اففف میں تھک چکی ہوں – تمہاری دادو نے کیا پورے رؤم کو آج تمہاری پارٹی میں بلا لیا ہے کیا -افف یہ فیک لوگ میرا جبڑا دکھ گیا ہے سمائل کرتے کرتے _ تھکی ہوا سا چہرہ لیے آبدار ایک ہاتھ کمر پر رکھے ایک ٹیبل کے پاس کھڑی تھی _ وہاں ہر طرف ٹیبلز تھے لیکن کرسیاں نہیں تھیں – لوگ تیار ہوۓ ٹیبلز کے آس پاس کھڑے تھے اور یقیناً موضوع ابراہیم خانزادہ کی وائف تھی _ گرے اور وائٹ تھیم کا ہال اس وقت لوگوں سے بھرا ہوا تھا _ وہ ابراہیم کی دادو کے ساتھ سب سے ملتی رہی تھی اور اب جاکہ ایک طرف کھڑی اپنی سانس بحال کر رہی تھی _
لگتا تو ایسا ہی ہے – خیر بس اب پارٹی ختم ہوگئ ہے _ جلد ہی گھر چلے جائیں گے _
ہمم میں بھی تھک گئ ہوں _ اپنے گھر جاکر آرام کروں گی – ابراہیم نے ناسمجھی سے آبدار کو دیکھا تھا – اپنے گھر _؟!
ہاں وہ میں نے ابھی تک پیکنگ نہیں کی ہے اسلیے_ صبح میرال کے ساتھ آجاؤں گی —
کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم آج میرے ساتھ ہی گھر چلو صبح ہم دونوں جا کر تمہارا سامان لے آئیں گے – دادو کو شک ہو جاۓ گا –
اچھا ٹھیک ہے لیکن میرے پاس پہننے کو کچھ بھی نہیں ہے کیا پہنوں گی _؟ میرے وارڈروب سے کچھ بھی لے لینا – لیکن پلیز
اوکے فائن – یہ میرال اور سیف کی حرکتیں چیک کی ہیں تم نے _؟
بلکل – ایک دفعہ بھی ہمارے پاس نہیں آۓ – پتا نہیں کہاں مصروف ہیں دونوں – اسی لمحے مائیک پر میرال کی آواز آئ جو سب کو اپنی طرف متوجہ کررہی تھی _
لیڈیز اینڈ جینٹیلمینز _ ہوپ کے آپ سب ٹھیک ہوں گے اور آج کی رات کو انجواۓ کر رہے ہوں گے – بات دراصل یہ ہے کہ آج کی رات خوشی کی رات ہے – آج نیوایئرنائٹ ہے اور کچھ ہی دیر میں بارہ بجنے والے ہیں –
بلکل نئے سال کی سیلیبریشن اور میرے دوست ابراہیم خانزادہ کی برتھڈے کی خوشی اور اسکے نکاح کی خوشی میں ہم چاہتے ہیں کہ برائیڈ اور گروم کا ایک ڈانس ہوجاۓ _ کیا خیال ہے ایوری باڈی – سیف کی بات پر آبدار سخت نظروں سے ابراہیم کو گھورنے لگی _ دیکھ رہے ہو اپنے دوست کی حرکتیں —
آئ سویئر مجھے کچھ نہیں پتا _ وہ خود بوکھلایا سا ہال میں موجود لوگوں کو تالیاں بجاتے دیکھ رہا تھا جو ان دونوں کا نام لیتے پرجوش سے تھے اور ان دونوں کو ڈانس کے لیے کہہ رہے تھے _
( وہاں نیو کپلز کا ڈانس کرنا بھی ایک رواج تھا ) –
جاؤ ابراہیم, آبدار جاؤ بچو ایک ڈانس تو کر ہی سکتے ہو نا _ دادو یار آپ بھی – کم آن
کیا دادو جاؤ بھی ڈانس کرو _ لیڈی خدیجہ ان سے کہتی خود بھی تالیاں بجانے لگیں _
آبدار دوقدم پیچھے ہوئ تو ابراہیم سے ٹکرائ – ابراہیم مجھے ڈانس کرنا نہیں آتا – اور کپل ڈانس تو بلکل بھی نہیں – میں گر جاؤں گی اور لوگ مجھ پر ہنسیں گے – اس میرال منحوس کو تو میں بعد میں پوچھوں گی _
Abdaar can we..?
No, we can’t – I don’t know how to dance _ Ibrahim please
Trust me – come on ..
Ibrahim no….
