وہ بچہ چلتے چلتے ایک لکڑی سے بنے جھونپڑ نما گھر کے اندر غائب ہو گیا۔پیچھے کا سفید منظر سنسان ہو گیا۔آگے بڑھ جانے والے ہمیشہ ہی اسی طرح اپنے پیچھے والوں کو سنسان کر جاتے ہیں اور پھر چھوٹ جانے والے وجود اسی طرح خاموش ہو جاتے ہیں جیسے ابھی یہ منظر تھا بالکل خاموش حالانکہ منظر میں ہنوز مختلف ذی نفس چل پھر رہے تھے مگر اس مخصوص منظر یعنی اس جمی ہوئی جھیل اور اس کے ساتھ بنا پہاڑ،اس اداس بچے کی کمی کو محسوس کر رہے تھے۔
وہ بچہ اندر داخل ہوا اور گرم موٹے جوتوں اور جرابوں سے اپنے پیروں کو آزاد کیا۔پیر سرخ تھے پھر اس نے نیچے کو جھک کر اپنی بےحد موٹی،جانور کی کھال سے بنی جرسی اتاری۔جرسی سر اور ہاتھوں سے بیک وقت اتری اور وہ اوپر اٹھ گیا۔اب وہ کچھ آزاد محسوس کر رہا تھا۔ساتھ ہی اب اس کا حسن زیادہ واضح ہو رہا تھا۔اس کے چہرے کے نقوش تیکھے تھے مگر رخسار کی اوپری ہڈی اٹھی ہوئی تھی،کچھ پھولی سی،سرخی مائل سفید۔وہ سرخ سٹرابیری کی مانند لگ رہا تھا۔چہرہ پورا سرخ اور ناک اور گالوں کے اوپری حصے پر جھائیوں کے نشانات تھے جو سٹرابیری پر لگے بیج معلوم ہو رہے تھے تبھی وہ سرخ ٹماٹر نہیں بلکہ سرخ سٹرابیری سا لگ رہا تھا۔
قدموں کی چاپ ماحول میں گونجی اور گونجتی ہوئی اس کے نزدیک آکر تھم گئی۔بریس کی نظروں نے ان قدموں کے ساتھ سفر کیا تھا۔قدم اس کے قریب ٹہرے تو وہ مقابل کا چہرہ دیکھنے لگا۔وہ حیران اور کچھ ڈری ہوئی نظروں سے سامنے دیکھ رہا تھا۔وہاں اس کی ماں کھڑی تھی اور خونخوار نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
“اس جھیل پر جا کر بیٹھنے اور سوگ منانے کا کیا مقصد ہے؟”دونوں ہاتھ کمر پر ٹکائے اس کی ماں نے سوال کیا۔آنکھیں سپاٹ تھیں مگر اب کی بار آواز قدرے پست تھی۔
بریس انہیں دیکھے گیا۔کانچ سی آنکھیں کسی بھی قسم کے تاثر سے عاری تھیں اور زبان گویا قوتِ گویائی سے محروم۔
“مجھے ایک بات بتاؤ بریس،یہ تم ایک بار ہی میں میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتے،ہاں؟”اس کی ماں نے اس کے ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے نزدیک کیا۔وہ بنا کسی مزاحمت کے قریب ہو کر کھڑا ہو گیا۔
“کیا جواب دوں؟”اس بچے نے سوال پر سوال دھرا۔اس کی ماں کو غصہ تو بہت آیا مگر پی گئی۔
“یہی کہ تم جھیل پر جا کر سوگ کیوں مناتے ہو؟” خون کے ابلتے ہوئے شراروں کو ٹھنڈا کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے،اس کی ماں نے اپنے تئیں تحمل مزاجی کا مظاہرہ کیا۔
“میری اورکا مر گئی۔”وہ دکھ سے گویا ہوا۔نیلی کانچ سی آنکھیں پانیوں میں ڈوبنے لگیں مگر اس نے سیلاب کو رخسار پر بہنے سے روکے رکھا۔کمال ضبط کا مظاہرہ کر رہا تھا وہ دس سالہ روسی بچہ۔
