“انکل ضروری نہیں ہے کہ ڈپریسڈ انسان ہر وقت مایوسی میں ڈوبا رہے۔ایسا انسان سب کے سامنے نارمل بی ہیو کرتا ہے اور تنہائی میں آنسو بہاتا ہے۔اسے تنہائی ڈستی ہے پھر وہ آہستہ آہستہ انہی اندھیروں کے سپرد ہو جاتا ہے۔”اس نے ان کے ذہن کی کلبلاہٹ دور کی۔
“پتہ نہیں یار کیا ہو گیا ہے آج کل کے بچوں کو!اچھی خاصی زندگی کو مشکل بنا لیا ہے۔ہم بھی تو تھے بچپن لڑکپن،یہ سب وقت ہم نے بھی گزارے ہیں اور ہماری زندگی میں بھی سو طرح کے مسائل آئے ہیں مگر کبھی خودکشی تک نہیں گئے،نہ ہی مایوس ہوئے۔اتنی سی عمر میں کیا مایوسی!”نئی نسل کی جلد باز فطرت پر وہ افسوس سے سر ہلا کر رہ گئے۔
“آپ کا دور اور تھا اور آج کا دور اور پھر آنے والا کل مزید مختلف ہوگا۔مختلف ادوار میں والدین کو اپنی ذمہ داری سمجھنی ہوگی۔آپ ایک اولڈ ایج جنریشن کو آج کی کمپیوٹر جنریشن سے نہیں ملا سکتے۔آپ کے مسائل الگ تھے اور آج کے بچوں کے مسائل الگ ہیں۔آپ کو ان کے زمانے کے حساب سے ان کی تربیت کرنی ہوگی نہ کہ اپنے دور کے حساب سے اور اس تربیت کیلیے پہلے آپ کو اپنی تربیت کرنی ہوگی،یہ بےحد ضروری ہے مگر والدین اولاد کے معاملے میں اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں۔”سانس لینے کو رکا۔گھر اب کچھ دور ہی تھا۔قبرستان وسیم کے گھر سے دور تھا تبھی اتنی طویل گفتگو باآسانی جاری تھی۔
“اور رہی بات مایوسی کی تو وہ انسان کے دماغ کی کارستانی ہے،ایک بیماری ہے جس کا علاج ضروری ہے اور اس کا علاج صرف اللہ سے مضبوط تعلق جوڑ کر ہی ہو سکتا ہے۔کوئی نماز،روزہ،زکوت،حج،آپ کو مایوسی سے نہیں نکال سکتا۔صوم صلوٰۃ کے پابند افراد بھی ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ انہیں اللہ پر یقین نہیں ہوتا۔”کتنی مشکل بات تھی اور کتنی آسانی سے بیان کر دی تھی سِنان نے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کا اللہ سے کمزور ہوتا تعلق ہی ان میں مایوسی بڑھانے کی بڑی وجہ ہے تبھی آج کل مسلمان بھی اس ڈپریشن نامی بیماری کا شکار ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ڈپریشن ایک بیماری ہے اور اس کا علاج ضروری ہے مگر علاج کے ساتھ ساتھ اس کی جڑوں تک پہنچ کر اسے کھوکھلا کرنا بھی ضروری ہے۔مسلمان اللہ سے تعلق کو مضبوط بنائے اور اس پر یقین کامل کر کے بیٹھ جائے تو ڈپریشن نامی یہ بیماری اس کے قریب تک نہیں بھٹکے گی کیونکہ اللہ پر یقین مایوسی مٹاتا ہے اور مایوسی ہی ڈپریشن ہے۔
“اللہ پر یقین تو ہر مسلمان کو ہوتا ہے یار۔”وسیم کے والد نے اپنے تئیں درست بات بیان کی۔
“نہیں انکل انسان جلد باز ہے وہ دنیا کی مختصر آزمائشوں سے گھبرا کر راہِ فرار ڈھونڈتا ہے۔”سِنان نے ان کی بات رد کر دی اور اپنی وضاحت بیان کی۔
