“لیکن بیٹے یہ تو آج کل لازمی ہے۔دنیا میں اگر آگے بڑھنا ہے تو یہ سب تو اپنے بچوں کو سکھانا پڑے گا ورنہ تو وہ پیچھے رہ جائیں گے۔”احمد صاحب نے اس کی تفصیلی بات پر سوال اٹھایا جو کہ کچھ زیادہ غلط بھی نہ تھا۔”بالکل ٹھیک کہا آپ نے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ بچوں کو انہی چیزوں کے حوالے کر دیں اور خود بالکل آنکھیں بند کر کے بیٹھ جائیں۔میں جانتا ہوں والدین کیلیے یہ دلچسپی کی شے نہیں ہے مگر انہیں جنریشن کے اس گیپ کو مٹانا چاہیئے۔جو چیز ان کے بچوں کیلیے دلچسپی کا باعث ہے وہ انہیں سیکھنی چاہیے تا کہ وہ بھی انجان نہ ہوں اور اپنے بچوں کو محفوظ رکھ سکیں۔بچے امانت ہیں،ان کیلیے محنت اور کوشش کرنی پڑتی ہے تا کہ وہ زندگی میں صحیح سمت چلیں اور اس کیلیے لازمی ہے کہ والدین کو ہر سمت اچھے سے ازبر ہو پھر بچہ کسی بھی سمت مڑے والدین اس تک پہنچ سکتے ہیں،اسے گائیڈ کر سکتے ہیں،اسے پروٹیکٹ کر سکتے ہیں۔آپ بچوں کے نگران ہیں سو نگرانی کریں تا کہ وہ آپ پر بھروسہ کریں،نہ کہ جاسوس بن کر جاسوسی کریں کہ وہ باغی ہو جائیں،فیصلہ آپ کا ہے۔”وہ باتیں کر رہا تھا اور دل مطمئن ہو رہا تھا۔اس کے پاس ہر ہی مشکل کا حل موجود تھا کیونکہ وہ اس کتاب کی روشنی میں مشکلات کا تجزیہ کر رہا تھا کہ جو آفاقی تھی اور حق تھی سو ہر مشکل کا ہی حل نکلتا جا رہا تھا۔”اب میں وہ بات کرنے لگا ہوں جو سب سے اہم ہے اور جس کیلیے یوں سمجھ لیں کہ میں نے اتنی لمبی تمہید باندھی ہے مطلب کہ ابھی تک کی گئی گفتگو اسی ایک بات کی بنیاد تھی۔”اس کی بات پر دونوں چوکنے ہو کر بیٹھ گئے۔یقیناً بہت اہم بات تھی جو وہ اب کرنے لگا تھا۔سورج اب ڈھلنے کے بالکل نزدیک تھا۔سِنان کی پشت سے روشنی غائب ہو چکی تھی۔مغرب کی اذانیں شروع ہوئی چاہتی تھیں۔”اگر آپ کی اجازت ہو تو آپ کا بڑا بیٹا اور احمر کا بڑا بھائی ہونے کی حیثیت سے میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ کچھ دن کیلیے اسے میرے ہمراہ بھیج دیں۔میں اسے شہر کی اس ٹینشن بھری زندگی سے نکال کر کچھ عرصے کیلیے اپنے ساتھ وادیوں میں لے جانا چاہتا ہوں تا کہ وہ ان سب اذیتوں سے نکل سکے۔”وہ بڑے مان سے ان سے اجازت طلب کر رہا تھا۔
احمد صاحب اور سنعیہ بیگم سوچ میں پڑ گئے۔کچھ دیر یونہی سوچوں میں گھرے،ایک دوسرے کو کن انکھیوں سے دیکھنے کے بعد احمد صاحب نے گہری سانس ہوا میں چھوڑی۔سِنان ان کے بولنے کا منتظر تھا۔”تم پر بھروسہ ہے اور تمہاری باتوں سے دل کو مزید تسلی بھی ہوئی ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم اس کا خیال بہت اچھے سے رکھو گے مگر میرا دل ڈوب رہا ہے۔بار بار یہی سوچ آ رہی ہے کہ اگر احمر بھی گیم کھیل رہا ہوا اور اس نے اپنی جان دے دی تو پیچھے ہم تو ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔جوان اولاد کو قبر میں اتارنے کا حوصلہ نہیں ہے مجھ میں۔”احمد صاحب بولے تو آواز میں صدیوں کی تھکن تھی اور دل ڈوبا جا رہا تھا۔سنعیہ بیگم کی حالت بھی کچھ جدا نہ تھی۔سِنان کرسی پر آگے کو کھسکا اور اپنے سسر کے ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں لے کر دبائے گویا اپنے ہونے کا احساس دلایا۔”انکل میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کی امانت کو اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا تو خیانت نہیں کروں گا بلکہ صحیح سلامت آپ کو واپس کروں گا۔میرے ہوتے ہوئے احمر کے ایک بال کو بھی کوئی نہیں کاٹ سکتا پھر جان لینا تو دور کی بات ہے۔”