اب جناب کا دل نہیں لگتا بریرہ نے ناک سکریٹتے ہوئے کہا۔اس کے فیس کی ایکسپریشن بنانے پر ذرا اٹھ کر اس کی ناک کی ٹپ پر ہونٹ رکھےیار سچ میں بہت مس کر رہا ہوں سب کچھ پہلے جیسا پتہ نہیں کب ہوگا اپنے انگوٹھے سے ہونٹ اوپر لگے لپسٹککو رب کیا ۔بالاج کی انکھوں کے سرخی دیکھ کر بریرہ کا گلا خشک ہو گیا تھا لیکن پھر بھی ہمت کر کے کہا اپ کون سا لینے ا رہے ہیں۔اپنا چہرہ تکیے سے اٹھا کر تھوڑا بریرہ کے چہرے کی قریب کرتے ہوئے کہا اور کس طرح لینے اتے ہیں ہر روز تو اتا ہے بابا نے بھی بات نہ کرنے کی قسم کھا لی ہے مامو سے وہ تمہیں پتہ نہیں کب میرے ساتھ رخصت کریں گے۔نزدیک ہوتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھنے کی کوشش کی لیکن اپنے ہونٹوں کے قریب بالاج کے ہونٹ محسوس کر کے اپنا ہاتھ دونوں کے درمیان میں رکھ کے کہا اپ کون سا برات لے کر ا رہے ہیں جو رخصت کروا دیں اپ کے ساتھ۔رومینٹک ہونے کی کوشش کر رہا تھا اس کے رومینس کا ستیا ناس کرتے ہوئے کہایار اب تم اچھی لگو گی دو بچوں کی ماں ہوتے ہوئے میرے ساتھ رخصت ہوتے۔بالاج نے اپنے ہونٹ کو دانت کے نیچے دباتے ہوئے اس کو چھیڑا۔بالاج کی بات سن کے فورا سے ہاتھ دونوں کے درمیان سے بھی ہٹا کر کے کہا جس نے دوبارہ سے اپنا سر تک کیے بیک کرا لیا تھا اس کے فیس ایکسپریشن دیکھ رہا تھا۔دو ہمارا تو صرف ایک ہی بیٹا ہے اور دو بچے کہاں سے ہو گئے ہمارے اور میں کیوں نہیں اچھی لگوں گی جب کہ ہمارا ایک ہی بیٹا ہے ماتھے پہ بل ڈال کر اس کو سمجھانے کی کوشش کی ایسے جیسے اس کو تو پتہ نہیں ۔جتنی دیر تمہارے گھر والے تمہیں میرے ساتھ بھیجنے میں لگا رہے ہیں تب تک مجھے لگتا ہے ہماری دوسری اولاد بھی ا جائے گی بالاج نے ہنس کر انکھ مارتے ہوئے کہا۔بالاج کی بات سن کر غصے سے ماتھے پر بلا لا کر کہا ایسے ہی ا جائے گی دونوں ہاتھ اس کے سینے پر رکھ کر اٹھنے کی کوشش کی اور اپنے پاؤں بے زمین پر لگانے کی جو نیچے زمین پر سے تھوڑا اوپر سے بیڈ پر گرنے کی وجہ سے۔ابھی ہم کوشش کرنے لگے ہیں ا ہی جائے گا اس کو گھما کر اپنے نیچے کرتے ہوئے کہا۔بالاج کیا کر رہے ہیں عرشیان اٹھ جائے گا دوبارہ سے بریرہ نے مزاحمت کرتے ہوئے کہا نہیں اٹھے گا اسے بھی پتہ ہے اس کے بابا اس کے لیے پارٹنر لانے کی کوشش کر رہے ہیں باری لہجے میں کہا۔تم چاہتی ہو کہ میں پیچھے ہٹ جاؤں۔اس کی انکھوں میں دیکھتی ہوں پوچھا جو مسلسل مزاح مت کر رہی تھی مگر وہ اسے چھوڑ نہیں رہا تھا۔بالاج کی گرم سانسوں کی تپش سے بریرہ کی سانسیں بکھرنے لگی تھی۔میں ایسا کچھ نہیں چاہتی بالاج نے بریرہ کی بات سنتے ہی اس کے بالوں میں ہاتھ بسا کر جنونی انداز میں اس کو سانس لینے کا موقع دیے بغیر اس کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ لے۔بریرہ کی انکھوں کی پتنی ناقابل یقین حد تک سکڑ گئی۔بریرہ کو بولنے کا موقع دیا بغیر اپنی سانسیں اس میں انڈیلتا کچھ بولے بغیر بھی اس بہت کچھ سمجھا گیا تھا۔بالاج کی قربت میں مزاحمت کرنا اس کے لیے نہ قابل قبول تھا۔۔ یہ شدتیں اس وقت تک بڑھتی رہی جب تک وہ اس کے اگے ہار مانتے ہوئے خود کو اس کی مضبوط پناہوں کے حوالے نہ کر گئی۔۔۔
ختم شدہ