نہیں میں بنا لیتی ہوں۔۔۔کہتے ساتھ ہی بریرہ نے دروازے کے طرف قدم بڑھائے۔۔۔نہیں تم بیٹھو ارام کرو میں لے اتا ہوں کمرے میں ہی اور مجھے لگتا ہے ملازم بھی اگئی ہے کنعان کال کر رہا ہے ۔۔۔کمرے سے باہر ا کر دیکھا کام والے کام کر رہی تھی جو شاید تھوڑی دیر پہلے ہی ائی تھی اور شاہ میر تھوڑا ہٹ کر دروازے کے پاس کھڑا تھا۔ ۔۔۔شاہ میر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا دھیان رکھنا یہ کام کر رہی ہیں ان کو کام کرنے دو میں اتا ہوں۔ ۔ ۔سر کوئی کام ہے مجھے کہہ دے اب بھابھی کے پاس رہیں۔ ۔بالاج کے قدموں کو گیٹ کی طرف جاتے دیکھ کر شامیر نے فورا سے کہا بالاج نے گردن ہلا کر انکار کر دیا اور کہا ۔۔۔دھیان رکھنا میں اتا ہوں تھوڑی دیر تک۔ ۔۔۔۔دس منٹ بعد وہ ایا تو اس کے ہاتھ میں روٹیوں کا شاپر تھاکچن میں ا کر ٹرے سیٹ کی۔۔۔اپنے لیے اور بریرہ کے لیے شاہ میر اور باہر موجود ایک اہلکار کے لیے جو گیٹ پر تھا شامیر کھانا کھا لو۔۔ٹرے میں سیٹ کر کے شامیر کو اواز دینہیں سر اس کی ضرورت نہیں۔۔شاہ میر نے اس تکلف سے انکار کرنے کی کوشش۔ساری رات ادھر ڈیوٹی دینی ہے کھانا کھا لو پھر دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے کھانا ریڈی ہے ٹیبل پہ میں نے سیٹ کر دیا ہے باہر موجود اہلکار کو بھی بلا لو ۔۔۔۔بالاج نے شامیر کا انکار سنتے ہی تھوڑا سا سختی سے ارڈر دیا۔جی سر اپنی ٹرے لے کر روم میں چلا گیا ۔۔روم میں داخل ہوا تو بیڈ پر بیٹھی ہاتھوں کو مسل رہی تھی۔۔ایک ہاتھ سے ٹرے پکڑ کر اور دوسرے ہاتھ سے دروازہ بند کرتے ہوئے بریرہ کو دیکھ کر سوال کیا۔۔۔ابھی تک ڈر لگ رہا ہے کیا ۔۔۔نہیں اب ٹھیک ہے۔۔۔بالاج کو دوبارہ سے روم میں داخل ہوتا دیکھ کر جو ڈر تھا وہ بھی ختم ہو گیا۔ڈرنے کی کوئی بات نہیں میں ہوں یہاں چلو کھانا کھا لو۔۔۔کھانے کی ٹرے دونوں کے درمیان بیڈ پر رکھی۔ ۔۔روٹی کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔۔بریرہ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بالاج نے خود نوالہ بنا کر بریرہ کے ہونٹوں کے پاس کیا۔بریرہ نے چہرہ اٹھا کر دیکھا منہ کھولو چلو شاباش میں کھلاتا ہوں ۔۔۔نہیں میں کھا لوں گی۔کنفیوز ہو کر اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نوالہ پیچھے کرنے کی کوشش کی جو زبردستی اس کے ہونٹوں پر نوالہ رکھ رہا تھا۔میں کھلاتا ہوں نا چلو شاباش ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے تم تو بہت بہادر ہو۔۔۔۔نوالہ چباتے ہوئے بریرہ نے کہا اپ مجھے مکھن لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔۔نہیں یار رات کے کھانے میں مکھن نہیں لگاتا میں صبح ناشتے کے ساتھ مکھن ہوتا ہے بڑی ہی سیریس انداز میں بالاج نے دوسرا نوالہ اس کو کھلاتے ہوئے کہا۔۔۔۔بالاج کے اس قدر سیریس ہو کر بات کرنے پر اسے ہنسی اگئی تھی جو اس کی بات کو کہاں سے کہاں لے گیا۔۔۔شکر ہے تم ہنسی تو صحیح ورنہ تم نے رو رو کر دریا بہا دینے تھے اج۔۔۔اپ بھی تو کھائیں۔۔وہ کب سے بریرہ کو ہی کھلا رہا تھا اس نے محسوس کر کے وہ صرف اس کو ہی کھلایا خود نہیں کھا رہا فورا سے کہاتم کھلاؤ گی تو کھا لوں گا ۔۔۔بالاج کے اس طرح کہنے سے یریرہ نے فورا سے اپنے دونوں ہاتھ دبا لیے جیسے وہ ہاتھ پکڑ کے کھانے لگ جائے گا اس کے ہاتھوں سے۔۔۔نہیں اپ خود کھا لیں ۔۔۔۔وہ اس کے منع کرنے کے بعد خود ہی اس کو کھلا رہا تھا اپنے لیے ایک بھی نوالہ نہیں بنا رہا بریرہ نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بڑی ہمت سے روٹی کا ایک ٹکڑا توڑ کر نوالہ بنایا ۔۔۔۔۔۔۔۔