اندھیری رات میں احمد ولا کے ایک کمرے میں ایک لڑکی جلے پاؤں کی بلی بنی پورے کمرے میں ٹہل رہی تھی۔سوچیں منتشر تھیں۔شہرِ قائد میں ابھی آدھی رات ہوئی تھی مگر یہاں ابھی چار بج کر پندرہ منٹ ہونے تھے اور اسی وقت اورکاز یعنی کھلاڑیوں کو ٹاسک پورے کرنے میں لگنا تھا۔یہی وجہ تھی سبین کی پریشانی کی۔وہ گھبرائی ہوئی تھی کہ اب آگے اور کیا کیا تماشے دکھانے تھے اس گیم نے۔ایک قیمتی جان کو وہ گنوا چکے تھے مگر اب اور وقت ضائع نہیں کیا جا سکتا تھا۔خاص طور پر وہ اپنے بھائی کو مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی۔اسی سبب بہت ہمت کر کے وہ آج سِنان سے ملنے بھی گئی تھی مگر اس ملاقات کا کوئی حاصل حصول نہ ہو سکا تھا۔
“اب کیا کروں! دوبارہ سِنان سے کیسے بات کروں؟”اب سبین کے پاس اس کا نمبر بھی تھا اور اس کا تحفتاً دیا گیا موبائل بھی مگر ہمت نہیں ہو رہی تھی خود سے پہل کرنے کی۔
“کم از کم اب کی بار تو وہ خود رابطے میں پہل کریں۔میں انہیں یہ کیوں باور کراؤں جیسے میں مری جا رہی ہوں ان سے بات کرنے کیلیے۔”اب کی بار اس کی نسوانی انا آڑے آ رہی تھی سِنان کو پکارنے میں۔
کتنا ہی ٹہلتی آخر تھک کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔موبائل نزدیک ہی پڑا تھا جسے بارہا دیکھا جا چکا تھا اور ہر بار مایوسی کا سامنا ہوا تھا۔
“لگتا ہے اکیلے ہی کچھ کرنا پڑے گا کیونکہ اب میں کسی اور کو مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتی۔”دل اداس ہوا جا رہا تھا کہ تبھی قدرت کو رحم آیا اور بالآخر اس کے شوہر کا احساس جاگا سو اسی کی مہربانی سے موبائل کی قسمت جاگی اور وہ لرزتے ہوئے جگمگانے لگا۔اس موبائل میں ایک ہی نمبر محفوظ تھا اور وہ سِنان کا ہی تھا۔
سبین نے گہری سانس بھرتے ہوئے موبائل کو دیکھا۔چہرہ چمکا اور پھر خفگی میں ڈھل گیا۔پہلے تو خیال آیا کہ کال کاٹ دے مگر پھر اپنی سوچ کو جھٹک کر کال اٹھائی۔
“ہیلو خانم کیا حال ہیں؟”خوش کن آواز سبین کی سماعتوں میں رس گھولنے لگی۔یہ سِنان کی جانب سے رکھا گیا اس کا نیا نیا نام تھا جو اسے بہت پسند آیا تھا۔
“میں ٹھیک۔۔۔آپ کیسے ہیں؟”وہ شرمائی سی آواز میں گویا ہوئی۔
“میں بھی بالکل ٹھیک۔سوری کچھ دیر ہو گئی کال کرنے میں۔دراصل تمہارے شوہر کا کام کچھ ایسا ہے کہ اسے وقت نہیں ملتا۔امید ہے کہ تم مائنڈ نہیں کرو گی۔”اس کے کہے کے مطابق طرز تخاطب بھی آپ سے تم میں بدل گیا تھا۔
سبین مسکرانے لگی۔ایک ہی جملے میں ساری ناراضگی اڑن چھو ہو گئی۔
“کوئی بات نہیں میں سمجھ سکتی ہوں۔”نرم سی آواز میں جواب دیا گیا۔وہ موبائل کان سے لگا کر سیدھی لیٹ گئی تھی۔دوسری جناب سِنان بھی دائیں بازو کا تکیہ بنائے اس پر سر ٹکائے ہوئے بیڈ پر دراز تھا۔
“نہیں جی ایسا بالکل نہیں ہے۔۔۔یہ آپ صرف ابھی کہہ رہی ہیں ورنہ آپ کو ہی مسئلہ ہوگا میرے ہر وقت کام میں گھسے رہنے پر۔”وہ شرارت سے ہنسا۔جلترنگ سی سبین کے اطراف بجنے لگی۔
“میں آپ کو ایسی لگتی ہوں؟”وہ کچھ روٹھے سے انداز میں پوچھنے لگی۔
شوخ سی آواز سِنان کو سرور دے گئی۔
“تم کیسی لگتی ہو یہ کبھی بعد میں بتاؤں گا ابھی ذرا ایک بات پوچھنی تھی تم سے،کیا پوچھ سکتا ہوں؟”شوخی سے جواب دے کر وہ یکدم سنجیدہ ہوا۔
“جی پوچھیں۔”سبین کی آواز بھی سنجیدگی میں ڈھل گئی۔
“تمہاری وہ کزن جو تمہارے ساتھ بیٹھی تھی وہ۔۔۔”وہ نام یاد کرتے ہوئے شہادت کی انگلی سے ماتھا سہلانے لگا۔
“زرش۔۔۔”سبین نے نام یاد دلایا۔
“ہاں وہی زرش۔وہ گیم کی کیا بات کر رہی تھی۔وہ گیم جیت گیا،میں نے منع بھی کیا تھا اینڈ آل دیٹ۔۔یہ سب کیا تھا،تمہیں پتہ ہے؟”سِنان نے جو بات پوچھی تھی،اس نے سبین کو چونکایا تھا۔وہ اسی بات سے تو خائف تھی۔یہی تو وہ بات تھی جو سِنان کو بتانے کیلیے تڑپ رہی تھی وہ۔
“میں اس بارے میں زیادہ نہیں جانتی مگر۔۔۔”اس نے تھوک نگلا۔کچھ وقت پہلے چھایا خمار کا موسم چھٹ گیا تھا اور حبس بڑھ رہا تھا۔
“مگر تم تھوڑا بہت جانتی ہو،ہے نا؟”سِنان تجسس کے مارے اٹھ بیٹھا۔
“جی۔۔۔”یک لفظی جواب تھا۔
“بتاؤ پھر۔”مقابل کی جستجو بڑھی۔
“میں آپ سے اسی بارے میں بات کرنے کیلیے آئی تھی آج صبح۔”وہ دانتوں سے لب چبانے لگی۔
“اچھا۔۔۔تو کیا بات ہے بتاؤ جلدی۔”اب تو معاملہ اور بھی پیچیدہ ہو گیا تھا۔
“احمر کل رات میرے پاس آیا تھا اور اسی نے مجھے اس گیم کے بارے میں بتایا تھا جس کی وجہ سے لوگ سوسائیڈ کر رہے ہیں۔اس گیم کو جیتنے کیلیے آپ کو سوسائیڈ کرنی ہوتی ہے۔”ہچکچاتے ہوئے سبین نے بات کا آغاز کیا اور پوری بات سِنان کو تفصیل سے کہہ سنائی۔