کچھ ماہ بعد۔۔۔
“میری پیاری بیگم صاحبہ پلیز رونا بند کریں۔” ارحاب نے اپنے سینے سے لگی سوں سوں کرتی انابیہ کو چپ کرانا چاہ۔
“مجھ سے کوئی پیار نہیں کرتا آپ بھی بس چونا لگاتے ہیں۔” انابیہ نے ٹشو سے ناک صاف کرتے کہا۔
“ارے! یہ کیا بات ہوئی تم نے تو میری محبت پر ہی شک کردیا۔” ارحاب نے اسے خود سے الگ کرکے افسوس سے کہا۔
“ہاں تو شکر کریں آپ سے بات کررہی ہوں ورنہ چھوٹ تو آپ نے بھی بولا تھا۔” انابیہ نے اسے احسان جتایا۔
“میں نے کوئی جھوٹ نہیں بولا بس میں تمہیں ایسا کوئی دکھ نہیں دینا چاہتا تھا اس لیے بات چھپائی۔” ارحاب نے اس کے اپنے جھوٹا کہنے پر اس کی بات کی تصحیح کی۔
“آپ مجھے حویلی کیوں نہیں لیکر چلتے مجھے بھائی کی یاد آرہی ہے۔” انابیہ نے روتے ہوئے ایک اور فرمائش کی تھی۔
“میں سب تمہارے طریقے سمجھ رہا ہوں بس کسی طرح تمہیں حویلی جانا ہے۔” ارحاب نے اس کے اِس نٸے بہانے پر کہا۔
“جائیں بس مجھے نہیں کرنی بات آپ سے۔” انابیہ نے ارحاب کے بازو پر مارتے ہوئے کہا۔
“جائیں نکلیں میرے کمرے سے ابھی اُٹھیں۔” انابیہ نے اب اس کو بیڈ سے دھکے دے کر اُٹھایا۔
ارحاب نے کمرے سے باہر جانے میں ہی عافیت جانی۔
اس حادثے کے بعد ارحاب اپنی ماں اور بھائی کو لے کر اپنے شہر والے گھر میں لے آیا۔
“پھر سے اس نے کمرے سے نکال دیا۔” کچن میں کام کرتیں رائنہ بیگم نے ارحاب کو دیکھ کہا۔
“ہاں! پتا نہیں اُسے کیا ہوگیا ہے کبھی رات کو اُٹھ کر عجیب عجیب فرمائشیں کرتی ہے اور صبح میں رو رو کر کمرے سے نکال دیتی ہے۔” ارحاب نے ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھتے کہا۔
“برا مت مناٶ شاید چوٹ کی وجہ سے ایسی ہوگئی ہے یا پھر اتنی بڑی خبر ملی اس وجہ سے ایسا کررہی ہے۔” رائنہ بیگم نے اسے محبت سے سمجھایا۔
“نہیں برا نہیں منارہا مگر میں چاہتا ہوں وہ خوش رہے۔” ارحاب نے فکرمندی سے کہا۔
“تم اُس سے بس محبت سے پیش آٶ۔” رائنہ بیگم نے ٹیبل پر ناشتہ سجاتے کہا۔
“جی۔” ارحاب نے ان کی مدد کرتے ہوئے کہا۔
ارحام نیچے آیا تو کھانا ٹیبل پر لگ چکا تھا۔
“ارحام جاکر انابیہ کو لے آٶ۔” ارحاب نے بھائی کو دیکھ کہا۔
“پھر سے ناراض ہوگئی ہے؟” ارحام نے سوال کیا۔
“ہاں راضی ہی کب ہوتی ہے۔” ارحاب نے مایوسی سے کہا۔
“بھائی ہمت رکھیں ٹھیک ہوجائے گی۔” ارحام نے بھائی کا کندھا تھپتھپاتے حوصلہ دیا۔
“کیا میں کمرے میں آسکتا ہوں؟” ارحام نے دروازہ ناک کرکے اجازت مانگی۔
“اس نے بھیجا ہے تو واپس چلے جاٶ۔” انابیہ کو سمجھ آگئی تھی کے اسے ارحاب نے ہی بھیجا ہے۔
“میں ایک اچھا بھائی بن کر آیا ہوں۔” ارحام نے کمرے میں داخل ہوتے کہا۔
“کوئی مجھ سے محبت نہیں کرتا۔” انابیہ نے پہلا یہی شکوہ کیا تھا۔
“سب تم سے محبت کرتے ہیں لیکن تم سمجھتی ہی نہیں ہو کیونکہ آجکل تمہیں موڈ سوئنگز ہورہے ہیں۔” ارحام نے اسے سمجھایا۔
“مجھے حویلی والوں سے بات کرنی ہے کیونکہ مجھ سے میری پہچان چھپائی گئی ہے۔” انابیہ نے اس سے اپنا مدعا بیان کیا۔
