افلاک واسطی کی رہائش گاہ پر دھوپ پوری طرح اتر آئی تو اپنے کمرے میں بستر پر نیم دراز شب باشی کے لباس میں ملبوس نویرا واسطی چہرے پر پریشانی لیے بار بار فاکہہ کا نمبر ملا رہی تھیں جو مسلسل بند جا رہا تھا۔۔۔ فاکہہ کے بعد اذہان کے نمبر کے بھی بند ہونے کی صورت میں انھوں نے مایوس ہو کر بیگم لغاری کا نمبر ملانا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی بستر پر دراز افلاک واسطی کو آنکھیں کھولتا دیکھ کر وہ رک گئی تھیں۔
”خاصی اچھی نیند آئی آج آپ کو؟“ نویرا واسطی نے مسکراتے ہوئے اپنے شوہر کو مخاطب کیا تھا۔
”ہممم! آپ صبح صبح کسے فون کر رہی ہیں؟“ ان کی طرف کروٹ لیتے، وہ ہنکارا بھر کر گویا ہوئے تھے۔۔۔ ان کے چہرے پر بلا کا سکون تھا۔۔۔ یہ شاید بیٹی کو رخصت کر دینے کا اطمینان تھا جو جلد ہی ان کی زندگی سے رخصت ہو جانے والا تھا۔
”فاکہہ کو لیکن اس کا نمبر ہی بند ہے۔“ ان کے جواب پر وہ ہلکا سا مسکرائے تھے۔
”وہ لوگ سو رہے ہوں گے ابھی۔“ وہ اپنی بیوی کی فاکہہ کو لے کر فکر کے پیشِ نظر بولے تھے۔
”جو بھی ہو لیکن وہ کبھی اپنا نمبر بند نہیں کرتی۔“ نویرا کے پریشانی بھرے لہجے پر ان کی مسکراہٹ کچھ مزید گہری ہوئی تھی۔
”نویرا! اس نے اپنی نئی زندگی کا آغاز کیا ہے۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ اس نے اذہان کی وجہ سے فون بند کیا ہو۔“ ان کے نزدیک یہ مادرانہ فکر سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔
”مجھے یہ سب بہت عجیب لگ رہا ہے۔۔۔ پہلے رات کو بیگم لغاری نے فضول رسم کَہ کر ناشتہ لانے سے منع کر دیا۔۔۔ اب فاکہہ اور اذہان کا نمبر بند ہونا۔۔۔ آپ لغاری صاحب سے رابطہ کریں۔“ نویرا ان کی بات کا اثر لیے بنا ہی اپنی پریشانی بیان کر رہی تھیں۔
”کیوں بلا وجہ پریشان ہو رہی ہیں؟ وہ ٹھیک ہوگی۔“ نویرا کا ہاتھ تھام کر سہلاتے، انھوں نے اسے پرسکون کرنا چاہا تھا۔
”کس کا فون ہے؟“ وہ دونوں مزید اسی موضوع پہ بات کر رہے تھے جب افلاک واسطی نے اپنے فون کے بجنے پر موبائل کان سے لگایا تو ان کی مسکراہٹ سمٹنے پر وہ متجسس سے انداز میں گویا ہوئی تھیں۔۔۔ افلاک واسطی کچھ بھی کہے بنا، اٹھ کر بیٹھتے، جانبی میز پہ دھرا ریموٹ اٹھا کر میکانکی انداز میں ہاتھ بڑھاتے، سامنے لگی دیوار گیر ایل ای ڈی
چالو کر گئے تھے۔