ابھی ہم دو عوامل پر ہی بات کرتے ہیں،تیسرے کو چھوڑیں۔”اس نے اہم نکات پر روشنی ڈالی پھر ایک نکتے کو خود ہی خارج کر دیا۔”بلکہ ابھی صرف گیم کی بات کرتے ہیں۔”پھر تمام ہی باتوں کو رد کر نئی بات کا آغاز کیا۔احمد صاحب اور سنعیہ بیگم ہمہ تن گوش تھے۔”گیم تیزی سے پھیل رہا ہے اور خطرناک بھی ہے اور اگر وسیم اور زرش کی موت کے پیچھے بھی یہی گیم ہے تو پھر کزن اور دوست ہونے کی نسبت اس بات کے چانسز بہت زیادہ ہیں کہ ہمارا احمر بھی اس گیم کے چنگل میں پھنسا ہوا ہو۔”اب جو بات اس نے کی تھی وہ بات نہیں دھماکہ تھا جو بیک وقت ان دونوں کی سماعتوں پر ہوا تھا۔وہ دونوں سن رہ گئے تھے۔آنکھیں پتھرائیں اور زبان گویائی سے محروم ہو گئی۔”لیکن۔۔۔احمر۔۔۔”دو لفظ اٹک اٹک کر احمد صاحب کی زبان سے نکلے۔”ضروری نہیں کہ یہ سب حقیقت ہو،یہ بس میرا تجزیہ ہے اور یہ آپ لوگوں کے سامنے بیان کرنے کی وجہ حفاظت ہے۔آگاہی ہر بار عذاب نہیں ہوتی بعض اوقات بروقت آگاہی حادثات سے بچا لیتی ہے۔اسی لیے میں نے آپ دونوں کو یہ بات بتائی کہ ہم مل کر احمر کو بچا سکیں۔”وہ اپنی بات کی وضاحت کر رہا تھا مگر احمد صاحب اور سنعیہ بیگم بہت مایوس اور افسردہ نظر آ رہے تھے۔”مجھے احمر سے یہ امید نہیں ہے۔ابھی اسے بلا کر پوچھتا ہوں۔”احمد صاحب کا تو ذہن ماؤف ہونے لگا تھا۔ساری باتیں ذہن سے نکل گئی تھیں اور بس ایک ہی فکر ستا رہی تھی کہ احمر کی جان چلی گئی تو۔۔۔وہ فوراً اٹھے مگر اس سے قبل کہ وہ احمر کو پکارتے یا اندر جاتے،سِنان نے اٹھ کر ان کا بازو پکڑا اور انہیں واپس نشست پر بٹھا دیا۔”یہی نہیں کرنا ہے انکل۔آپ کو کیا لگتا ہے آپ بلا کر اس سے پوچھیں گے کہ تم گیم کھیل رہے ہو اور وہ ہامی بھرے گا؟اور چلیں اس نے گھبرا کر مان بھی لیا یا آپ کے دباؤ میں آکر قبول کر لیا تب بھی کیا ہو جائے گا؟آپ اس پر غصہ ہوں گا،اسے برا بھلا کہیں گے،اپنی تربیت کو کوسیں گے اور اس کو لعن طعن کریں گے اور اس کے جواب میں وہ روئے گا،گڑگڑائے گا،معافی مانگے گا،شرمندہ ہو گا اور احساس کمتری میں چلا جائے گا پھر یہ احساس کمتری اسے باغی بنا دے گا،آپ سے دور کر دے گا یا شاید اس کی جان لے لے گا اور اگر یہ سب نہ بھی ہوا تو وہ آپ پر کبھی بھروسہ نہیں کرے گا،اسے لگے گا کہ آپ اس پر نظر رکھ رہے ہیں،اسے آزادی نہیں دے رہے۔”وہ بیٹھے اور اس کی بات سن کر مخمصے میں چلے گئے۔”تو کیا کروں اسے اس کے حال پر چھوڑ دوں اور چپ چاپ بیٹھ کر تماشا دیکھوں؟”وہ اس سے سوال کر رہے تھے۔اب کے لہجے میں ترشی تھی۔”نہیں۔تماشا بھی مت دیکھیں مگر جاسوسی مت کریں۔اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ہاں نگرانی کریں اولاد کی،نگرانی کرنے کی اجازت ہے والدین کو مگر جاسوسی اولاد کی بھی نہیں کر سکتے۔”بات کرتے ہوئے وہ اٹھ کھڑا ہوا۔دونوں کی نگاہیں بھی اس کے ساتھ سفر کر رہی تھیں۔وہ اپنی کرسی سے اٹھ کر میز کی جانب جھکا اور جگ سے پانی کا گلاس بھر کر اپنے سسر کی سمت مڑا۔”