Uncategorized

Ishq Ki Baazi by Hadisa Hussain Last Episode

شاہ حویلی۔۔

صوفیہ بیگم سر ہاتھوں میں گرائے چہرے پر فکرمندی لیے بیٹھیں تھیں۔
“اماں سائیں وہ واقعی میں نہیں ہے۔” رائنہ بیگم پریشانی سے بولیں۔
“اگر بات آسان ہوتی تو میں کہ سکتی تھی میری طرف سے بھاڑ میں جائے مگر ارحاب۔۔مجھے اس کا خوف کھارہا ہے۔”صوفیہ بیگم کے لہجے میں خوف تھا۔
کچھ دیر گزری تھی جب مظہر شاہ بھی ڈیرے سے اُٹھ کر حویلی کو لوٹ آئے۔
“خیریت ہے پریشان لگ رہی ہو تم سب؟” مظہر شاہ نے ان کے اُڑے ہوئے رنگ دیکھ سوال کیا۔
“وہ ونی میں آئی لڑکی حویلی سے غائب ہے۔” صوفیہ بیگم نے آہستہ آواز میں اُنہیں بتایا۔
“کیا؟ حویلی سے غائب کیسے ہوسکتی ہے اگر ایسا ہوتا تو گارڈز بتاتے ہمیں۔” مظہر شاہ بھی اُن کی بات پر حیران تھے۔
“سچ میں غائب ہے ہم نے پوری حویلی چھان ماری ہے لیکن وہ کہیں نہیں ملی۔” صوفیہ بیگم نے اُنہیں اپنی بات کی یقین دہانی کرائی۔
“ہوسکتا ہو وہ اپنے باپ سے ملنے کے لیے بھاگ گئی ہو۔” مظہر شاہ نے انابیہ کی صبح والی بات کے بنا پر اظہار کیا۔
“ارحاب کو پتا لگا تو وہ بڑا طوفان کھڑا کردے گا۔” صوفیہ بیگم نے اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔
“لیکن غلطی بھی تو اس کی اپنی چہیتی کی ہے۔” مظہر شاہ نے غصے سے کہا۔
ارحام جو نیپ لینے کے نیچے آرہا تھا حویلی میں معمول سے ہٹ کر کچھ محسوس کرتے حیران ہوا۔
“کیا ہوا ہے؟” ارحام نے آنکھیں ملتے سوال کیا۔
“وہ انابیہ غائب ہے۔” رائنہ بیگم نے اسے بتایا۔
“انابیہ کیسے غائب ہوسکتی ہے۔” ارحاب کی آواز پر اُن سب کو پریشانی نے آن گھیرا۔
“وہ۔۔وہ۔۔” رائنہ بیگم اس کے ڈر سے بول بھی نہیں پارہی تھیں۔
“انابیہ کہاں ہے آپ نے ٹھیک طرح سے دیکھا ہے؟” ارحاب کو اُن کی بات پر یقین نہیں آرہا تھا۔
“ہاں ہم نے پوری حویلی دیکھ لی ہے وہ میں کہیں نہیں مل رہی۔” رائنہ بیگم نے بتایا۔
“اسٹور روم چیک کیا آپ نے؟” ارحام کو ایک وہی جگہ پر شک گزرا۔
“ہاں وہ بھی چیک کرلیے ہیں مگر وہ وہاں بھی نہیں ہے۔” رائنہ بیگم کے لہجے میں فکر تھی۔
“میں نے آپ کو کہا تھا ماں اس کا خیال رکھیے گا پہلے ہی اس کی طبیعت خراب تھی۔” ارحاب رائنہ بیگم سے ناراض ہوا۔
“بیٹا مجھے لگا وہ کمرے میں آرام کرنے گئی ہے مجھے کیا پتا تھا وہ غائب ہوجائے گی۔” رائنہ بیگم نے وضاحت دی۔
“بلائیں سب کو شاید کسی نے تو آخری بار اسے دیکھا ہوگا۔” ارحاب کا اشارہ کام کرنے والی خواتین کی جانب تھا۔
وہ سب آکر وہاں لائن میں میں کھڑی ہوگئی تب تک ارحام گارڈز سے بھی پوچھ کر آچکا تھا۔
“آپ سب میں سے کسی نے آخری بار اسے دیکھا ہو تو پلیز مجھے بتائیں۔” ارحاب کے لہجے کی بے تابی وہاں ہر شخص محسوس کرگیا تھا۔
“وہ دراصل میں نے اُنہیں تین بجے پیچھے کاٹیج کی طرف جاتے دیکھا تھا۔” ایک ملازمہ نے ڈرتے ڈرتے بتایا کیونکہ وہاں کوئی بھی ارحاب کے آگے اس کاٹیج کی بات نہیں کرتا تھا۔
ارحاب اس کی بات سن کر جلدی سے کاٹیج کی جانب بھاگا تھا اس کے پیچھے ارحام بھی چلا آیا۔
اس کاٹیج کے ایک کمرے کے دروازے کے قریب کوئی تازہ خون موجود تھا جس نے ارحاب کے سر سے آسمان کھینچ لیا تھا۔
“ن۔۔نہیں ایسا نہیں ہونے دوں گا بابا کو کھویا ہے مگر میں انابیہ کو اب نہیں کھوسکتا۔” ارحاب دیوانہ وار کاٹیج کی تلاشی لیتے بولا۔
“بھائی وہ مل جائیں گی۔” ارحام نے اسے تسلی تھی۔
“ارحام مجھے تسلی نہیں چاہیے مجھے انابیہ صحیح سلامت چاہیے۔” ارحاب کی آنکھوں سے آنسوں گرے تھے۔
