Uncategorized

Ek Jot Jali Matwali Si by Saira Naz Episode 22

وہ لوہے کا بھاری دروازہ کھول کر نیم تاریک کمرے میں داخل ہوا تو چوکھٹ سے اندر آتی روشنی میں اس کی نگاہ سیدھی وہاں رکھی کرسی پہ براجمان شخص کی جانب اٹھی جس کے دونوں ہاتھ اور پیر کرسی کی ہتھیوں اور ٹانگوں سے بندھے تھے اور اس کا جھکا سر بتاتا تھا کہ وہ نیم بے ہوش ہے۔
”ہوش میں لاؤ اسے!“ مواحد کی ہدایت پر دروازے کے پار موجود شخص فوری حرکت میں آیا تھا۔
”تم؟“ اس کے حکم پر عمل کرتے، اس شخص نے بتی جلا کر، ٹھنڈے پانی کی بالٹی اس پر انڈیلتے، اسے ہڑبڑا کر اٹھنے پر مجبور کیا تھا۔۔۔ حواس ذرا بحال ہوئے تو اپنے سامنے بیٹھے وجود کو دیکھ کر اسے حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا تھا۔
”ہاں میں! حیرانی ہو رہی ہے مجھے یہاں دیکھ کر؟“ مواحد اب اس شخص کی لائی ہوئی کرسی پہ عین اس کے سامنے بیٹھ رہا تھا۔
”تمھارا تو۔۔۔“ اس کی بات کو مواحد نے بیچ میں ہی ٹوک دیا تھا۔
”میرے تبادلے کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہو یا مجھ پر بلاوجہ بٹھائی گئی تفتیشی کمیٹی کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہو؟“ اس نے استہزائیہ لہجے میں پوچھتے، اس کی ادھوری بات مکمل کی۔۔۔ اسے کل ہی اپنے تبادلے کا حکم نامہ رد کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی موصول ہوئی تھی اور مواحد نے کچھ بھی کیے بنا بس امین لغاری سے بات کر لی۔۔۔ اب یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ اسے افلاک واسطی کے خلاف اپنی بات کی سچائی ثابت کرنے کا موقع مل گیا تھا۔
”مہران تمیمی! بات صرف اتنی ہے کہ جس طاقت کا استعمال تم نے کیا، میں نے بھی اس کے مخالف سمت موجود اربابِ اختیار کی مدد حاصل کر لی۔“ اس کی معنی خیزی پر وہ لب بھینچے اسے دیکھتا رہا۔۔۔ یوں جیسے اس کی بات کی گہرائی ماپنا چاہتا ہو۔
”ویسے تو ہم نے تمھارا ہی طریقہ اپنایا تھا لیکن پھر بھی فکر نہ کرو! تمھیں یہاں قانونی طریقے سے ہی لایا گیا ہے۔“ اس کی خاموشی پر مواحد نے گفتگو کا رخ اس کو بے ہوش کر کے یہاں تک لانے کی طرف موڑ دیا تھا۔
”تمھیں کیا لگا تھا کہ یہ سب کر کے تم کبھی پکڑے نہیں جاؤ گے؟“ اس نے جانچتی نظروں سے خود کو تولتے مہران کی سمت ذرا سا جھکتے استفسار کیا تھا۔
”تم بہت بڑی غلطی کر رہے ہو۔“ مہران کی دھمکی پر وہ ہلکا سا قہقہہ لگا گیا تھا۔
”تم مجھے دھمکی دینے کی حالت میں نہیں ہو۔“ اس کی یاددہانی پر مہران نے مزاحمت کا ارادہ ترک کیا تھا۔
”کیا چاہتے ہو تم؟“ وہ سچ میں اس ملاقات کا مقصد جاننا چاہتا تھا۔
”میرے کچھ سوالوں کے جواب!“ مواحد نے ٹانگ پہ ٹانگ رکھتے ہوئے اپنا مدعا بیان کیا تھا۔
”کیسے سوال؟“ اس کے لہجے میں تجسس کے ساتھ ساتھ حیرت بھی نمایاں تھی۔۔۔ اس کا تو خیال تھا کہ اس پر تشدد کیا جائے گا لیکن یہ شخص تو خلاف توقع خاصے دھیمے لہجے میں بات کر رہا تھا۔
”موحد خاکوانی پر حملہ کیوں کروایا؟“ مواحد نے کسی بھی وضاحت کے بنا، اپنا پہلا سوال پوچھا تھا۔
”میں نے نہیں۔۔۔“ وہ اس کی بات کی تردید کرنا چاہتا تھا لیکن مواحد اسے ٹوک گیا تھا:
”آں آں! اس دن ہماری حراست میں آنے والے تمھارے دونوں آدمی مرنے سے پہلے اعتراف کر چکے ہیں کہ انھوں نے یہ حملہ تمھاری ایما پر کیا تھا۔“ اس نے اس بار بھی نفی میں ہی سر ہلایا تھا۔
