Uncategorized

Ek Sakoot-E-Bekaraan by Syeda Episode 2

کراچی شہر کے پوش علاقے میں موجود اس دو منزلہ رہائشی عمارت میں صبح ہی سے ہنگامہ خیز کارروائیاں شروع ہو چکی تھیں۔ہر طرف گہما گہمی کا عالم تھا اور شور و غل کا یہ حال تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی۔اس پر ستم یہ کہ آوازیں پھر بھی وجودوں سے نکل کر فضاؤں میں سفر کرنے سے باز نہ آرہی تھیں۔
ماحول میں برپا شور کی صورت آوازوں کو سنتے ہوئے یہی لگ رہا تھا جیسے گھر میں کوئی آفت ٹوٹ پڑی ہو مگر نظریں اگر مناظر پر دوڑائی جاتیں تو لوگوں کے کھلتے ہوئے چہروں اور سماعتوں کو ذرا کھول کر بغور جائزہ لیا جاتا تو معلوم ہو رہا تھا کہ وہ جو محض شور لگ رہا تھا،وہ تو خوشی میں ڈوبے ہوئے کلام تھے جن میں جوش کا عنصر ذرا زیادہ بڑھ جانے کی سبب وہ غل معلوم ہو رہے تھے پھر کچھ اور غور کرنے پر معلوم ہو رہا تھا کہ فضا میں ڈھول کی تھاپ بھی تھی اور نسوانی آوازوں میں گونجتے ہوئے گیتوں کا ترنم بھی گھل رہا تھا۔اب جب بصارت و سماعت نے مناظر کا گہرائی سے مشاہدہ مکمل کیا تو پتہ چلا کہ یہ شادی والے گھر میں جاری معمول کی سرگرمیاں اور ہنگامی کارروائیاں تھی جو کہ لازم و ملزوم تھیں۔
گھر کا کھلا صحن اس وقت عورتوں سے بھرا ہوا تھا۔ایک نسبتاً بڑی عمر کی گوری چٹی سرخیوں میں ڈھلی عورت لکڑی کے تخت پر بیٹھی،آس پاس کی عورتوں سے باتوں میں مشغول تھی۔اس عورت کے چہرے پر خوشی پھوٹی پڑ رہی تھی۔عورتوں سے گھرے تخت کے درمیان میں کچھ عروسی زیورات سجے ہوئے تھے۔انہی زیورات پر گفتگو کی جا رہی تھی اور تعریفی کلمات ہر ایک زبان پر جاری تھے۔
“د سینان ناوی نیکمرغه ده۔”
(سِنان کی دلہن نصیبوں والی ہے)
پاس بیٹھی ایک درمیانی عمر کی عورت پختون زبان میں گویا ہوئی۔
“ماشاءاللہ۔”تخت پر ٹھاٹ سے بیٹھی بڑی عمر کی اس عورت نے سِنان کی دلہن کی خوشیوں کو اللہ کے حوالے کیا۔لہجہ اس کا بھی خالص پختون تھا۔
یہاں گفتگو مزید آگے بڑھ گئی تھی مگر اب جملوں پر سُروں نے سبقت حاصل کر لی تھی اور صحن کے چکنے فرش پر بیٹھی لڑکیاں بالیاں اونچی آواز میں تالیاں بجاتی ہوئی،گانوں کے بول دہرا رہی تھیں۔ڈھول پیٹتی لڑکی کو بھی جوش چڑھا تھا اور دھم دھم کی آواز کانوں کو قریباً چیرنے لگی تھی مگر شادی والے گھر میں اس سب سے بھلا کوئی فرق آتا ہے۔عام دنوں میں جہاں اس قدر شور پر ڈانٹ ڈپٹ اور لعن طعن تک کی نوبت آجاتی ہے،وہاں شادی کے دوران اس طرح کے شور و غل کو مستی مزہ اور یہی تو دن ہیں گانے بجانے کے،کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے اور سبھی خوشی خوشی کانوں میں صور کی طرح چبھتا یہ شور برداشت کرتے ہیں۔سو یہاں بھی یہی سب چل رہا تھا۔ہر ایک خوش دلی سے کانوں کے پردوں پر گراں گزرتی آوازوں کو قبول کر رہا تھا کہ تبھی صحن میں ایک مردانہ،جھنجلائی ہوئی آواز گونجی اور سب ہی ساکت ہو کر آن وارد کو دیکھنے لگے۔سب کی آنکھیں پہلے تو حیرت سے پھیلیں پھر سکڑیں اور اس کے بعد لبوں پر جھینپی سی مسکان سج گئی۔لڑکیوں نے چہرہ نیچے کیا اور شرمائی سی ہنسی ہنسنے لگیں۔دبے دبے قہقہے فضا میں سنائی دینے لگے جبکہ تخت پر بیٹھی عورتوں نے آواز پر غور کیا،نو وارد کو دیکھا اور زور زور سے،بنا کسی لحاظ کے ہنسنے لگیں۔
وہ جو پہلے ہی غصے میں تھا،ان سب کے اس طرح ہنسنے پر مزید تپ اٹھا اور اپنی کانچ سی ہلکے سبز رنگ کی آنکھیں باری باری سب پر گھمائیں۔آنکھوں میں جھنجلاہٹ ہنوز واضح تھی مگر وہاں موجود نفوس ذرا بھی متاثر نہ ہوئے تھے اور ہنسنے میں ہی غرق تھے۔
