سبین سے ملاقات کر کے وہ نیچے اس کے والدین کے پاس آبیٹھا تھا۔نکاح کے بعد باقاعدہ طور پر پہلی بار سِنان ان کے گھر آیا تھا سو داماد کیلیے چائے پر خاصا اہتمام کیا گیا تھا۔پہلی بار آیا تھا مگر موقع غم کا تھا سو بہت زیادہ گرم جوشی یا خوشی کا عنصر نہیں دکھائی پڑ رہا تھا رویوں میں اور یہ وجہ تھی کہ سنعیہ بیگم اور احمد صاحب دونوں ہی کچھ شرمندگی سی محسوس کر رہے تھے مگر خوشی کا اظہار بھرپور طریقہ سے کرنے سے قاصر تھے۔دوسری جانب سِنان تھا جو اس حالت سوگ میں بھی ان کی اتنی پرتکلفی پر شرمندہ ہوا جا رہا تھا۔”آپ نے خواہ مخواہ اتنا اہتمام کیا۔میں کوئی مہمان تھوڑی ہوں،گھر کے بندے کو تو چائے بھی بہت۔”وہ بیک وقت اپنے ساس سسر دونوں سے مخاطب تھا۔”ارے بیٹا کہاں ہی کچھ اہتمام کر سکے۔”سنعیہ بیگم نے افسردگی سے گہری سانس بھری۔”اچانک ہی پتہ نہیں کیا ہوا کہ ہنستا کھیلتا گھر ہی اجڑ گیا۔ان کا تو میکہ ہے اور میکے کا دکھ تو کسی بھی عمر میں رلاتا ہے۔”احمد صاحب اپنی بیگم کے اداس چہرے کو دیکھ کر سِنان سے مخاطب ہوئے۔”بس انکل جو اللہ کی رضا۔”اس نے صبر کی تلقین کی کہ اس کے سوا کیا ہی کیا جا سکتا تھا۔سنعیہ بیگم اور احمد صاحب دونوں ہی نے غمزدہ سی حالت میں تھک کر گردن اثبات میں ہلائی۔ماحول میں سوگ چھایا ہوا تھا تو آسمان بھی غمزدہ سا لگ رہا تھا۔وہ لوگ لان میں موجود تھے۔لکڑی کی میز کے گرد رکھی کرسیوں پر بیٹھے چائے کے گھونٹ بھر رہے تھے۔شام کا وقت تھا اور ٹھنڈ بھی بڑھ رہی تھی لیکن بہت زیادہ بھی محسوس نہ ہو رہی تھی۔سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا پر آہستگی سے مغرب کی جانب بڑھ رہا تھا۔مغرب کی جانب بڑھتا ہوا سورج ڈھلنے کی طرف گامزن تھا مگر روشن تھا۔ڈھلتے سورج کی روشنی کا اعجاز تھا کہ نیلے آسمان کے سینے پر گلابی اور اودھے رنگ کے روئی سے بادل سفر کرتے نظر آ رہے تھے۔انہی بادلوں کے بیچ سفید رنگ کی ایک اور شے فلک پر دھندلی سی دکھائی پڑ رہی تھی مگر شناخت واضح تھی،وہ چاند تھا جس نے سورج کے غروب ہوتے ہی دنیا والوں کیلیے روشن ہونا تھا۔ابھی روشنی موجود تھی اور آہستگی سے مٹ رہی تھی،اس سے قبل کہ وہ مکمل ختم ہوتی،نئی روشنی کا انتظام بھی کر دیا تھا قدرت نے۔یہی تو امید تھی جو روز روشن کی مانند عیاں تھی۔آسمان کا یہ امید افزا نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا مگر فی الوقت زمیں زادوں پر سوگ کی کیفیت تھی سو وہ اپنے آپ میں مگن تھے اور آسمان کی اس امید کو دیکھنے سے قاصر تھے مگر وہاں بیٹھا ایک شخص سراپا امید تھا اور وہ تھا ان کے بیچ ستارہ،زمین زادوں کے بیچ روشن ستارہ جو انہیں اس دکھ سے نکالنے اور آنے والے دکھوں سے بچانے کی تدبیریں لگا رہا تھا۔”اب یہ دکھ تو زندگی کے ساتھ رہنا ہی ہے اور اس کا مداوا اب کوئی نہیں مگر مزید کچھ اس طرح کا نہ ہو اور ہمیں مزید ایسے صدمے نہ دیکھنے پڑیں،اس بات کو یقینی بنانے کیلیے کچھ سوچنا ہوگا۔”چائے کا کپ میز پر دھرا اور اچانک ہی بات شروع کی۔بات بھی وہ جو باقی دو نفوس کو چونکا گئی بلکہ دہلا گئی۔کیا مطلب کیا ابھی کچھ اور بھی دکھ اٹھانے باقی تھے؟کیا یہ جوان لاشے جو دیکھ لیے تھے،ان سے زیادہ دلسوز مناظر بھی آنکھوں میں سمانے تھے۔ان دونوں نے بیک وقت سِنان کو دیکھا اور دونوں ہی کی آنکھوں میں خوف کے سایے تھے۔اس کے وجود پر دھوپ پڑ رہی تھی۔سرما کی بھلی سی دھوپ اور یوں محسوس ہو رہی تھی گویا اس کے وجود سے پھوٹ رہی ہو۔ستارے کے وجود سے پھوٹتی امید کی سنہری روشنی جس میں گرمائش تھی مگر تپش نہیں۔تبھی تو وہ دو خوفزدہ وجود اس شخص کو باآسانی دیکھ پا رہے تھے،بنا آنکھوں میں کسی چبھن کے احساس کے۔”کیا مطلب ہے بیٹے؟میں آپ کی بات سمجھا نہیں۔”احمد صاحب نے بدقت سوال کیا۔انہوں نے بھی چائے کا کپ میز پر دھر دیا تھا۔سِنان کے چہرے پر چھائی سنجیدگی انہیں ہولا رہی تھی۔اب چائے کسے پینی تھی،اب تو بات جاننی تھی۔”سمجھا تو پوری طرح سے میں بھی نہیں ہوں مگر جتنا اور جو کچھ سمجھا ہوں وہ کچھ خوش آئند نہیں ہے۔”انتہائی ناپ تول کے الفاظ ادا کیے۔سنہرے چہرے پر تفکر کے سایے تھے۔آدھا چہرہ روشنی میں تھا جبکہ چہرے کا اوپری حصہ سرخ ہو رہا تھا۔”لیکن بات کیا ہے بیٹا؟آپ نے کہا کہ دھیان رکھنا پڑے گا کہ مزید کچھ اس طرح کا نہیں ہو تو اس کا کیا مطلب ہوا؟”اب کی بار سنعیہ بیگم اپنا دل تھامے اس سے پوچھ رہی تھیں۔آنکھیں سہمی ہوئی تھیں اور آواز لرز رہی تھی۔”سب سے پہلے تو جو بھی میں کہوں وہ آپ لوگوں نے تسلی سے سننا ہے اور سمجھنا ہے۔میں پوری تفصیل جو مجھے پتہ ہے اور مجھے جتنا اندازہ ہے وہ آپ کو بتانے لگا ہوں
Ek Sakoot E Bekaraan by Syeda Episode 11
![](https://classicurdumaterial.com/wp-content/uploads/2025/01/20250116_051052-1280x700.jpg)