Uncategorized

Ishq Ki Baazi by Hadisa Hussain Episode 11

نیلے آسمان پر ہر سو روشنی پھیل چکی تھی، پرندے گھونسلے چھوڑ کر رزق کی تلاش میں نکل رہے تھے۔

ارحاب کی آنکھ آج سویرے ہی کھل گئی۔
ارحاب نے ایک نظر اپنے سینے پر سر رکھے سوئی انابیہ کو دیکھا۔
“تم معصوم ہو یا شاید میرا وہم ہے۔” ارحاب نے اس کے چہرے کو دیکھ خیالوں ہی خیالوں میں سوال کیا۔
“ارحاب اس طرح دیکھ کر میری نیند خراب مت کیا کریں۔” انابیہ نے بند آنکھوں سے ہی اس کی آنکھوں کی تپش محسوس کرلی تھی۔
“یہ تم جان بوجھ کر سونے کا ڈرامہ کرتی ہو نا۔” ارحاب نے اسے تیکھے چتونوں سے دیکھ کہا۔
“نہیں آپ میری نیند خراب کردیتے ہیں۔” انابیہ نے جھٹ سے سارا الزام اس پر لگایا تھا۔
اسی وقت درواے پر ناک ہوا۔
“جی۔” ارحاب نے جواب دیا۔
“میں ناز ہوں ارحاب بھائی نانا سائیں کہ رہے آکر ناشتہ کرلیں۔” ناز دروازے پر کھڑی خود پر ضبط کرتی بولی۔
ارحاب نے اُٹھ کر دروازہ کھولا تھا ناز کی اس پر نظر پڑی تھی جس نے اس کے دل کے تار کو چھیڑا مگر پھر اس کمرے میں انابیہ کا وجود سوچ کر اس کا موڈ خراب ہوگیا۔
“ویسے اتنی صبح آپ نے ساری لائٹس آن کر رکھی ہیں۔” ناز کو حیرت ہوئی کیونکہ آج سے پہلے ہمیشہ اس نے ارحاب کے کمرے کی لائٹس آف دیکھیں تھیں۔
“وہ انابیہ کو اندھیرے سے ڈر لگتا ہے اس لیے وہ آن کرکے سونا پڑتا ہے۔” ارحاب کی آنکھوں میں انابیہ کے نام پر چمک آگئی۔
“اوہ اچھا چلیں میں چلتی ہوں، ہاں ویسے جلدی آئیے گا آج میں نے آپ کا فیورٹ ٹماٹر کے ساتھ انڈا بنایا ہے۔” ناز نے جاتے جاتے مڑ کر کہا۔
“اوکے پھر جلدی آنا پڑے گا۔” ارحاب اور ناز میں ایک سال کا فرق تھا اس لیے وہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے بات کرنے میں جھجھک محسوس نہیں کرتے تھے۔
“اس سے فری مت ہوا کریں۔” انابیہ نے منھ بناتے کہا۔
“اوہ! لگتا ہے محترمہ جیلس ہورہی ہیں۔” ارحاب نے موبائل پر وقت دیکھتے کہا۔
“نہیں میں آپ کی طرح نہیں ہوں۔” انابیہ نے اسے جتایا تھا۔
ارحاب اس کی بات سن کر مسکراتا ہوا واشروم میں گھس گیا۔
ارحاب اور انابیہ کو ساتھ ناشتے کے لیے نیچے اُترتے دیکھ صوفیہ بیگم کو آگ ہی لگ گئی تھی۔
ارحاب نے آگے بڑھ کر ایک کرسی سرک کر انابیہ کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
“یہ لڑکی ونی میں آئی ہے اس کی اوقات اس ٹیبل پر بیٹھ کر کھانے کی نہیں ہے۔” مظہر شاہ نے انابیہ کو بیٹھتے دیکھ کہا۔
“وہ ارحاب حیدر شاہ کی بیوی ہے واقعی کم ظرفوں میں بیٹھنے والی اس کی اوقات نہیں ہے مگر خیر مجبوری ہے۔” ارحاب نے یکدم ان کی بات کی کایا ہی پلٹ دی تھی۔
