خود کو نقصان پہنچا کر وہ اپنے شوہر یعنی آپ کو بھی اپنی پاس آنے پر مجبور کرے گی۔
کیونکہ اسے یقین تھا کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے اور آپ کے ردعمل نے اس کے اس خیال کو تقویت بھی بخشی۔ یہ سب وہ شروع میں صرف توجہ پانے کے لیے کرتی تھی مگر پھر آہستہ آہستہ اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ خود کو اذیت دے کر وہ خود سے منسلک لوگوں کو اپنے لیے تڑپتا دیکھ کر خوشی محسوس کرتی ہے۔ اسے لگتا تھا کہ وہ خود کو جتنی شدت سے تکلیف پہنچائے گی، اس کا پیارا اتنا ہی تڑپے گا اور ایسا ہی اس نے آپ کے معاملے میں کیا۔۔۔ اس نے آپ کو تکلیف دینے کے لیے خود کو اذیت دی۔۔۔ یہاں ایک اور بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ وہ زندگی میں دل سے پہلی بار شاید زوہیب اور مائدہ کی شادی پر ہی خوش ہوئی تھی لیکن پھر اس کا انجام اتنا بھیانک رہا کہ اس کی ذہنی حالت مزید ابتر ہو گئی۔۔۔ وہ اپنے خاندان میں سب سے زیادہ اپنی بہن کے ہی قریب تھی لیکن پھر وہ سہارا بھی چھن گیا تو اس کی ذات مزید بکھر گئی۔۔۔ وہ بظاہر نارمل تھی لیکن زوہیب کی میت اٹھتے ہی مائدہ کی حرکت قلب رک جانے پر اس نے یہ سوچ لیا کہ اسے خوش ہونے کا کوئی حق نہیں۔۔۔ اسے یہ لگنے لگا کہ اگر وہ خوش ہو گی تو اس کے ساتھ کوئی نا کوئی برا واقعہ پیش آ جائے گا۔۔۔ میں جب آخری بار اس سے ملا تو مجھے یہ یقین تھا کہ اب شاید اس کے دل سے یہ ڈر نکل چکا ہے کیوں کہ وہ خود کو دوبارہ زندگی کی طرف واپس لا چکی تھی اور اس نے اچانک میرے پاس آنا بند کر دیا تھا لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ وہ کبھی اس حادثے سے ابھری ہی نہیں۔۔۔ اس بار اس نے یہ جان بوجھ کر آپ کو تکلیف پہنچانے کے لیے کیا ہے یا اس کے پیچھے اس کا کوئی ڈر ہے، یہ تو اس کے ہوش میں آنے کے بعد پتا چلے گا لیکن ابھی اس سے پہلے آپ کو بہت توجہ اور محبت سے اسے سمیٹنے کی ضرورت ہے۔۔۔ آپ کو اسے اپنے ساتھ کا احساس تو دلانا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ اسے یہ بھی باور کروانا ہے کہ ہر بار اس کا یہ حربہ کام نہیں کرے گا۔۔۔ اسے تھوڑے نرمی بھرے غصے سے زندگی کی اہمیت سمجھائیں اور جہاں ضرورت پڑے، آپ بلا تکلف مجھ سے مدد مانگ سکتے ہیں۔“ مواحد اس ڈاکٹر کے کلینک سے نکلا تو اس کے ذہن کی کئی گتھیاں بہت حد تک سلجھ چکی تھیں۔۔۔ اسے اب علم تھا کہ اسے کیا کرنا ہے۔
”فاکہہ کو ہوش آ گیا ہے۔“ وہ اسپتال واپس پہنچا تو موحد کی زبانی یہ خبر سن کر وہ بے ساختہ سجدہ شکر بجا لایا تھا۔
_______۔