے پر کندھے اچکائے، “مس نورا، میں سن سکتا ہوں، دیکھ سکتا ہوں، اور خاص طور پر، یاد بھی رکھ سکتا ہوں۔”
نورا نے لب بھینچ کر خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کی، پھر ہلکے سے گلا صاف کرتے ہوئے بولی،
سر، مجھے کام ہے ، میں چلتی ہوں!”
وہ آگے بڑھ گئی تھی۔ اس کی رفتار تیز تھی اپنی بات پکڑے جانے پر لمحے بھر کو ڈگمگائی تھی مگر وہ اعتماد واپس لوٹ آیا تھا۔
الیکزینڈر نے ہاتھ جیب میں ڈالے ، مسکراتے ہوئے اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔
❤️💐
Dilbar Miyane by Sara Urooj Episode 8

Pages: 1 2