بالاج نے حیرانگی سےپہلے اس کے ہاتھ کی طرف دیکھا جو بڑی ہمت سے نوالہ پکڑے اس کی طرف دیکھ رہی تھی بھی ہاتھ پکڑ کے تھوڑا اگے کو ہوتے ہوئے نوالہ منہ میں لینے کے ساتھ اس کی انگلیاں کو بھی دانتوں میں تھوڑا دبایا۔ ۔۔۔۔۔اف اپ میری انگلیاں کھائیں گے کیا۔۔۔اپنی انگلیاں اس کے سامنے کرتے ہوئے کہا دیکھیں کتنی زور سے کاٹا ہے اپ نے ۔ ۔۔۔یار سچ میں میں نے کچھ نہیں کیا مجھے لگا کھانا ہے یہ ۔اپ کو لگا میری انگلیاں بھی ساتھ کھانی ہے۔ ۔۔میں نہیں کھلاؤں گی اپ کو روٹھے لمحے میں بریرہ نے کہتے ہوئے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا اس کو ناراض ہوئے دیکھ کر فورا سے بالاج نے اسے کہا۔۔۔۔اچھا اب نہیں کرتا کچھ کھلاؤ 100 فیصد پکی بات ہے کچھ نہیں کروں گا اس کے یقین دلانے پر دوبارہ سے نوالہ بنا کر اس کی طرف کیا۔ ۔۔۔۔۔ ایک دفعہ نوالہ تو ارام سے لے لیا لیکن ساتھ ہی ہاتھ پکڑ کر ہونٹ رکھے ہاتھوں پر۔۔۔چھوڑیں ۔۔بریرہ نے ہاتھ کھینچتے ہوئے کہا۔ ۔۔ساری زندگی کے لیے پکڑا ہے اب تو نہیں چھوڑ سکتا ایک ہاتھ سے اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر اور دوسرے سے نوالہ بنا کر کھانا کھلا رہا تھا۔۔۔بس مجھے اور نہیں کھانا ۔۔۔ابھی تو تھوڑا سا کھانا کھایا ہے اور کھا لو۔۔۔۔نہیں بس اور نہیں کھایا جائے گا ۔۔۔اپنی ایک ہاتھ میں اس کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کے رکھ کر دوسرے ہاتھ سے خود کھانا کھانے لگا جو دیکھ رہی تھی کب وہ اس کے ہاتھ چھوڑے گا وہ اٹھ کر صوفے پر جائے گی۔ ۔۔۔بالاج نے کھانا کھا کر ارام سے اس کے ہاتھوں کو چھوڑا اور کہامیں یہ برتن رکھ کر اتا ہوں۔۔میں رکھتی ہوں۔۔۔نہیں تم ارام کرو میں اتا ہوں۔۔۔ٹرے لے کر کمرے سے نکل گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاہ میر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتانا۔ ۔۔۔۔۔نہیں سر ۔۔۔۔۔کچن میں برتن رکھ کر واپس اتے ہوئے شامیر کو کہا۔نیچے روم ہے ریسٹ کر لو۔۔۔۔سر گیٹ پر ڈیوٹی دوں گا میں ۔۔۔اس کی ضرورت نہیں ہے شاہ میر ریسٹ کرو اب کوئی نہیں ائے گا ان کو بھی پتہ لگ گیا ہے ان کے ادمی پکڑے گئے ہیں۔۔۔جی سر ٹھیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔روم میں داخل ہوتے ہوئے ارام سے دروازہ بند کیا ۔۔۔۔۔۔