مختصر بات مگر لہجہ غصے سے بھرپور تھا وہ برا ماننے کی بجاۓ دھیرے سے مقابل کے قریب آ رکی۔ اب اتنی بھی بوڑھی نہیں ہوں میں ہاں مگر شادی کر لی ہوتی تو ابھی تک پوری کرکٹ ٹیم پیدا ہوچکی ہوتی آکاشہ ملک بےباکی سے کہتی اس کے کانوں سے دھواں نکال چکی تھی۔وہ خوامخوا اپنے سوال کرنے پر شرمندہ ہوتا چہرے کی سرخی چھپانے کےلیے چہرے پر ہاتھ پھیر گیا۔زندگی میں پہلی بار وہ چھت پھاڑ قہقہ لگاتی مقابل کی شرمسار مگر گھورتی نظروں کو نظرانداز کرتے ڈھیٹھوں کی طرح دانتوں کی نمائش کر رہی تھی۔افف۔۔ بےبی تو شرما گیا آکاشہ اس کے گالوں کو کھینچتی شرارت سے بولی الحان اصغر نے ضبط سے مٹھیاں بھینچے خود کو کچھ کرنے سے بامشکل روکا۔میری عمر اکتیس سال ہے زیادہ مت سوچو جب تک بچے نہیں ہوجاتے تمھیں اپنا بچہ سمجھ کر رکھوں گی پکا پرامس چاہوں تو سٹامپ پیپر پر لکھ کر دے دوں الحان اس سرپھری لڑکی کو دیکھ کر رہ گیا ” ۔اس نے شدت سے اس گھڑی کو کوسا تھا جب اس نے اس کمپنی میں جاب کےلیے سی وی بھیجی تھی۔پر اب کیا ہوسکتا تھا سواۓ پچھتاوے کے “انکار کی صورت میں تمہیں اور تمھاری فیملی کو سلاخوں کی سیر کروا دوں گی سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا اس کے گال تھپتھپاتی وارننگ بھرے لہجے میں بولی الحان اس کے تحکمانہ لہجے کو سنتا لب بھینچ کر رہ گیا ” ۔غریب ہونا بھی ایک قسم کا عزاب ہے اور اسے شدت سے آج اس بات کا ادراک ہوا تھا غریبی ایک ایسا درد ہے جو دلوں کو مار دیتا ہے اور امیدوں کو توڑ دیتا ہے “غریبی کی زندگی میں ہر دن ایک نیا امتحان ہوتا ہے ہر پل ایک نیا درد۔۔!!
جاری ہے۔۔۔