مگر آپ دونوں نے غصہ نہیں ہونا اور نہ ہی پریشان ہونا ہے۔اللہ بہتر کرے گا سب۔”سِنان کچھ آگے کو ہو کر بیٹھا اور تفصیلی تمہید باندھی۔وہ دونوں بےچین ہوئے گویا اب صبر ناگزیر تھا۔”بولو بیٹا۔”احمد صاحب کے لہجے میں اضطرابی تھی۔”انکل ہم لوگ جب زرش کے جنازے میں گئے تھے تو آپ نے لوگوں کو باتیں بناتے سنا تھا،ہے نا؟”سِنان نے بغور اپنے سسر کو دیکھ سوال کیا۔”ہاں۔۔۔”یک لفظی جواب دیا تھا انہوں نے۔دل زخمی ہو گیا تھا وہ باتیں سوچتے ہوئے جو لوگوں کی زبانوں پر جاری تھیں۔سنعیہ بیگم کو بھی خواتین کے حصے میں جاری چہ میگوئیاں یاد آئی تھیں۔بھلا لوگ اتنی کم ظرفی کیونکر ہی دکھاتے ہیں؟کیا دوسروں کے عیبوں کو ڈھانپنے کا حکم نہیں ملا ہمیں؟کیا بنا تحقیق کیے الزام لگانے پر کوئی گناہ نہیں؟کیا گناہ کے باوجود اس کا ڈھنڈوار پیٹنے اور اس کو سر عام بیان کرنے کی مناہی نہیں کی گئی؟تو پھر کیوں ہم اس طرح سے ادھیڑ دیتے ہیں کسی کی ذات کو کہ وہ اس سبب زندگی سے ہی روٹھ جاتا ہے اور زندگی سے روٹھ جانا صرف موت ہی تو نہیں۔زندہ رہتے ہوئے وجود کے اندر زندگی کی خواہش کا مر جانا بھی تو زندگی کا روٹھ جانا ہی ہے۔”الزام تراشی کرتی زبانوں کے درمیان چند مدھم مگر اثر انداز سی کچھ سرگوشیاں بھی تھیں جو ہجوم کے باعث دب گئی تھیں اور فی الحال میں انہی سرگوشیوں کی بات کر رہا ہوں۔”اس نے ان کی سوچوں کو رد کیا۔وہ ان کے چہروں پر چھپی تحریر باآسانی پڑھ چکا تھا تبھی تردید لازم تھی کہ وہ غلط سمت میں سفر کر رہے تھے۔اب دونوں کے چہروں پر اچھنبا تھا۔اب وہ دونوں ٹھیک سمت میں مڑے تھے اور اب سِنان نے انہیں راہ دکھانی تھی۔”پھر کون سی سرگوشیوں کی بات کر رہے ہو تم؟”احمد صاحب نے ہی سوال کیا۔سنعیہ بیگم تو بس چپ چاپ سن رہی تھیں۔”وہ سرگوشیاں جو پراسرار تھیں تبھی مخفی رہ گئیں جو دنیا کی عام خبروں جیسی نہیں تھیں تبھی شہہ سرخیاں نہ بن سکیں۔”سِنان نے کچھ سنسنی پھیلائی پھر مزید بولا۔”گیم۔۔۔دی اورکا گیم کی سرگوشیاں۔۔۔اورکا ایک قاتل گیم،نئی نسل کو سوسائیڈ کی جانب دھکیلنے کیلیے بنایا گیا ایک خطرناک گیم۔”پورا خلاصہ بیان کیا جس پر وہ خود ابھی پوری طرح سے مطمئن نہیں تھا۔”گیم؟گیم کی وجہ سے کوئی سوسائیڈ کیوں کرے گا؟”اس پوری گفتگو میں پہلی بار سنعیہ بیگم نے لب کشائی کی۔جتنی حیرانی جملے میں تھی،اس سے زیادہ ان کے چہرے پر تھی۔دوسری جانب احمد صاحب کی بھنویں فکر سے جڑ گئی تھیں۔”بالکل درست میرا بھی یہی ماننا ہے کہ کوئی گیم کی وجہ سے اپنی زندگی ختم نہیں کر سکتا لیکن معاشرے میں یہ بات ہولے ہولے جڑ پکڑ رہی ہے کہ ایک گیم ہے جو نوجوانوں کی جان لے رہا ہے۔”وہ اپنی ساس سے متفق ہوا مگر ساتھ ہی مزید پہلو بھی اجاگر کیے۔”وہاں بیٹھے ایک دو لوگوں کو تو میں نے بھی کسی گیم کے بارے میں بات کرتے سنا تھا اور آج ایک ڈیلر کے ساتھ بات چیت کے دوران بھی میں نے ایک بندے کو اس بارے میں بات کرتے سنا تھا۔وہ اسی ڈیلر کا اپنا بندہ تھا اور وہ بول رہا تھا کہ اس کے علاقے میں آگے پیچھے چار پانچ کم عمر لڑکے لڑکیوں نے خودکشیاں کی ہیں۔”احمد صاحب نے خلا میں دیکھتے ہوئے آج پیش آئی روداد سنائی۔”گیم کی وجہ سے؟”سنعیہ بیگم نے اپنے شوہر سے سوال کیا۔سِنان بھی اپنے سسر کو بغور دیکھ رہا تھا۔سوال سن کر وہ حواسوں میں لوٹے اور ان دونوں کو باری باری دیکھ بتایا۔”نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں کہی اس نے مگر یہ بتایا کہ ایسا پہلے کبھی ہوا نہیں اور یوں اتنے لڑکے لڑکیوں کی خودکشی کے پیچھے یقیناً کوئی گہرا راز چھپا ہے۔میں نے اس وقت تو اس کی باتوں کو رفع دفع کر دیا تھا مگر اب وہ باتیں کھٹک رہی ہیں۔”احمد صاحب نے گہری سانس خارج کر،سِنان کی جانب دیکھا۔”تمہیں کیا لگتا ہے بیٹا؟”سوال میں خوف تھا۔”میں نے شروع میں ہی کہا تھا کہ مجھے مکمل بات نہیں پتہ بس اڑتی اڑتی کئی خبریں مجھ تک پہنچی ہیں تو میں آپ دونوں کو بتا رہا ہوں تا کہ آپ لوگ محتاط رہیں۔”سِنان نے پھر سے بات کا آغاز کیا۔”دیکھیں گیم ہے تو سہی،اس سے ہم انکار نہیں کر سکتے مگر گیم میں ایسا کیا ہے جو بچوں کو خودکشی پر مجبور کر رہا ہے،اس سے ہم ناواقف ہیں۔”اب کی بار وہ سوچتے ہوئے بول رہا تھا۔روشنی اب مدھم پڑ رہی تھی۔سِنان پر البتہ اب بھی کچھ روشنی باقی تھی۔”کیسا گیم ہے یہ؟کیسے کھیلتے ہیں اسے؟اور کیا زرش اور وسیم بھی یہ گیم کھیل رہے تھے؟اور اگر ایسا ہے تو پھر تو احمر بھی۔۔۔
Ek Sakoot E Bekaraan by Syeda Episode 11
![](https://classicurdumaterial.com/wp-content/uploads/2025/01/20250116_051052-1280x700.jpg)