“میں آپ کو ایک ایسے آدمی کا قصہ بتاتا ہوں جو میدان جنگ میں اسلام کیلیے لڑا پھر بھی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جہنمی قرار دے دیا حالانکہ وہ ابھی زندہ تھا۔”نہایت احترام سے اس نے زمانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک واقعہ بیان کرنا شروع کیا۔وسیم کے والد بغور اسے دیکھ اور سن رہے تھے۔گاڑی اب ایک موڑ مڑ رہی تھی اور اسی سیدھی سڑک پر ان کی منزل تھی۔
“صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جب یہ بات سنی تو تشویش میں آکر اس شخص کی خبر گیری کو جا پہنچے کہ جو اسلام کی خاطر زخموں سے چور ہو گیا مگر اس پر آگ حرام نہ کی گئی،یہ بھلا کیسے ہو گیا۔وہ لوگ جب وہاں پہنچے تو عجیب معاملات دیکھے۔وہ شخص زخموں سے چور تھا۔بےطرح تڑپ رہا تھا۔زخم تکلیف دے رہے تھے مگر دم نہ نکل رہا تھا۔اس شخص نے میدان جنگ کی تکالیف اٹھائیں مگر ان زخموں کی تکلیف اٹھانے کی سکت نہ رکھ سکا اور خود کو مار دیا کہ اس تکلیف سے نجات پا لے۔یوں باوجود اسلام کی جانب سے جنگ لڑنے پر کہ جس میں شہید یا غازی کا رتبہ پاتا ہے انسان،اس حالت میں وہ تکلیف کی شدت کو برداشت نہ کرنے پر خودکشی کر کے جہنمی بن گیا۔جنت بس کچھ فاصلے پر تھی،ہاں تکلیف حد سے سوا تھی کیونکہ اس دور میں کوئی پین کلر وغیرہ نہیں ہوتی تھی اور تلوار اور نیزوں کے گہرے زخموں کی تکلیف کا احساس بھی جان لیوا تھا جبکہ علاج مزید تکلیف دہ تھا لیکن پھر بھی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں جہنم کی وعید سنائی۔”پورا واقعہ دلسوز تھا۔سنانے والے اور سننے والے کے رونگھٹے کھڑے کر گیا تھا۔
“اللہ اکبر۔۔۔صحیح بات ہے بیٹا۔واقعی مایوسی سے بچنا اور بچانا ازحد ضروری ہے۔ہم اپنی زبان سے تو کہتے ہیں کہ ہمیں اللہ پر یقین ہے مگر دل و دماغ اس بات پر متفق نہیں ہوتے اور یوں مایوسی ہم پر غالب آتی ہے پھر یہی مایوسی ہمیں کفر تک لے جاتی ہے۔”وہ اب پوری بات اچھے سے سمجھ چکے تھے۔
“ہمم پھر یہی کفر ہمیں موت تک لے جاتا ہے۔یوں بھی کفر موت ہی تو ہے۔کافر کی زندگی بھی بھلا زندگی ہے جب تک کہ اس میں ایمان کی روشنی نہ شامل ہو جائے۔جیسے کہ میں نے پہلے بھی بتایا کہ روشنی کے طلب گاروں کو اندھیرے کا مسافر بننا پڑتا ہے۔”بات اب اختتام کو پہنچ گئی تھی اور منزل بھی آیا ہی چاہتی تھی۔
“واہ ماشاءاللہ بیٹے تم بہت سمجھدار انسان ہو۔اللہ نے بڑا علم دیا ہے تمہیں۔اللہ تمہیں خوش رکھے۔”وہ پھیکا سا مسکرائے اور اسے دعا سے نوازا۔
“استغفرُللہ انکل مجھے شرمندہ مت کریں۔میں خاک کا پتلا ہوں جو گناہوں میں لت پت ہے۔یہ تو بس اللہ کا کرم ہے جس نے عیبوں کو چھپایا ہوا ہے۔”وہ بےحد عاجزی سے گویا ہوا۔سینے پر ہاتھ رکھ کر ان کے سامنے سر ہلکا سا جھکایا اور شکریہ ادا کیا۔
گھر بھی آچکا تھا سو وہ دونوں اب بات ختم کر کے گاڑی سے اترنے لگے۔آگے پیچھے کئی اور سواریاں وہاں آکر رک رہی تھیں۔
گاڑی سے اترتے ہوئے وسیم کے والد کا دل باوجود غم کے،مطمئن تھا کیونکہ اب انہیں پتہ چل گیا تھا کہ آگے اپنے دوسرے بچوں کو انہوں نے مایوسی سے کیسے بچانا تھا اور اس ڈپریشن نامی ناسور کو پھیلنے سے کیسے روکنا تھا۔
***