ہسپتال سے تقریباً بیس منٹ کی مسافت پر ایک وسیع و عریض بک فئیر لگا ہوا تھا، جہاں ہر طرف کتابوں کی بہار تھی۔ رنگ برنگے سرورق، لفظوں کی خوشبو، اور بے شمار کہانیاں جو اپنے پڑھنے والوں کی منتظر تھیں۔
امانی ہجوم سے بے نیاز، اپنے اندر کے سکون کی تلاش میں، ایک اسٹال سے دوسرے اسٹال تک جا رہی تھی۔ کتنے ہی سال بیت گئے تھے جب اس نے آخری بار اس شوق کی تسکین کے لیے قدم بڑھایا تھا۔ آج جب اس نے کتابوں کو چھوا، ان کی مہک کو محسوس کیا، تو جیسے برسوں کی پیاس بجھنے لگی۔
“کتابوں کی خوشبو میں ایک الگ جادو ہوتا ہے، جیسے کوئی پرانی یاد دہانی کروا رہا ہو،” اس نے خود سے کہا اور ایک کتاب اٹھا لی۔
“آپ تو کتابوں میں ایسی کھوئی ہیں جیسے یہ آپ سے باتیں کر رہی ہوں”۔ اچانک ایک مانوس آواز آئی۔ وہ پلٹی تو ایک بوڑھا دکاندار مسکرا رہا تھا۔
“کتابیں واقعی باتیں کرتی ہیں، بس سننے والا چاہیے،” امانی نے مسکرا کر جواب دیا۔
اس نے “راجہ گدھ”، “لہو کا سورج”، “پیر کامل”، “زوال” اور “ایلس ان ونڈر لینڈ” جیسی کتابیں چن لیں۔ انگریزی اور اردو ادب کی ایک اچھی خاصی تعداد اس کی خریداری کی فہرست میں شامل ہو چکی تھی۔ پچاس ہزار کی مالیت کی کتابیں خریدنے کے بعد بھی اس کا دل نہیں بھرا تھا، مگر وقت کم تھا۔
جب وہ اپنے گھر پہنچی، تو سب سے پہلے اپنی چھوٹی سی لائبریری میں قدم رکھا۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں وہ سب کچھ بھول کر صرف کتابوں کے ساتھ وقت گزارتی تھی۔ بڑی محبت سے اس نے کتابوں کو اپنی شاندار دیوار گیر شیلف پر ترتیب سے رکھا اور ایک طمانیت بھری سانس لی۔
“کتابیں سب سے اچھے دوست ہوتے ہیں، یہ کبھی دھوکہ نہیں دیتیں، کبھی چھوڑ کر نہیں جاتیں،” اس نے اپنے دل کی بات خود سے کہی۔
اچانک اس کی نظر ایک پرانی کتاب پر پڑی، جس کے صفحات پر وقت کے نشان ثبت تھے۔ وہ مسکرائی، اور ماضی میں کھو گئی۔
بچپن میں وہ کتابوں سے دور بھاگتی تھی۔ کھیل کود اور باہر کی دنیا زیادہ دلچسپ لگتی تھی۔ مگر اس کی ماں ہمیشہ کہتی، “امانی! کتابیں صرف لفظوں کا مجموعہ نہیں ہوتیں، یہ تمہیں سوچنا سکھاتی ہیں، سمجھنا سکھاتی ہیں، اور سب سے بڑھ کر یہ تمہیں تنہائی میں بھی تنہا نہیں ہونے دیتیں۔”
ایک دن، جب امانی رو رہی تھی کہ کوئی اس کے ساتھ کھیلنے والا نہیں تب اس کی ماں نے ایک کہانی کی کتاب لا کر دی۔ “یہ لو، اس سے بات کرو۔ جو کہانی کہے، اسے سنو، اس سے سوال کرو، یہ تمہیں جواب دے گی۔”
اور تب پہلی بار امانی نے کتاب کو یوں پڑھا جیسے کسی جیتے جاگتے انسان سے بات کر رہی ہو۔ اس دن کے بعد وہ کبھی تنہا نہیں رہی۔
