یہ ان دونوں کو یہاں لے کر انا۔سلوا کی اواز پر بریرہ نے بھی اپنا سر اپنے بابا کے سرکے سینے سے اٹھایا نظر سیدھا کمرے کے دروازے پر کھڑے بالاج اور اس کی گود میں عرشیان پڑ گئی تو سب سمجھ ایا کہ یہ کیا ہو گیا لیکن اپنے قدم پھر بھی اپنے بابا سے دور نہیں کیے شاید ڈر تھا اگر اج دور ہوئی تو ساری زندگی کے لیے ہو جائے گی۔کمال صاحب نے اپنے قدم بالاج کی طرف بڑھائے اپنے بابا کو اپنی طرف اتے دیکھ کر عرشیان کو اپنی گود سے نیچے اتار دیا جو بھاگ کر ماں کی طرف بڑا تھا۔کمال نے اگے بڑھ کر دروازے کے پاس کھڑے بالاج کے منہ پر اپنی پوری طاقت سے تھپڑ مارا تھا وہ تھپڑ مارتے ہوئے خود ہل گئے تھے لیکن اپنے سے قد میں بڑے بیٹے کے قدموں میں ایک فرق نہیں ایا لیکن اس کا سر جھک گیا تھا تھپڑ کھانے کے بعد اس کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلا اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ تھپڑ کے لیے ہاتھ اٹھاتے اکبر نے فورا سے اگے بڑھ کر ان کا بازو پکڑ لیا ہمارا یہاں کچھ نہیں چلو یہاں سے کمال۔بیٹے کو ایک لفظ کہے بغیر مڑ کر اکبر کے ساتھ دروازے کی طرف چل دیے بریرہ کے پاس رک کر کہا چلو جس نے ایک نظر بالاج کے جو کہ سر کو دیکھا اور عرشیان کو گود میں اٹھا لیا جو باپ کو تھپڑ پڑتا دیکھ کر سہم گیا تھا۔شکر ہے اس نے رونا شروع نہیں کیا تھا ورنہ وہ کبھی اس کے ہاتھوں میں چپ نہیں ہوتا جب تک وہ بالاج کی گود میں نہ چلا جائےبالاج کو کچھ کہے بغیر انہوں نے باہر گیراج میں جا کر کھڑے ہو گئے چند سیکنڈ میں ہی۔سلوا نے رائڈ بک کروا لی تھی اور ان کو کہا تھوڑی دیر ویٹ کرنا ہوگا۔ہم باہر ویٹ کر لیتے ہیں گھر سے اکبر صاحب نے اپنا غصہ کنٹرول کرتے ہوئے کہا اور بیٹی کو سینے سے لگا رکھا تھا جس کی گود میں عرشیان تھا۔فکر نہ کریں وہ باہر نہیں ائے گا اس طرح اگر ہم باہر کھڑے ہوں گے تو لوگ دیکھ کر پوچھیں گے تھوڑی دیر لگے گی ٹیکسی کو انے میں پھر ہم سیدھا ہیئرپورٹ جائیں گے یہاں۔فورا سے بریرہ کے پیپر یاد ائے پر کہا اپ رکے میں اتی ہوں اور جو ایک منٹ بھی اب اس گھر میں رکنا نہیں چاہتے تھے اس کے بعد سن کر۔سلوا نے جب دوبارہ سے گھر میں قدم رکھا تو بالاج اسی جگہ کھڑا تھا اس کے سامنے جا کر کھڑی ہو کر کہا بریرا کے میاں جی سونے۔بلیک پینٹ مسٹرڈ کلر کی شرٹ میں بالوں کو کور کی دونوں سائیڈوں پر سے مفرد سینے پر گرایا ہوئے ہ سلوا نے بالاج کو اواز دی۔سلوا کے بلانے پر اس کی طرف دیکھا وہ کیا ہے نا ہم نے لاہور جانا ہے۔ بائے اے ٹکٹس تو ہے میرے پاس لیکن بریرہ اور اپ کے بیٹے کی پاسپورٹ پیپر نہیں ہے وہ تو ذرا دیجیےے گا۔اپنے ہونٹوں کو دھکے سے پھیلا کر یہ بات کی جیسے وہ مسکرانا نہ چاہ رہی ہو بس مجبوری ہو اس کی مسکرانے کی۔یسلوا کی بات سن کر دانتوں کو زور سے زباتے ہوئے کمرے میں قدم رکھے ۔پیپر لا کر دیے جو کنعان کی مدد سے اتنی مشکل سے اس نے بنوائے تھے اور اج وہ کام ا رہے تھے بریرہ کا پاسورڈ اور عرشیان کا پیپر۔چند سیکنڈ میں پیپر لا کریر سلوا کی طرف بڑھا دی جس نے پکڑ کر کہا تھینک یو جی جو ویسے جتنی جلدی ائیں گے اتنی جلدی بیگم مل جائے گی گھر انے میں دیر کریں گے تو مشکل ہو جائے گیپیپر کو پنکھے کی طرح لاتے ہوئے بالاج کو ایک مفید مشورہ دیتے ہوئے باہر کی طرف چل دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بریرہ کب سے ماں کے گلے لگ کر رو رہی تھی جن کے انسو خود رک نہیں رہی تھی۔بیٹی کو اتنے سالوں بعد زندہ سلامت اپنے سامنے دیکھ کر کسی کو کچھ سمجھ نہیں ارہا تھا جو جو اس کو دیکھ رہا تھا پہلے چند سیکنڈ اس کو دیکھنے اور سمجھنے میں لگ جاتے ۔۔۔
Lamha Ishq by Sara Rana last Episode 30 Part 1