ارحام کے منہ سے وہیں ہنسی چھوٹ گئی۔
“ارحام۔” ارحاب نے اسے آنکھیں دکھائی۔
“میں کیا کروں بھائی آجکل آپ خود ہی اتنا کامیڈی شو کرنے لگے ہیں کے ہنسی روک ہی نہیں پاتا۔” ارحام نے ہنستے ہوئے کہا۔
“ناز میرا انڈا کہاں ہے؟” ارحاب نے میز پر بیٹھتے ہی ناز کو مخاطب کیا۔
“میں لاتی ہوں۔” ناز اپنی کرسی سے اُٹھ کر کچن میں چلی گئی۔
کچھ دیر بعد وہ ارحاب کے لیے بہت چاہ سے بنایا ہوا انڈا لے آئی۔
“ناز اگر تم نہ ہوتی تو کبھی کوئی یہ نہیں بنا پاتا۔” ارحاب نے دل سے تعریف کی تھی۔
“بہت شکریہ آپ کھائیں اور ہاں انابیہ کو بھی کھلادیں اسے بھی تو پتا چلے شاہ خاندان کی بیٹی کے ہاتھوں میں کتنا سواد ہے۔” ناز نے جیسے انابیہ کو جتایا تھا۔
“ہاں مجھے واقعی تجسس ہورہا ہے کیونکہ ارحاب کو اتنی جلدی کوئی چیز پسند نہیں آتی۔” انابیہ نے بھی اس سے تجسس کا اظہار کردیا۔
“واقعی؟ لیکن تم کمرے میں تو کچھ اور کہ رہی تھی۔” ارحاب نے اس کی طرف جھکتے کان میں سرگوشی کی۔
“وہ مجھے جتا رہی ہے کے مجھے کچھ نہیں آتا اس لیے مجھے ٹیسٹ کرنا ہے۔” انابیہ نے بھی اس کے کان میں سرگوشی کی۔
“سچ ہی تو ہے تمہیں بنانا نہیں آتا اس میں جتانے والا تو کچھ نہیں تھا۔” ارحاب نے انابیہ کو تنگ کرنے کے لیے بولا جس پر اُس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسوں تیرنے لگے۔
“ہٹیں مجھے بات ہی نہیں کرنی آپ سے دیں مجھے بھوک لگی ہے۔” انابیہ بھرائی ہوئی آواز میں کہتی پلیٹ سے انڈا لیکر کھانا شروع ہوگئی۔
“تم دونوں یہاں بیٹھ کر ایسی حرکتیں مت کرو۔” مظہر شاہ نے اُن دونوں کی حرکتوں پر تنگ آتے کہا۔
وہ سب خاموشی سے کھانا کھا ہی رہے تھے کے اچانک سے انابیہ کو اپنی سانس اٹکتی ہوئی محسوس ہوئی۔
“بیٹا آپ ٹھیک ہو؟” ساتھ بیٹھی رائنہ بیگم نے انابیہ کی سانسوں کی اکڑن کو محسوس کرتے پوچھا۔
انابیہ گہرے گہرے سانس لینا شروع ہوئی تھی ایک دم سے وہاں موجود ہر شخص پریشان ہوگیا۔
“انابیہ اگر یہ مذاق ہے تو پلیز مت کرو۔” ارحاب کو لگا کے شاید وہ غصہ ہے اس لیے اسے سبق سکھانے کے لیے ایسا کررہی ہے۔
“تمہارا دماغ ٹھکانے پر ہے ارحاب واقعی میں طبیعت خراب ہورہی ہے بچی کی۔” طاہر شاہ نے ارحاب کی بات پر غصہ ہوتے کہا۔
“ار۔ارحام جلدی سے منیر صاحب کو کال کرو۔” ارحاب نے پینک ہوتے ارحام کو مخاطب کیا۔
“کول ڈاٶں سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔” ارحاب نے اسے سینے سے لگاتے کہا۔
“اس۔۔اس کو کچھ ہو نہ جائے۔” رائنہ بیگم فکرمند ہوئیں۔