سِنان کے الفاظ انہیں ہمت دلا رہے تھے۔وہ اسے امید بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔مقابل کی نگاہوں میں بھی مان و احترام کی چمک تھی۔فیصلہ اب زیادہ دشوار نہ لگ رہا تھا۔”فیصلہ آپ دونوں پر ہے۔اگر آپ کو مناسب نہ لگے تو نہ بھیجیں اسے میرے ساتھ مگر پھر بھی اس کی جاسوسی مت کیجیے گا اور میرے بتائے طریقے سے اسے ہینڈل کریے گا۔باقی میں ہر وقت ہر لمحہ اپنے چھوٹے بھائی کیلیے موجود رہوں گا۔”وہ احمر کی حفاظت کا بھرپور یقین دلا چکا تھا اور فیصلہ بھی ہو چکا تھا۔احمد صاحب نے ایک نظر اپنی بیگم کو دیکھا۔ان کے تاثرات بھی راضی بہ رضا لگ رہے تھے سو انہوں نے اپنے داماد کو اجازت سے نوازا۔”ٹھیک ہے بیٹا تم احمر کو اپنے ساتھ لے جاؤ،ہمیں ہوئی اعتراض نہیں۔”انہوں نے پیار سے اس کے ہاتھوں پر تھپکی دی۔سِنان مسکرایا اور ہلکا سا جھک کر ان کا شکر گزار ہوا۔دن اور رات اب باہم ملنے لگے تھے سو وقت قلیل ہو رہا تھا۔کچھ ہی دیر میں فضاؤں نے مغرب کی اذانوں سے معطر ہونا تھا اور سِنان کو اس سے قبل ہی بات سمیٹنی تھی۔”ایک اور بات۔”پھر تمہید باندھی گئی۔”ہاں کہو بیٹا۔”سنعیہ بیگم نے خوشدلی سے اجازت دی۔احمد صاحب بھی مطمئن سا مسکائے۔”آپ اپنی امانت میرے حوالے کر ہی رہے ہیں تو ساتھ ہی میری امانت بھی میرے حوالے کر دیں۔”سِنان نے مسکراتے ہوئے اپنے ساس سسر کو دیکھا جو ناسمجھی سے اسے دیکھ رہے تھے۔”مطلب کیسی امانت بیٹے؟”احمد صاحب نے اچھنبے سے دریافت کیا۔”سبین۔۔”نام لبوں سے ادا ہوا تھا اور دل دھڑکا گیا تھا کیونکہ دل پر نقش تھا یہ نام۔”میں سبین کو رخصت کروا کے لے جانا چاہتا ہوں اپنے ساتھ۔”پوری تفصیل واضح کی گئی۔”لیکن یوں اچانک۔۔کیا سبین بھی گیم کا حصہ ہے یا تمہیں اس پر بھی شک ہے؟”احمد صاحب کی آواز میں ہچکچاہٹ تھی۔”نہیں انکل مجھے اس پر شک نہیں بلکہ یقین ہے۔”وہ رکا اور ان دو نفوس کی سانس رکی۔”یقین ہے کہ وہ اس طرح کی خرافات میں نہیں پڑ سکتی۔”بات مکمل ہوئی اور سانس بحال ہو گئی۔سِنان سبین کی بات چھپا گیا تھا۔وہ سبین کا شوہر تھا اس کا لباس اور لباس عیبوں کو ڈھانپنے کیلیے ہوتے ہیں سو وہ کیسے اس کی غلطی کسی کے سامنے عیاں کر دیتا پھر چاہے اس کے والدین ہی مقابل کیوں نہ ہوں۔”پھر اچانک رخصتی؟”سنعیہ بیگم کو اپنے داماد کی اچانک فرمائش کچھ سمجھ نہ آئی۔”میں چاہتا ہوں کہ سبین بھی اس سوگ بھرے ماحول سے کچھ عرصے کیلیے باہر نکلے۔ابھی اس سے مل کے آیا ہوں،وہ اپنے کزنز کی ڈیتھ سے بہت اپ سیٹ ہے اور اب اگر میں احمر کو بھی لے جاؤں گا تو وہ اکیلی پڑ جائے گی۔اسی لیے اسے بھی ساتھ لے کر جانا چاہتا ہوں اور جب جانا ہی ٹہرا تو رخصتی ہی کروالی جائے کیونکہ پھر کوئی تک نہیں بنتی نہ بنا رخصتی کے لے جانے کی۔”پوری تفصیل سن کر سبین کے والدین سر کو اثبات میں جنبش دے رہے تھے گویا بات عقل میں آگئی تھی۔”ٹھیک ہے بیٹا۔ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔تم جب چاہو اپنی امانت لے جاؤ۔”احمد صاحب نے اجازت دی اور فضا میں مغرب کی اذانیں گونجنے لگیں۔سورج غروب ہو گیا تھا۔دن رات میں ضم ہو کر دنیا کو اندھیروں کے سپرد کر گیا تھا مگر کچھ گھنٹوں کیلیے۔”ٹھیک ہے پھر میں دو دن بعد آؤں گا اپنے والدین کو لے کر تب تک آپ نے میری اور اپنی دونوں کی امانتوں کا خیال رکھنا ہے۔اب میں چلتا ہوں اللہ حافظ۔”وہ بات کرتے کرتے ہی کھڑا ہو گیا تو ان دونوں نے بھی اس کی تقلید کی۔”بیٹا کچھ دیر تو بیٹھو،کھانا کھا کر چلے جانا۔