امانی نے ماضی کی ان حسین یادوں کو سوچ کر کتاب کے صفحے پلٹے اور خود سے کہا، “جو سکون مجھے کتابوں میں ملتا ہے، وہ کہیں اور نہیں۔” پھر اس نے اپنی پسندیدہ کتاب کھولی، اور ایک نئی دنیا میں کھو گئی۔
جب اس نے چھوٹا سی لائیبریری بنائی ہوئی تھی آج گھر آ کر جب اس نے اپنی شاندار دیوار گیر وال پر کتابیں رکھیں تو سکون سا ملا۔۔۔۔
دیوار گیر لائبریری میں بیٹھی امانی نے اپنی پسندیدہ کتاب اٹھائی اور اسے نرمی سے سہلایا۔
صفحے آہستہ سے سرسراہائے جیسے اس کی باتوں کا جواب دے رہے تھے۔
“تم ہمیشہ میرا راز رکھتی ہو، کبھی سوال نہیں کرتی، کبھی شکایت نہیں کرتی۔” وہ مسکرا کر بولی، “تم میری بہترین دوست ہو۔”
ہلکی روشنی میں کتاب کے الفاظ جھلملانے لگے۔ امانی نے صفحہ پلٹا اور پڑھنا شروع کیا، جیسے کوئی بہت ہی قریب دوست اسے کہانی سنا رہا ہو۔ باہر رات کے اندھیرے پھیلنا شروع ہو چکے تھے۔
“زندگی کے ہر موڑ پر تم نے مجھے سنبھالا ہے، دکھ میں تسلی دی ہے، خوشی میں میرے ساتھ ہنسی ہو۔” اس نے صفحات کو نرمی سے چھوا، “تم واقعی جادو ہو، الفاظ کا جادو۔”
ہوا کی ہلکی سی سرسراہٹ کے ساتھ جیسے کتاب نے سرگوشی کی، “اور تم میری سب سے عزیز قاری ہو۔”
❤️✨
آج کی شام ایک خاص اہمیت رکھتی تھی، کیونکہ یہ کائد غزنوی کی سالگرہ کی شام تھی۔ پورا ہال روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ داخلی دروازے پر سنہری اور سیاہ رنگ کے غبارے خوش آمدید کہہ رہے تھے، جبکہ دیواروں پر نرم و ملائم ریشمی پردے جھول رہے تھے جو روشنیوں کی چمک سے اور بھی دلکش لگ رہے تھے۔
ہال کے وسط میں ایک خوبصورت کرسٹل جھاڑ فانوس لٹک رہا تھا، جس کی روشنی پورے ماحول کو ایک شاہانہ رنگ دے رہی تھی۔ ہر میز پر تازہ گلابوں کے گلدستے رکھے گئے تھے، جن کی خوشبو ہر سمت بکھری ہوئی تھی۔ میزوں پر سنہری اور چاندی کے رنگ کی کٹلری رکھی گئی تھی، اور مہمانوں کے بیٹھنے کے لیے انتہائی آرام دہ اور نفیس کرسیاں لگائی گئی تھیں۔
لائیو میوزک کا بھی انتظام تھا۔ پس منظر میں مدھم اور دلکش دھنیں بج رہی تھیں، جو ماحول کو مزید رومانوی اور پرکشش بنا رہی تھیں۔ مہمان خوبصورت ملبوسات میں ملبوس تھے، کچھ کاروباری شخصیات اپنی باتوں میں مصروف تھیں، تو کچھ لوگ گروپس میں کھڑے خوشگوار گفتگو کر رہے تھے۔
خدمت گار انتہائی مہذب انداز میں مہمانوں کی خاطر مدارت کر رہے تھے، ٹرے میں رکھے مشروبات اور ہلکے پھلکے اسنیکس پیش کیے جا رہے تھے۔ ہر چیز میں ایک نفاست تھی، ایک شان تھی، جو اس بات کا ثبوت دے رہی تھی کہ کائد غزنوی کا معیار ہمیشہ سے بلند رہا ہے، چاہے وہ بزنس ہو یا کوئی تقریب۔