ارحام کے میسج ملتے ہی منیر صاحب دیر کیے بغیر پانچ منٹ میں شاہ حویلی پہنچے تھے۔
“وہ۔۔وہ اندر آجائیں دیکھیں اس کی بہت زیادہ حالت خراب ہورہی ہے۔” ارحاب نے جیسے مظہر شاہ کو التجا کی تھی۔
“ہاں آنے دو۔” مظہر شاہ نے حکم دیا تھا۔
منیر صاحب بھاگتے ہوئے وہاں آئے تھے جہاں اُن کی گڑیا کی سانسیں اٹک رہی تھیں۔
“گڑیا میرا بچہ بابا کی بات سن رہے ہو۔” منیر صاحب نے آتے ہی اسے مخاطب کیا۔
منیر صاحب نے اسے دوائی دیتے اسے پانی پلایا جس کے بعد وہ بیہوش ہوگئی۔
“یہ۔یہ بیہوش ہوگئی۔” ارحاب نے خوف زدہ ہوتے کہا۔
“فکر مت کرو وہ ٹھیک ہے کچھ دیر کے بعد ہوش آجائے گا۔” منیر صاحب نے وضاحت دی۔
“ویسے اس نے کیا کھایا تھا؟” منیر صاحب نے سوال کیا۔
“انڈا پراٹھا۔” ناز نے جواب دیا۔
“اس میں ٹماٹر تھے کیا؟” منیر صاحب نے مڑ کر سوال کیا۔
“ہاں ظاہر ہے ارحاب کے لیے بنایا تھا اسے ایسا پسند ہے۔” ناز نے لچک دار لہجے میں کہا۔
“انابی کو ٹماٹر سے الرجی ہے۔” منیر صاحب نے انابیہ کے لال پڑے چہرے کو تکتے بتایا۔
“تو آپ کو پہلے بتانا چاہیے تھا دیکھیں کتنی بری حالت ہوگئی ہے۔” ارحاب نے برا مناتے کہا۔
“عام حالات ہوتے تو بتادیتا لیکن اچانک سے اتنا سب کچھ ہوگیا ہے کے ذہن نے کام کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔” منیر صاحب نے بے بسی سے کہا۔
انابیہ کو ہوش آتے ہی اس نے جلدی سے منیر صاحب کو ہگ کیا۔
“چاچو۔۔میں نے آپ کو بہت یاد کیا۔” انابیہ نے روتے ہوئے کہا۔
“ہم میں نے بھی تمہیں ڈھیر سارا یاد کیا ہے۔” منیر صاحب نے اس کے ماتھے پر بوسا دے کر کہا۔
“چاچو مجھے بابا کی بہت یاد آتی ہے۔” انابیہ نے سر اٹھاکر اُن کی جانب دیکھتے کہا۔
اس کے اِس جملے پر ایک پل کو ارحاب اور منیر صاحب نے ایک دوسرے کو دیکھا۔
“اُنہیں بھی تم بہت یاد آتی ہو لیکن۔۔مجبوری ہے۔” منیر صاحب نے کہتے ہی اسے واپس سینے سے لگایا۔
“مجھے اُن کے سینے سے لگ کر اُنہیں بتانا ہے اُن کی بیٹی اُن سے بہت محبت کرتی ہے۔” انابیہ نے اپنی خواہش ظاہر کی۔
“دعا ہے تم ایسا دن بھی دیکھو۔” منیر صاحب نے دل سے دعا کی تھی۔
کچھ دیر یوں ہی باتیں کرنے کے بعد منیر صاحب وہاں سے چلے گئے۔
انابیہ کئی دیر حویلی کے دروازے کو تکتی رہی تھی۔
********************

Admin2

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,
Uncategorized

Dil dharky tery liye By Warda makkawi

dharky dil twry liye by Warda makkawi is a Classic, Urdu, Romantic, & Social Novel.  It was published online on