“تو امارے کو بھی سونے دو۔توڑا آہستہ آواز میں گانا بجانا کرو۔ام دولا ہے اور رات کو ڈوٹی سے دیر سے لوٹا تھا۔ابی نئیں سوئے گا تو وہاں نکاح میں نیند آئے گا ام کو۔”سِنان نے بھی پشتو چھوڑ،گلابی اردو میں بات شروع کی حالانکہ سالوں سے کراچی میں مقیم ہونے کی سبب اس کی اردو خاصی اچھی تھی مگر اپنے گھر والوں سے وہ پشتو یا پھر اسی طرح گلابی اردو میں ہی بات کرتا تھا۔
“ایک تو خدا خدا کر کے تمارا شادی ہو را ہے۔چوتیس کا ہو گیا اے تم۔یہ کوئی عمر ہے شادی کرنے کا؟اپنا بین بائی کو دیکھو اٹھرہ کا ہوا نئیں کہ شادی رچا لیا اور ایک تم ہے خانہ خرابہ۔۔۔”وہ اب اسے کوسنے دے رہی تھیں۔پیار بھرے کوسنے جو وہ اکثر ہی کال پر اسے دیا کرتی تھیں اور جب سے کراچی اس کی شادی میں شریک ہونے کیلیے آئی تھیں تب سے منہ پر دے رہی تھیں۔
بس فرق یہ تھا کہ پہلے طعنے “شادی کب کرے گا؟” “کرے گا بھی یا نئیں؟”اس قسم کے ہوتے تھے اور اب جبکہ وہ شادی کر رہا تھا تو،”اس عمر میں شادی کر را ہے۔” “تم بڈا ہو گیا اے۔” “یہ بھی کوئی عمر اے شادی کرنے کا۔” اس قسم کے تھے۔باوجود اس کے کہ وہ ایف آئی اے سائبر کرائم سے منسلک تھا مگر اس کی سمجھ سے باہر تھیں اپنی ماں کی باتیں۔
“تو مت کراؤ شادی۔۔۔”سِنان نے بھی اتراہٹ کا مظاہرہ کیا۔
“چپ کر۔۔۔اتنا مشکل سے اتنا خوبصورت لڑکی ملا اے تمارے لیے اور تم اے کہ ابی بی بکواس کر را اے۔”ماں کو یکدم ہی طیش آیا تھا۔فوراً سے اس کے کندھے پر دھموکا جڑ کر اسے خاموش کرایا۔
ایک ایک کر خواتین اور لڑکیاں اب آنگن خالی کر رہی تھیں چونکہ نکاح جمعہ کی نماز کے بعد تھا سو سبھی کو اب تیاری شروع کرنی تھی۔اب گانا بجانا بھی بند ہو گیا تھا اور شور شرابا بھی۔یکدم ہی سِنان کو چڑ سی آنے لگی۔
“مطلب میرے سونے سے مسئلہ تھا پوری پلٹن کو۔”اس نے کڑھ کر سوچا۔ساتھ میں کندھا بھی سہلا رہا تھا۔
“اپنی پسند سے بہو لا را ہے جبی اچھا لگ را ہے۔اگر میں اپنی پسند سے لاتا تو تماری آنکھوں میں چبھتا۔”سِنان نے کندھا سہلاتے ہوئے اپنی ماں کو چھیڑا تھا۔
“ارے تم کہاں پسند کرتا!تم تو بس کمپوٹر پر ٹک ٹک کرتا اے اور لوگوں کو پکڑتا اے۔تمارے بس کا بات نئیں تا لڑکی ڈونڈنا۔اپنی مورے کا ایسان مانو تم۔اس بڑاپے میں تمیں جوان لڑکی مل گیا۔”حسبِ توقع وہ چھڑ گئی تھیں اور انہوں نے جواباً اس کی بینڈ بھی بجا دی تھی۔وہ ابھی چونتیس سال کا ہی تھا اور اس کی ہونے والی بیوی کی عمر غالباً بیس اکیس سال تھی۔ہاں وہ اس سے چھوٹی تھی مگر اتنی بھی کوئی ننھی کاکی نہیں تھی کہ جس کے سامنے وہ بڈھا لگتا۔ساتھ ہی اماں نے اس کے کام کو بھی گھسیٹ لیا تھا۔ان کے مطابق اس کا کام ہی اصل وجہ تھا جو وہ شادی سے دور بھاگتا تھا۔