اس کا پارہ مزید چڑھنے لگا۔اس وقت اس کا غصہ کسی قدر جائز تھا۔وہ قریباً صبح کے چار بجے اپنے فرائض نبھا کر گھر لوٹا تھا اور نیند کی آغوش میں جاتے،اسے آدھا پون گھنٹہ لگ گیا تھا۔اس کی نیند بھی اس کی طرح نخریلی تھی،آسانی سے دام میں نہیں آتی تھی۔وہ بستر پر لیٹ کر کئی کئی کروٹیں بدلتا تھا تب کہیں جا کر آنکھ لگتی تھی اور نیند کی وادیاں،خوابوں کی دنیا میں اس کو خوش آمدید کرتی تھیں سو پچھلی رات بھی نیند نے سو نخرے دکھا کر اسے قبول کیا تھا۔اوپر سے آج وہ مبارک دن تھا کہ جب ایک نازک اندام حسینہ اسے قبول کرنے والی تھی یعنی اس کا خاص دن تھا سو وہ کچھ دیر سو کر تازہ دم ہونا چاہتا تھا تاکہ پہلوئے یار میں نہ سو جائے مگر نہ جی۔۔۔یہاں کسی کو فکر ہی نہیں تھی،یہاں سب کو اپنی پڑی تھی۔اس کے خاص دن کو اپنے اپنے حساب سے وہ سب لوگ مزید خاص بنانے میں لگے تھے اور ان کے مطابق دلہا کا آرام یا نیند،اس خاص میں کہیں نہیں آتا تھا۔
وہ اوپر سو رہا تھا اور ان ظالموں نے اپنی ننھی فوج اوپر چھوڑ رکھی تھی۔وہ اس کے کمرے کے ساتھ بنے کمرے میں موج مستیوں میں مگن تھے۔
“دلته ځه په بد حال يم او تاسو ټول خاندې۔”
(یہاں میری حالت خراب ہے اور تم سب ہنس رہے ہو)اسے بہت اچھی اردو آتی تھی مگر چونکہ یہاں سب پختون بیٹھے تھے اور وہ خود بھی انہی میں سے تھا تو اپنی مقامی زبان میں ان سب سے مخاطب ہوا۔لہجہ صدماتی تھا۔
“نو خپل لباس ته اوګوره۔”
(تو اپنا حلیہ دیکھ)ان سب کے درمیان ٹھاٹ سے بیٹھی بڑی عمر کی عورت نے چہرے پر دوپٹہ رکھا اور مزید ہنسنے لگی۔
یہ بات سن کر اس کا اپنی جانب دھیان گیا تو وہ شرمندہ سا ہو گیا اور گھبرا کر یہاں وہاں دیکھنے لگا۔وہ سو رہا تھا اور سوتے میں سے ہی اٹھ کر آیا تھا۔سوتے ہوئے قیمض تو نہیں پہنی جاتی نا!قمیض بےشک نہیں تھی مگر سیاہ شلوار نے عزت رکھی ہوئی تھی اور ایسا بھی نہیں تھا کہ تن کا اوپری حصہ بالکل ہی بےپردہ تھا،اسے بھی سیاہ بنیان سے ڈھانپا ہوا تھا۔ہاں گورا کسرتی جسم اس بنیان میں نمایاں ہو رہا تھا اور بازو تو بالکل ہی بےپردہ تھے۔حلیہ کچھ ایسا معیوب بھی نہیں تھا مگر بہن بھابھیوں کے سامنے آنے کیلیے مناسب بھی نہیں تھا۔اس کا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا اور آنکھیں جھک گئیں۔
ان سب کو ہنستا چھوڑ وہ فوراً اندر کو بھاگا۔پیچھے سے قہقہوں کی بڑھتی ہوئی آواز اس کے ساتھ آئی تھی۔
یہ تھے جناب سِنان خان آفریدی صاحب جن کا آج نکاح تھا۔یہ خود کراچی کے رہائشی تھے اور یہ ان کا ہی گھر تھا۔وہ یہاں اپنے ایک کل وقتی ملازم کے ساتھ رہتے تھے مگر پچھلے کچھ دنوں سے ان کے گھر میں ہجوم لگا ہوا تھا اور یہ ہجوم ان کے اپنے گھر والوں کا تھا جو ان کو ایک نازک اندام دوشیزہ کے پلو سے باندھنے کیلیے کراچی میں ان کے گھر ٹہرے ہوئے تھے اور جن کے ہاتھوں وہ ابھی بےعزت ہو کر آئے تھے،وہ ان کی ماں تھیں۔
وہ اندر گیا تھا اور کچھ دیر بعد ڈھیلی ڈھالی سی شرٹ پہنے باہر چلا آیا تھا۔شلوار پر شرٹ پہنے بھی وہ خاصا وجیہہ لگ رہا تھا۔وہ باہر آیا اور آکر اپنی ماں کے تخت کے ساتھ کرسی لگا کر بیٹھ گیا۔
“ځما خوب سره څه دښمني؟”
(میرے سونے سے کوئی دشمنی)سِنان کی شرمندگی اب غائب ہو چکی تھی اور خفگی عود کر آئی تھی۔
“ارے اماری کیا دشمنی۔۔۔ام تو گانا بجانا کر را ہے۔یہ تو شادی والے گھر کا رواز ہے۔”اس کی ماں بنا شرمندہ ہوئے بولنا شروع ہوئی۔اب کی بار انہوں نے اردو میں جواب دیا۔زبان اردو تھی مگر لہجہ خالصتاً پختون تھا اور مونث مذکر میں بدل گیا تھا۔

Admin2

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,
Uncategorized

Dil dharky tery liye By Warda makkawi

dharky dil twry liye by Warda makkawi is a Classic, Urdu, Romantic, & Social Novel.  It was published online on