💙👀
ہال کے دروازے پر جیسے ہی ہلکی سی سرسراہٹ ابھری، سب کی نظریں بےاختیار اس جانب اٹھ گئیں۔ روشنیوں کی جھلملاہٹ میں، ایک نسوانی وجود آہستہ آہستہ اندر داخل ہو رہا تھا۔ نورا، جو ہمیشہ خود کو سادگی میں لپیٹے رکھتی تھی، آج بھی اپنے انداز میں سب سے منفرد لگ رہی تھی۔ ہلکے رنگ کا لان کا سادہ مگر نفیس سوٹ، اورگینزا کا نازک دوپٹہ جو بار بار اس کے کندھے سے پھسلنے کی ضد کر رہا تھا، اسے بار بار سنبھالتے ہوئے نورا کی معصومیت اور وقار مزید نکھر کر سامنے آ رہے تھے۔ اس کی چال میں وہی متانت تھی، مگر آج اس میں ایک انجانی سی کشش بھی جھلک رہی تھی، جیسے چاندنی خود اس کی ہمقدم ہو۔
دوسری جانب امانی تھی۔ جو اپنی گریس فل اور انتہائی نفیس ساڑھی میں ملبوس تھی۔ اس کی سادگی میں بھی ایک شاہانہ وقار تھا، جیسے وہ جانتی ہو کہ حسن صرف زیبائش سے نہیں بلکہ اندرونی اعتماد سے بھی آتا ہے۔ اس کے بال شان سے کندھوں پر بکھرے ہوئے تھے، اور وہ بلا کی پرکشش لگ رہی تھی۔
کائد غزنوی، جو ہمیشہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے تھے، بےاختیار ایک پل کے لیے ساکت ہو گئے۔ ان کی آنکھوں میں حیرانی تھی، جیسے وہ اپنی آنکھوں پر یقین نہ کر پا رہے ہوں کہ یہ امانی ملک ہے۔
دوسری جانب الیکزینڈر، جو محفل میں اپنی مخصوص مغرورانہ خاموشی کے ساتھ کھڑا تھا، جیسے ہی اس کی نظر نورا پر پڑی، وہ بےساختہ اپنی سانس روک گیا۔ وہ لڑکی، جس سے وہ ہمیشہ چڑتا رہا تھا، جسے وہ اپنے مقابلے میں کمتر سمجھتا تھا، آج کسی شہزادی کی طرح محسوس ہو رہی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ نورا خوبصورت ہے، مگر آج… آج وہ خوبصورتی کی انتہا پر تھی۔ دوپٹے کے پیچھے جھلملاتے چہرے میں وہی پرانی سنجیدگی تھی، مگر آج اس میں ایک ان کہی سی چمک بھی شامل تھی، جو الیکزینڈر کے دل کی دھڑکن کو بے ترتیب کر رہی تھی۔
ہال میں کچھ لمحے کے لیے ایک جادو سا طاری ہو گیا تھا۔ سب اپنی اپنی گفتگو بھول کر ان دونوں کو دیکھ رہے تھے۔ جیسے کسی خواب کا حصہ ہوں۔ نورا نے ایک لمحے کو نظریں اٹھا کر الیکزینڈر کو دیکھا، اور وہ پل… جیسے وقت تھم سا گیا۔ وہی نگاہوں کی ان کہی زبان، وہی خاموش مگر گہری کہانی، جو ان دونوں کے درمیان ہمیشہ سے تھی مگر آج الفاظ کے بغیر بھی سب کچھ کہہ رہی تھی۔
شام کی روشنی میں، یہ ایک ایسا منظر تھا جو نہ صرف الیکزینڈر اور کائد غزنوی بلکہ مقابل ان دونوں پھوپھو بھتیجی کے دل پر بھی گہری چھاپ چھوڑنے والا تھا۔
جاری ہے ❤️ 💐
Dilbar Miyane by Sara Urooj Episode 8

Pages: 1 2