”پتا نہیں تم کس بارے میں بات کر رہے ہو؟“ وہ ابھی بھی صاف انکاری ہوا تھا۔
”جانتے ہو تم کیسے یہاں تک پہنچے؟ پہلی بار جب تم پولیس کے شکنجے میں آئے تو اس کی وجہ تمھارے پاس برآمد ہونے والی کچھ رقم پہ درج نمبر تھے اور اس بار بھی تمھاری گرفتاری کی وجہ پیسہ ہی ہے۔۔۔ وہ پیسہ جو اذہان امین کی گاڑی پر حملہ کرنے والے شوٹر کے اکاؤنٹ میں جمع کروایا گیا تھا۔۔۔ ان نوٹوں کا نمبر ہی ہمیں تم تک لے آیا۔۔۔ ایک بار اتنی ازیت سہنے کے بعد بھی ٹم نے دوبارہ اتنی سنگین غلطی کیسے کر دی؟“ مواحد نے تاسف سے سر ہلاتے، اظہارِ افسوس کیا تھا۔
”اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ میں ہی مجرم ہوں۔“ مہران ابھی بھی بے خوف دکھتا تھا۔
”تم بھی تو ثبوتوں کے بغیر ہی اتنے عرصہ سے موحد خاکوانی کے خلاف عناد پالے ہوئے ہو۔“ اس کی غیر متوقع بات پر وہ چونکا تھا۔
”کیا کہنا چاہتے ہو تم؟“ اس بار اس کا لہجہ یکسر بدلا ہوا تھا۔۔۔ وہ بھلا کیسے جانتا تھا؟ کہ وہ موحد کے بارے میں کیا سوچتا یا کرتا ہے۔
”شمس دادا نے تم سے جھوٹ کہا تھا کہ تمھاری کزن کی موت کا ذمہ دار موحد خاکوانی ہے۔“ اس کی بات پر مہران کی حیرانگی دو چند ہوئی تھی۔
”تم یہ سب کیسے جانتے ہو؟“ وہ سچ میں ورطہ حیرت میں مبتلا ہوا کہ وہ حمدہ کے بارے میں کیسے جانتا تھا؟ جب کہ اس نے شمس دادا کے سوا کبھی کسی اور کے سامنے اس بات کا ذکر ہی نہ کیا تھا۔
”محبت کرنے والے بھی کسی سے چھپتے ہیں بھلا؟“ مہران کو سمجھ نہ آئی کہ یہ سوال تھا یا جواب؟ سو وہ بھنویں سکوڑ کر اسے دیکھتا رہا۔
”جانتے ہو تم اب تک موحد خاکوانی کو کوئی نقصان کیوں نہیں پہنچا پائے؟“ اس کا ہر سوال پہلے سے زیادہ معنی خیز اور حیران کن تھا۔
”وہ اس لیے کہ وہ تمھارا قصور وار نہیں تھا۔۔۔ تمھاری کزن کے ساتھ جو ہوا، اس کے ذمہ دار کو وہ مرنے سے پہلے خود اپنے ہاتھوں سے موت کے گھاٹ اتار گئی تھی۔۔۔۔ اس سارے قصے میں موحد خاکوانی کی غلطی صرف اتنی تھی کہ اس نے قانون کے رکھوالوں کے بھیس میں چھپے بھیڑیوں پر یقین کر لیا تھا۔“ مہران لمحہ بہ لمحہ حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھا۔۔۔ شمس الدین بھلا کیوں اس سے جھوٹ کہے گا؟
”تمھارے پاس کیا ثبوت ہے اس بات کا؟“ اس نے سرسراتے لہجے میں پوچھا تھا۔
”یہ اس ہوٹل کی رسید ہے جہاں موحد خاکوانی اس رات قیام پذیر تھا جب حمدہ نذیر کے ساتھ بیہمانہ سلوک کیا گیا۔“ اس نے اپنی پتلون کی جیب سے ایک پرچی برآمد کر کے اس کے سامنے کی تو مہران کو کمرے کی چھت اپنے سر پہ گرتی محسوس ہوئی۔۔۔ وہ حمدہ کے بارے میں اتنا سب کیسے جانتا تھا؟ شمس الدین نے کیوں کہا کہ اس کے ساتھ یہ سب موحد نے کیا تھا۔
”وہ اسی رات اپنے مجرم کو سزا دے چکی تھی۔“ اسے لب بھینچے، سوچ میں ڈوبا دیکھ کر، وہ اسے حمدہ کی موت کا سارا قصہ سناتے، اپنی بات جاری رکھے ہوئے تھا:
”تم نے جس وجہ سے اس راہ کا انتخاب کیا تھا، وہ وجہ اب باقی نہیں رہی تو کیا میں تمھیں ایک پیش کش کر سکتا

Faryal Khan

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,
Uncategorized

Dil dharky tery liye By Warda makkawi

dharky dil twry liye by Warda makkawi is a Classic, Urdu, Romantic, & Social Novel.  It was published online on