وہ اسکا ہاتھ پکڑے اسے ڈانس فلور پر لے کر گیا – میں گر جاؤں _ ” میں گرنے نہیں دوں گا ”
Just hold me _
آبدار زور سے اسکے کندھے کو پکڑے کھڑی ہوگئ – میوزک کی آواز پر ابراہیم نے آہستہ سے موو کرنا شروع کیا –
دیکھتے ہی دیکھتے کچھ اور کپلز بھی انکے ساتھ ڈانس کرنے لگے – سونگ ختم ہونے پر سب نے تالیاں بجائیں اور آبدار نے سکون کا سانس لیا _
سب لوگ اب آسمان کو دیکھ رہے تھے اور پورے بارہ ہوتے ہی آسمان مختلف رنگوں سے سج گیا _ وہ فائر ورکس تھے سب ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارک باد دے رہے تھے – لیڈی خدیجہ اپنی کچھ ہم عمر دوستوں سے ہنس کر باتیں کر رہی تھیں – سیف میرال کے پاس کھڑا کچھ کہہ رہا تھا اور وہ آنکھیں گھما رہی تھی – آبدار آسمان کو دیکھ رہی تھی جب ابراہیم چلتا ہوا اس کے پاس آیا _. اہم اہم اہم —-
تو اس نئے سال کے ساتھ ایک نئ شروعات کرتے ہیں – اس ایک سال کی کانٹریکٹ میریج میں ہم لوگ دوست بن کے رہ سکتے ہیں _ ؟ وہ اپنا ہاتھ آگے کیے اسکے ہاتھ بڑھانے کے انتظار میں تھا _
آبدار نے ہاتھ اسکے ہاتھ میں دیا _ اوکے ڈیل
آسمان پے ایک بار پھر سے فائر ورکس چھوڑ دیے گئے تھے – اور زمین پر وہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے کھڑے تھے – وہ دونوں شادی کرچکے تھے ایک ایسی شادی جس میں محبت نہیں تھی بس مفاد تھا _
” کیا واقع محبت نہیں تھی ” _ ؟ گھڑی کی سوئیاں پھر سے حرکت کرنے لگیں _ ٹک ٹک
🍂🍂🍂🍂🍂…
پاکستان (لاہور) _
کیا وہ ٹھیک ہے اب _ ؟! ہلکے سے روشنی والے کمرے میں ایک کرخت سی آواز گھونجی تھی – روکنگ چیئر پر بیٹھا وجود اپنے سامنے کھڑے شخص سے سوال کررہا تھا _
وہ ٹھیک ہے تو سہی لیکن اگر ٹھیک نہیں ہے تو بھی اسے کہو اپنا کام سنبھالے آکر _ اور اگر نہیں کرسکتا تو کہہ دے – یہ روز روز کی بیماریاں برداشت نہیں ہو گیں _ سمجھ رہے ہو خاور میرا پیغام پہنچادو اسے __
خاور نے زرا کی نظر اٹھا کر اس سخت دل شخص کو دیکھا تھا – جو اپنے بیٹے کی اولاد کے بارے میں یوں بات کر رہا تھا جیسے وہ کوئ غیر ہو _ لیکن وہ کیا کر سکتا تھا وہ بس ایک ملازم تھا —
جی دلھام سر – زاویار سر کو پیغام پہنچا دیا گیا ہے – وہ ولاء میں آچکے ہیں اور آپ کے پاس ہی آنے والے ہیں _
جانتا ہوں میں کہ کب آۓ گا _ دروازے پر دستک ہوئ تو خاور انکے سر ہلانے پر مڑا اور جا کے دروازہ کھولتے باہر نکل گیا _
کیسے ہیں داداجان – بلایا آپ نے _ ؟!