“دیکھو اس کے لیے تمہیں اپنا بیہو سدھارنا پڑے گا پھر بھائی تمہاری بات مانیں گے۔” ارحام نے اسے سمجھایا۔
“اچھا چلو اب ناشتہ کرنے چلتے ہیں۔” ارحام نے اسے اُٹھنے کا اشارہ کیا۔
“نہیں مجھے نہیں کھانا۔” انابیہ نے ضدی بچے کی طرح کہا۔
“ٹھیک ہے پھر میں نوٹیلا نہیں لیکر آٶں گا۔” ارحام نے اب اس کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔
“بالکل اپنے بھائی طرح برے ہو ہر بات پر دھمکیاں دینا آتی ہیں۔” انابیہ نے منھ بگاڑتے کہا۔
“ٹھیک ہے اب چلو۔” ارحام نے اس کی بات مسکراتے کہا۔
ارحام کے ساتھ انابیہ کو آتے دیکھ ارحاب نے سکھ کا سانس لیا۔
ناشتہ کے بعد ارحاب اپنی گھڑی دیکھ گاڑی کی چابیاں اور موبائل اُٹھاکر باہر جانے کو آگے بڑھا ہی تھا کے انابیہ رونا شروع ہوگئی۔
“بھائی یہ رو رہی ہیں۔” ارحام نے پیچھے سے آواز دی۔
“کیا ہوا تم رو کیوں رہی ہو کہیں درد ہورہا ہے؟” ارحاب نے پریشانی سے پوچھا۔
“اب تم مجھ سے محبت نہیں کرتے اس لیے تو گڈ بائے کس نہیں دی۔” انابیہ نے روتے ہوئے شکوہ کیا جس پر ارحاب نے صبر کے گھونٹ بھرتے اس کی جانب دیکھا۔
“اُٹھو ہم ڈاکٹر کے پاس چل رہے ہیں۔” ارحاب کا صبر اب ختم ہورہا تھا۔
“کیوں؟” انابیہ نے ناسمجھی سے پوچھا۔
“اُٹھو بس۔” ارحاب نے کوئی بھی وضاحت دینے کے بجائے اپنی بات دہرائی۔
ارحاب نے اسے لیکر ہاسپٹل آگیا تھا۔
ڈاکٹر نے اس کی کچھ ٹیسٹ کروائیں جو کچھ دیر میں ہی آگئیں تھیں۔
“مبارک ہو۔” ڈاکٹر نے رپورٹ پڑھتے ہوئے کہا۔
“کیا؟” ارحاب نے حیرت سے پوچھا۔
“آپ کی زوجہ امید سے ہیں جس کی وجہ سے اُن کا ایسا بیہو ہے اِس لیے ایسے ہی آپ کو برداشت کرنا پڑے گا۔” ڈاکٹر نے اسے خوشخبری سنائی۔
“کیا! واٶ تھینک یو سو مچ انابیہ مجھے اتنا بڑا مقام دینے کے لیے۔”ارحاب نے انابیہ کو گلے لگاتے خوشی سے کہا۔
“میں۔۔میں اماں کی طرح کسی کی ماں بننے والی ہوں؟” انابیہ نے بے یقینی سے سوال کیا۔
“ہاں تم اماں بن رہی ہو۔” ارحاب نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
انابیہ اور ارحاب ایک دوسرے سے گلے لگ کر بہت زیادہ خوش ہوئے انابیہ کی آنکھیں ایک بار پھر چھلک پڑیں تھیں۔
ارحاب نے کار میں بیٹھتے ہی سب کو میسج کرکے اپنے گھر بلالیا۔
وہ دونوں گھر پہنچے تو وہاں سب پہلے ہی موجود تھے۔
“یہ سب یہاں کیسے؟” انابیہ نے ناسمجھی سے ارحاب کی جانب دیکھا۔
“کیونکہ اِس وقت سے زیادہ کوئی وقت پرفیکٹ ہوہی نہیں سکتا۔” ارحاب نے اس کے ماتھے پر بوسا دیتے کہا۔
سب سے پہلے وہ نینا سے اس کے بعد باقی سب سے باری باری ملی تھی، بلال کی بھی یادداشت واپس آچکی تھی۔
شبیر خان کے گلے ملتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
“میرے بابا آپ ہیں، میں آپ سے بہت زیادہ محبت کرتی ہوں۔” انابیہ نے روتے ہوئے اُن سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔
“ہاں تم میری بیٹی ہو میری پیاری بیٹی جس سے میں بے انتہا محبت کرتا ہوں۔” شبیر خان نے بھی اُسے سینے میں پھینچتے محبت سے کہا۔
“کیا ہمیں بھی موقع ملے گا؟” منیب نے ان دونوں کو اتنی دیر گلے لگ کر دیکھتے کہا۔