صوفیہ بیگم نے آس پاس دیکھا تو اُنہیں شدت سے ناز کے الفاظ یاد آئے تھے۔
“اللہ کرے میں جو سوچ رہی ہوں ویسا نہ ہو۔” صوفیہ بیگم نے پریشانی سے کہا۔
“کیا مطلب ہے آپ کی بات کا؟” ارحاب ان کی جانب پلٹا تھا۔
ارحاب کے پوچھنے پر اُنہوں نے ناز کی کہی بات اس کو بتادی۔
“آپ یہ بات اب بتارہی ہیں مجھے حد ہوگئی ہے۔” ارحاب نے اُن پر غصہ ہوتے کہا۔
“جلدی سے اسے ڈھونڈو کہیں وہ واقعی اس بچی کو مار نہ دے۔” صوفیہ بیگم نے پریشانی سے کہا۔
“وہ اسے لیکر جا کہاں سکتی ہے؟” ارحاب کے ذہن نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔
اچانک ارحام کی نظر سامنے نظر آتے پیڑوں کے جھنڈ پر گئی تھی۔
“آپ کو یاد ہوگی وہ کوٹھی جس میں دادا جان کے دادا اپنی بندوقیں رکھا کرتے تھے اس کے لیے ہمیں ناز نے ہی بتایا تھا کے وہ جگہ آسیب زدہ ہے شاید وہیں ہوگی۔” ارحام نے بچپن کا قصہ یاد کرتے کہا۔
ارحاب اس کی بات سنتا جلدی سے وہاں کی جانب بھاگا تھا۔
ارحاب کو احساس ہوا تھا کے وہ لڑکی کس قدر اس کے لیے ضروری بن گئی تھی۔
ارحاب وہاں پہنچا تو اس کمرے کا دروازہ پہلے ہی کھلا ہوا تھا۔
ارحاب جلدی سے کمرے کی جانب بھاگا تھا جہاں ناز نے انابیہ کے چہرے پر تھپڑ رسید کیا تھا۔
لیکن کسی کا سایہ زمین پر دیکھ کر اس نے چونک کر دروازے کی جانب دیکھا تھا۔
ناز کو لگا جیسے اس نے اپنے پاٶں پر خود کلھاڑی ماری ہے۔
“انابیہ۔” ارحاب جلدی سے بھاگ کر نیچے بیہوش ہوتی انابیہ کے قریب آیا تھا۔
“مجھے یقین نہیں آرہا تم اس حد تک گرسکتی ہو۔” ارحاب نے انابیہ کے ہاتھوں کی رسی کھولتے افسوس سے کہا تھا۔
“آپ نے مجبور کردیا تھا مجھے بیس سالوں سے آپ کی توجہ پانے کے لیے ہزاروں جتن کیے تھے میں نے مگر پھر اچانک ونی میں آئی لڑکی آپ کے دل کی ملکہ بن گئی تو کیسے برداشت کرسکتی تھی میں۔” ناز نے روتے ہوئے آپ بیتی بتائی۔
“اگر میں توجہ نہیں دے رہا تھا تو تمہیں حویلی کی ایک خاندانی بیٹی ہونے کے طور پر مجھ سے کنارا کرلینا چاہیے تھا۔” ارحاب نے انابیہ کو اُٹھاتے ہوئے کہا تھا۔
“مجھے طعنہ دینے سے پہلے یہ بھی سن لیں یہ لڑکی بھی کوئی خاندانی نہیں ہے گھر سے  بھاگی ہوئی عورت کی بیٹی ہے۔” ناز نے اپنا آخری حربہ آزمایا تھا۔
“اس کی تربیت ایک بہترین خاندانی گھر میں ہوئی ہے، اور یہ بات میں پہلے سے ہی جانتا ہوں، میں نے صرف انابیہ سے محبت کی ہے جب پہلی بار اس نے مجھے غصے بھری نظروں سے دیکھا تھا مجھے فرق نہیں پڑتا اب کے اس کا باپ شبیر خان تھا یا منیب ہمدانی کیونکہ میری محبت انابیہ تھی جسے میں نے انابیہ ارحاب شاہ بناکر سکون کا سانس لیا ہے۔” ارحاب کے ایک ہی جھٹکے میں اس کا ہر خواب شکنا شور کردیا تھا۔
اس کمرے کے باہر کھڑے شاہ خاندان کے ہر فرد نے آج ارحاب حیدر شاہ کی دیوانگی دیکھی تھی۔
“ناز جواد شاہ سے انابیہ شبیر خان یا پھر انابیہ منیب ہمدانی عشق کی بازی جیت گئی ہے۔” ناز نے زمین پر بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر روتے کہا۔
ارحاب اپنی محبت کو بانہوں میں بھر کر وہاں سے نکل گیا۔
***********************

Admin2

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,
Uncategorized

Dil dharky tery liye By Warda makkawi

dharky dil twry liye by Warda makkawi is a Classic, Urdu, Romantic, & Social Novel.  It was published online on