اس میں کچھ اتنی بھی مبالغہ آرائی نہیں تھی۔وہ ایف آئی اے سائیبر کرائم سے منسلک تھا اور اسے اپنے کام سے عشق تھا۔وہ اسی زندگی میں خوش تھا اور لڑکی کی ذمہ داری اٹھانے سے کچھ گھبراتا تھا۔چھرے چھانٹ زندگی گزارنے کا اپنا ہی مزہ تھا اور شادی تو تھی ہی نری ذمہ داری۔۔۔وہ بھی ایک نازک دوشیزہ کی ذمہ داری اور کسی نازک حسینہ کی ذمہ داری اٹھانا،سِنان جیسے روکھی پھیکے انسان کیلیے کچھ مشکل تھا۔
اس کی ماں تو اس کی شادی نوجوانی میں ہی کر دینا چاہتی تھیں۔یہ تو وہ تھا جو ہٹ دھرمی دکھاتے ہوئے اب تک بچ رہا تھا لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی،سو اسے بھی چھری تلے آنا ہی پڑا۔لڑکی بھی انہوں نے ہی پسند کی۔کراچی میں کسی رشتے دار کی شادی میں پسند آئی تھی انہیں سبین احمد۔گندم کی کلی جیسی رنگت والی سبین پہلی ہی نظر میں ان کے دل کو بھا گئی تھی۔آناً فاناً رشتہ ہوا تھا اور آج باقاعدہ نکاح کیا جا رہا تھا۔یہ کلی طور پر ماں باپ اور گھر والوں کی پسند سے کی جانے والی شادی تھی بلکہ انہی کی خواہش کیلیے کی جانے والی شادی تھی۔سِنان نے تمام معاملات اپنی ماں بہنوں پر ہی چھوڑ دیے تھے۔سبین کی تصویر تک بھی اس نے نہیں دیکھی تھی۔یہی سوچا تھا کہ شادی ہوگی تبھی دیکھ لے گا۔اسی لیے وہ ابھی تک اس کے حسن سے ناواقف تھا مگر بیزار نہیں تھا بلکہ آج کے دن اس سے ملنے کیلیے کچھ بےتاب تھا اور اتنے عرصے میں اپنی بہنوں سے جتنی اس کی تعریفیں سنی تھیں تو اشتیاق مزید بڑھ گیا تھا۔گھر والوں نے بولا بھی کہ تصویر دیکھ لو مگر سِنان نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ “اب رخ روشن کا دیدار بیوی بنا کر ہی کریں گے۔”
“جا جا کر تیار او جا۔میں بھی جا ری۔”آنگن اب خالی ہو گیا تھا۔اس کی ماں بھی اٹھ کر چلی گئی تھی بس کرسی پر بیٹھا وہ جوان وجیہہ آدمی رہ گیا تھا۔
وہ کرسی سے اٹھا اور صحن میں لگے آئینے میں اپنی صورت نہارنے لگا۔وجیہہ چہرہ،سرخ سفید رنگت،بھورے بال،ہلکی سی شیو،اٹھی ہوئی مغرور ناک،بھرے بھرے سرخ لب،کانچ سی سبز آنکھیں،خم دار گھنی پلکیں اور گھنی بھنویں۔۔۔اس کے نقوش جاذب نظر تھے۔یہ خاندانی میراث تھی اس کی۔ظاہری بات تھی کہ وہ پختون قبیلے سے تعلق رکھتا تھا اور پختون بھلا کبھی بدصورت ہوا کرتا ہے!اسی لیے وہ بھی نہیں تھا اور رہی بات اس کی جوانی یا بڑھاپے کی تو وہ چونتیس سالہ بھرپور توانا جوان مرد تھا جس کا جسم فولاد کا سا تھا۔وہ فوجی تھا اور طاقت فوجیوں کی میراث ہوتی ہے۔
اس نے بغور اپنا خوبصورت سا چہرہ دیکھا تو ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھل گئے اور اب وہ مزید دلکش لگنے لگا تھا۔
***