منیب کو دیکھ کر انابیہ نے پھر سے شبیر خان کو دیکھا۔
“میں جانتا ہوں ہمارا ماضی اچھا نہیں گزرا، تمہارے رونے کی آواز نے مجھے بیس سالوں میں ایک رات بھی کبھی مکمل نیند سونے نہیں دی ہے، میں تمہارے وہ نرم ہاتھ چھونے کو کئی سال تڑپا ہوں، میں جانتا ہوں تمہیں پہلے ہی ارحاب نے سب کچھ بتادیا ہے پھر بھی اگر معاف کرسکو تو احسان رہے گا۔” منیب صاحب نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ اس سے اپنی محبت بیان کی تھی۔
“ابا! روحان نے بھی مجھے یہی کہا تھا کے میرے رونے نے اسے کبھی سکون سے سونے نہیں دیا وہ اس کا ایکسیڈنٹ بھی اس کی دعا کا نتیجہ تھا۔” انابیہ کہتے ساتھ ہی اُن کے سینے سے لگ گئی۔
سالوں بعد اولاد کو سینے سے لگاکر منیب صاحب کو سکون ملا تھا۔
“تمہیں دیکھ کر مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہے کیونکہ اتنی محبت و تربیت ہم اُن حالات میں تمہیں کبھی نہ دے پاتے۔” ماہرا نے بیٹی کو دیکھ کہا۔
“مما!” انابیہ نے اُن کو بھی گلے لگالیا۔
انابیہ کی نظر اپنی طرف حسرت سے دیکھتی مہرالنساء بیگم پر پڑی۔
“اماں اب آپ کی نکمی بیٹی بھی ماں بننے جارہی ہے دعا کریں میں اچھی ماں بنوں۔” انابیہ نے مہرالنساء بیگم کے پاس آتے کہا۔
اچانک سے سب حیران ہوئے تھے وہ انابیہ کی بات پر غور کرنے کے بعد اُن کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
“مبارک ہو میری جان۔” مہرالنساء بیگم اسے سینے سے لگاتے رو پڑیں۔
“اماں اتنی خوشی کی بات پر رونے کی کیا ضرورت ہے۔” انابیہ نے اُن کے رونے پر کہا۔
“پگلی یہ خوشی کے آنسوں ہیں۔” مہرالنساء بیگم نے اس کا چہرہ چومتے کہا۔
“آغا جان میں آپ سے ناراض ہوں۔” انابیہ نے حیات خان کی طرف آتے کہا۔
“ناراض؟ وہ کیوں؟” حیات خان نے حیرت سے پوچھا۔
“کیونکہ آپ کے بچوں نے مجھے کنفیوز کردیا ہے آپ کو نانا سمجھوں یا دادا۔” انابیہ نے اُن سے شکایت لگائی جس پر وہ ہنس پڑے۔
“جب جس ماں باپ کی طرف سے دیکھو اُس طرح سمجھو۔” حیات خان نے ایک بہترین حل پیش کیا۔
انابیہ ان کے گلے لگ گئی۔
منیب کے والدین بھی وہاں آئے تھے انابیہ ان سے بھی ملی۔
آخر میں انابیہ نے ایک طرف خاموش کھڑے ماہیر کی جانب آئی تھی۔
“بھائی۔۔کہوں یا آپ کو بابا کہوں؟ کیونکہ اگر آپ اُس وقت میری ذمیداری نہ اُٹھاتے تو آج میرا وجود نہ ہوتا،اور شاید اتنا پیارا نام بھی نہ ہوتا، میرا ہر مقام پر ساتھ دیا میری ہر خواہش پر اپنا سب کچھ لٹانے کو تیار رہنے پر کس طرح شکریہ ادا کروں سمجھ نہیں آرہا۔” انابیہ نے ماہیر کی جانب دیکھتے آنکھوں سے بہتے آنسوں صاف کرتے کہا۔
“میں نے کہا تھا تمہارے بغیر ماہیر کا کوئی وجود نہیں ہے، تمہیں پانے کے بعد میں نے سمجھا دنیا کس طرح خوبصورت اور پیاری لگتی ہے، دعا ہے تم ہمیشہ خوش رہو۔” ماہیر نے اسے سینے سے لگایا۔
ارحاب نے آگے بڑھ کر انابیہ کو سینے سے لگایا۔
***********************
ختم شدہ
Ishq Ki Baazi by Hadisa Hussain Last Episode

Pages: 1 2