“اوف اوہ۔۔۔میں تنگ آگئی ہوں تمہارے آئے دن کے ناٹک سے۔آجاؤ اور کھانا کھا لو۔”ماں نے جھنجلا کر اندر کی راہ لی۔
بریس بھی تھکے تھکے قدموں سے ان کی تقلید کرنے لگا۔اندر پہنچا تو کھانے کی میز پر کھانا سجا ہوا تھا اور اس کے والد اور بڑا بھائی کھانے میں مشغول تھے۔اس کی ماں بھی اب ایک کرسی سنبھال چکی تھی۔اس نے بھی قدم بڑھائے اور آگے آکر ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔
“بریس کہاں تھے تم؟ہم کب سے تمہارا انتظار کر رہے تھے کھانے پر۔”سربراہی کرسی پر بیٹھے اس کے والد نے نرمی سے سوال کیا۔
“باہر جھیل کے پاس بیٹھا تھا۔پتہ نہیں جمی ہوئی جھیل اسے کیا دے رہی تھی؟”نوالہ چباتے ہوئے اس کی ماں نے سر جھٹکا۔
“بیٹا جھیل میں کیا ہے؟”اب کی بار اس کا باپ پوری طرح اس کی جانب متوجہ ہوا۔اس نے اپنے باپ کو غور سے دیکھا پھر اس کی دائیں جانب،اپنے سامنے بیٹھے،اپنے بڑے بھائی کو دیکھا جو نوالہ چباتے ہوئے اسے دیکھ کر ہنس رہا تھا۔مذاق اڑاتی وہ ہنسی بریس کو بری لگی تھی۔
“کچھ نہیں۔”یہی جواب دینا تھا اس نے۔وہ اصل بات چھپا گیا اور اپنی پلیٹ نزدیک کر کھانا ٹونگنے لگا۔
“تمہارا بیٹا پاگل ہو گیا ہے۔کہتا ہے میری اورکا مر گئی۔بتاؤ ذرا اس بات کا کیا مطلب ہوا؟”اس کی ماں اپنے شوہر کو بیزاریت سے بتانے لگی۔یہ بیزاریت خاص بریس کیلیے ہی تھی۔اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہمیشہ ہی اس کی ماں کی زبان کڑوی ہو جاتی تھی۔اس کے برعکس اس کے بڑے بھائی لیو کے بارے میں وہ جب بھی گفتگو کرتی تھیں،شہد ٹپکتا تھا۔ایسا کیوں تھا؟اس سے بریس فی الحال انجان تھا مگر اسے یہ باتیں اذیت دیتی تھیں۔
کھانے کھاتے ہوئے وہ مسلسل اپنے بھائی کو دیکھ رہا تھا جو ماں کی باتوں پر ہنوز ہنس رہا تھا۔وہ ہمیشہ ہی اس کا مذاق اڑایا کرتا تھا۔
“اورکا؟؟؟”کچھ لمحات سوچنے کے بعد اس کے باپ نے اچھنبے سے اسے دیکھا۔
“کون سی اورکا؟”پھر اس سے سوال کیا۔اس کے باپ کا لہجہ نرم تھا۔وہ اس سے پیار کرتا تھا مگر یہ پیار بریس کو کم کم ہی میسر آتا تھا کیونکہ اس کا باپ نوکری کی غرض سے شہر میں رہتا تھا اور دو تین مہینوں میں ایک دو مرتبہ ہی گھر آیا کرتا تھا۔
“میں نے کھانا کھا لیا۔اب میں جا رہا ہوں۔”سوال کو نظر انداز کر اس نے پلیٹ کھسکائی اور اٹھ کر بھاگ گیا۔
“یہ ایسا ہی ہے،تم چھوڑو اور کھانا کھاؤ۔میں اسے سمجھا لوں گی۔”ماں کی آواز نے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا۔آواز تیزی سے سفر کرتی ہے،روشنی سے بھی تیز۔۔۔
***