پانی پی لیں۔”پانی کا گلاس ان کی جانب بڑھایا۔انہوں نے ایک نظر اپنے داماد پر ڈالی پھر پانی کا گلاس تھام کر لبوں سے لگا لیا۔”ایک بات بتائیں انکل،آپ کو مجھ پر بھروسہ ہے؟”خالی گلاس ان کے ہاتھ سے لے کر سِنان نے میز پر رکھا اور واپس اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔”بالکل ہے۔”احمد صاحب نے گہری سانس خارج کر خود کو پرسکون کیا۔”تو بس پھر اطمینان سے میری بات سنیں اور یقین رکھیں کہ میں کوئی ایسی بات نہیں کہوں گا جس میں احمر کا نقصان ہو۔وہ میرا چھوٹا بھائی ہے اور مجھے عزیز ہے۔میں بس چاہتا ہوں کہ وہ محفوظ رہے۔”سِنان کی جانب سے کرائی گئی یقین دہانی ان دونوں کو اطمینان بخش گئی۔روشنی اب مدھم ہو رہی تھی۔وقت تیزی سے ڈھل رہا تھا۔معدوم ہوتی روشنی ہنوز سِنان کی پشت روشن کر رہی تھی۔”آپ احمر کی نگرانی کریں،اس کا دھیان رکھیں مگر اس کی جاسوسی مت کریں۔اسے اپنی موجودگی کا،اپنے ساتھ کا یقین دلائیں،اسے یہ احساس نہ دلائیں کہ آپ اس پر نظر رکھے ہوئے ہیں،اس پر شک کر رہے ہیں۔ایسی باتیں والدین اور اولاد میں نفرت کا باعث بنتی ہیں اور یہ بات میں یونہی ہوا میں نہیں کہہ رہا،یہ دینِ فطرت یعنی اسلام کا طریقہ ہے۔والدین کو اولاد کی پرائیویسی کا خیال رکھنا چاہیے۔جب اولاد جوانی کی دہلیز پر آئے تو چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔”نوجوان اولاد کے والدین کو بہترین نصیحتیں کر رہا تھا وہ۔سنجیدہ انداز مگر نرم لہجہ دلوں پر اثر کر رہا تھا۔”یہ پرائیویسی کا ہی تو نتیجہ ہے بیٹا جو کچھ پتہ ہی نہیں چلا کہ اولاد کیا کر رہی ہے؟دیکھ لو وسیم اور زرش کو۔”سنعیہ بیگم نے افسوس سے سر ہلایا۔”پہلی بات تو یہ لازمی نہیں کہ سب ایسا ہی ہو۔یہ محض میرا ایک مفروضہ ہے مگر اگر یہ سب ایسا ہے بھی تو بہت معذرت آنٹی اس کی وجہ پرائیویسی نہیں بلکہ غفلت ہے۔والدین کی غفلت۔”ایک زور دار طمانچہ تھا جو بنا ہاتھ اٹھائے لگایا تھا۔دونوں نے ایک شرمندہ سی نظر ایک دوسرے پر ڈالی۔کیا وہ لوگ بحیثیت والدین شکست کھا گئے تھے۔یہی سوچ تھی جو ایک ساتھ دونوں کے ذہنوں میں آئی تھی۔سِنان نے ہاتھ منہ کے آگے کر،ہنکارا بھرتے دونوں کو شرمندگی سے نکالنا چاہا۔کسی حد تک کامیاب بھی ہوا۔وہ لوگ دوبارہ اس کی جانب متوجہ ہو گئے۔”ایک بات جو مجھے لگتی ہے کہ والدین کو جس چیز کے بارے میں مکمل معلومات نہ ہو وہ چیز کبھی بھی اولاد کے حوالے نہ کریں جیسے موبائل اور فیس بک۔۔۔یہ نئے دور کی نئی ایجاد ہے جو آج کل کی نسل کیلیے بھی نئی ہے مگر دلچسپ ہے سو وہ اس میں غرق ہوتے جا رہے ہیں مگر انہی بچوں کے والدین اس فیس بک نامی بلا اور سمارٹ فون نامی شے سے انجان ہیں اور ان کی دلچسپی ان سب چیزوں میں زیرو ہے لیکن پھر بھی بچوں کو اس چیز کے حوالے کر دیا ہے۔”
Ek Sakoot E Bekaraan by Syeda Episode 11
![](https://classicurdumaterial.com/wp-content/uploads/2025/01/20250116_051052-1280x700.jpg)