ایک شخص سیاہ بنیان اور نیلے رنگ کی گٹھنوں سے اونچی ڈینم جینز پہنے ہوئے،سوئمنگ پول کے نزدیک آکر کھڑا ہوا۔وہ نوجوان لڑکا تھا اور ہوائیں اسے تھر تھر کانپنے پر مجبور کر رہی تھیں مگر آنکھوں میں ایک جذبہ تھا۔کچھ کر گزرنے کا جذبہ مگر رات کے اس پہر،اس طرح کے لباس میں،ایسی جگہ پر کھڑے ہو کر،وہ یقیناً کوئی نیک نامی کا کام نہیں کرنے والا تھا۔
“آج کا ٹاسک بڑا ہی عجیب ہے۔بس سوئمنگ پول میں نہا کر میں بیمار پڑ جاؤں ورنہ پھر کچھ اور ٹرائی کرنا پڑے گا۔”کپکپاتی آواز بمشکل برآمد ہوئی مگر باتیں سمجھ سے بالاتر تھیں۔
اتنا کہہ کر وہ ٹھنڈے ٹھار پانی میں کودا۔جسم نے پانی میں غوطہ لگایا اور اس کا سانس جم گیا۔دل رکا اور منہ کھل گیا۔جسم جمنے لگا تو دماغ نے پیغامات بھیجے اور یوں اہم اعضاء کو محفوظ کرنے کیلیے جسم نے کانپنا شروع کر دیا۔وہ کانپ رہا تھا مگر باہر نکلنے کا روادار نہ تھا۔
“بس تھوڑی دیر اور پانی میں رہوں گا تا کہ بیمار پڑ جاؤں۔”دماغ میں نہ جانے کیسی خرافات جاری تھی جو اسے موت سے بھی خوف نہ آرہا تھا۔
کچھ دیر میں دماغ نے یا تو اسے اس ٹھنڈ کا عادی کر دینا تھا یا پھر اسی ٹھنڈ میں اس کی موت واقع ہو جانی تھی۔
“یہ تو بہت زیادہ اونچائی ہے۔آج سے پہلے ایسا لگا ہی نہیں کہ تین فلورز اتنے ہائیٹڈ ہوتے ہیں۔”سیاہ رات ایک گھر کی سنسان چھت پر ایک اور منظر کی گواہ بن رہی تھی۔وہ لڑکی اونچائی پر کھڑی کچھ گھبرا رہی تھی۔دونوں ہاتھوں کو آپس میں رگڑتی وہ کشمکش میں تھی۔
ٹراؤزر کی جیب میں رکھا موبائل لرزا تو وہ یکدم گرتے ہوئے سنبھلی۔اس آواز نے اس کی محتاط کوششوں میں خلل ڈالا تھا۔اس نے سینے پر ہاتھ رکھ کر دل کو سنبھالا اور موبائل جیب سے نکال کر کھولا تو سامنے لکھے انگریزی کے الفاظ اسے مزید سہما گئے۔
“اگر ٹاسک پورا نہیں کیا تو سزا کیلیے تیار رہنا۔۔۔”
“اوہ گاڈ اب تو کرنا ہی پڑے گا۔کوئی بات نہیں بس تھوڑی سی ہمت کرنی ہے۔”وہ اپنے آپ کو حوصلہ دیتی ہوئی کچھ آگے بڑھی اور نیچے بیٹھ گئی۔دونوں پاؤں موڑ کر اٹھائے ہوئے تھے پھر وہ پنجوں کے سہارے کچھ آگے بڑھی اور بالآخر سرے تک پہنچی۔
“اب بس پاؤں نیچے لٹکانے ہیں۔”بڑی ہمت کر کے اس نے پہلے دایاں پیر نیچے لٹکایا۔
“اللہ اللہ۔۔۔بچا لو۔۔۔”پھر بڑی احتیاط سے دوسرا پیر نیچے لٹکایا اور گرنے لگی کہ تبھی بر وقت ہاتھوں کو پیچھے سطح پر جما کر بچ گئی۔
“اب جلدی سے فوٹو کھینچ کر بھیج دیتی ہوں۔”اس نے جیب سے موبائل نکالا۔ایک ہاتھ ہنوز سطح پر جما تھا۔موبائل نکال کر کیمرہ کھولا اور اپنے ہوا میں لہراتے ہوئے پیروں کی تصویر اتاری۔
“شکر ہو گیا۔”شکر کا سانس خارج کر وہ اب پیچھے کو کھسکنے لگی تا کہ اٹھ سکے۔کھسک کھسک کر آخر کار وہ سرے سے دور ہو گئی اور اس کے پیر بھی سطح پر آگئے۔دل ہنوز خوف زدہ ہو کر دھڑک رہا تھا تبھی فوراً سے کھڑے ہونے کی ابھی ہمت نہ تھی مگر ایک خوشی سی تھی چہرے پر۔ٹاسک پورا ہو جانے کی خوشی!نہ، دماغ کی چال تھی یہ کہ اس لڑکی کو ایسا محسوس کروا رہا تھا کہ اس کیلیے یہ کام کتنا آسان تھا۔دماغ نے ڈر نکال دیا تھا۔
جو لوگ دنیا میں خطرناک جھولے جھولتے ہیں یا پھر خطروں سے کھیلتے ہیں گویا کہ زندگی سے کوئی معاہدہ کیا ہو،ان کے پیچھے کے عوامل کیا ہوتے ہیں؟کیا وہ ہوش مندی میں ایسا کرتے ہیں؟نہیں عام طور پر تو انسان ایسی چیزوں سے خوف کھاتا ہے کہ جس میں جان کا خطرہ ہو لیکن ایسے لوگ جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر زندگی سے کھیلتے ہیں،ان کا دماغ انہیں ان سب چیزوں میں مطمئن کر چکا ہوتا ہے۔دماغ ڈر کی بجائے لطف کو حاوی کر دیتا ہے سو انہیں خوف آنے کی بجائے مزہ آنے لگتا ہے۔یہ دماغ کی صفت ہے ایک جذبے پر جب دوسرا جذبہ قابو پاتا ہے تو دماغ اس کے حصار میں چلا جاتا ہے پھر دماغ اگر اس میں سکون تلاش کر لیتا ہے تو انسان کو اس میں مزہ آنے لگتا ہے۔
یہ سب دماغوں کے کھیل ہیں ورنہ کوئی گیم کسی کی جان نہیں لیتا مگر کوئی گیم ہی کسی کی جان لیتا ہے۔ہمیشہ اس چیز کو یاد رکھنا چاہئیے کہ ہر بات کے دو پہلو ہوتے ہیں۔بھلے وہ جملہ ایک ہی ہو مگر ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔
رات کی سیاہی انسانوں کی سیاہی کو اپنے اندر چھپائے ہوئے تھی اور مزید اندھیر ہوتی جا رہی تھی۔رات میں شیاطین غالب تھے اور انسان کا وجود تھا مغلوب۔۔۔۔
***
جاری ہے