زاویار کی بھاری آواز اس کمرے میں گھونجی —
ہاں بلایا تو تھا – خاور بتارہا تھا کہ تم ہوسپیٹل میں ہو – کچھ ہوا ہے کیا _ ؟! وہ شخص سب جانتے ہوۓ بھی انجان بن رہا تھا اور سامنے کھڑا شخص سب جانتے ہوۓ بھی اسکے سوالوں کے جواب دے رہا تھا _
صبح سے دل میں درد تھا آہستہ آہستہ زیادہ ہوگیا- ہوسپیٹل تک کیسے ہہنچا یہ نہیں معلوم شاید بےہوشی کی حالت میں خاور نے پہنچایا تھا _ لیکن اب ٹھیک ہوں اور آپ کی امیدوں پر پورا اتروں گا –
ہمم اچھی بات ہے یہ تو _ وہ ادھیڑ عمر شخص چہرے پر کرختگی لیے اس سے مخاطب تھا _ ہتھیار صبح تک پہنچ جانے چاہیئے – اس بار سامان اٹلی پہنچانا ہے یاد رہے یہ ہماری پہلی ڈیل ہے اٹلی مافیا کے ساتھ – ہر قیمت پر وہ پروجیکٹ ہمیں چاہیے _
لیکن _ زاویار کے کچھ کہنے سے پہلے ہی انہوں نے ہاتھ اٹھاتے اسے چپ کروادیا _
جانتے ہو نا یہ سب تم کس کے لیے کر رہے ہو _ ؟ وہ جسے پاور , پیسہ اور حکومت پسند ہے – یہ سب تم اس کے لیے کر رہے ہو سلطان _
کیا کچھ پتا چلا _؟؟؟ اب کہ آواز کچھ دھیمی ہوئ اور اس میں مٹھاس آئ —
نہیں کچھ پتا نہیں چلا _ کوشش کررہے ہیں —
ہونہہ کوشش – اتنے سالوں سے تم کوشش ہی تو کرتے آۓ ہو لیکن کیا فائدہ ہوا کچھ بھی نہیں _
ہماری ایک غلطی کی اتنی بڑی سزا ہمیں ملے گی یہ ہمیں معلوم نہیں تھا _ لیکن ہم سب کچھ حاصل کریں گے پیسہ, پاور اور یہاں کے مافیاز پر حکومت بھی _ ہم دلھاد سلطان یہاں کے بادشاہ ہیں —
جاؤ جاکر کام ختم کرو اور ڈھونڈو چاہے تمہیں زمین کھودنی پڑے _ دلھاد سلطان کو اس کا وارث چاہیے – کسی بھی قیمت پر چاہیے —
ٹھیک ہے داداجان _ میں اپنی پوری کوشش کروں گا — کچھ لمحے خاموشی کی نظر ہوۓ, وہ پینتیس سالہ شخص ہاتھ جیبو میں ڈالے اب خاموش سا کھڑا تھا – دلھاد سلطان نے کچھ دیر اسے دیکھا تھا ناجانے کیا کچھ یاد آیا _ جاؤ جا کر آرام کرو اب – ویسی ہی کرخت بےحس سی آواز میں اسے جانے کا کہا گیا —
زاویار نے بغیر کسی تاثر کے گردن کو ہلکا سا خم دیا اور اس کمرے سے نکلتا چلا گیا _ وہ اب اپنے وجود کو لیے ایک لمبی راہداری سے گزر رہا تھا – وائٹ شرٹ میں اس کے چوڑے شانے نمایا تھے – بازو بےترتیب سے انداز میں فولڈ تھے ہاتھ پر کینولا کا نشان دیکھا جا سکتا تھا جو وہ یہاں آنے سے پہلے اتار کر آیا تھا _
کچھ بال گردن تک آتے تھے جنکا چھوٹا سا بن بنایا گیا تھا باقی سامنے سے کٹے چھوٹے چھوٹے بال بےپرواہ سے اسکے ماتھے اور آنکھوں پر جھول رہے تھے – سبز لمبی سی آنکھوں میں ہزاروں راز چھپاۓ – ضبط سے ہونٹ اور ناک سرخ تھے – ایک ہاتھ میں کوٹ لٹکاۓ وہ ایک مخصوص کمرے کی جانب بڑھ رہا تھا _
آس پاس کھڑے گارڈز نے رشک سے اس حسین مجسمہ کو تکا تھا – وہ ایک خوبصورت مرد تھا بلاشبہ _ اپنے پورے قد کے ساتھ چلتا وہ ان سب میں وحشت پیدا کررہا تھا _ ” اسکی خاطر دل توڑے جا سکتے تھے – اس کے لیے زاویار سلطان کے لیے خواب چھوڑے جاسکتے تھے ” _
راہداری ختم ہوئ اور وہ ایک کمرے کے سامنے جا کھڑا ہوا _ اس ولاء میں سب کچھ بلیک اور ڈیکوریشن وائٹ تھی – مختلف قسم کے انٹیریئر سے مل کر بنا یہ ولاء دیکھنے والوں کو خوبصورت بھی لگتا تھا اور خوفناک بھی _ وجہ وہی تھا ” زاویار سلطان ” _
ایک مخصوص کمرے کے سامنے وہ رکا – کئ لمحے دروازے کو دیکھنے کے بعد وہ اسے کھولتا اندر داخل ہوا _ اندر داخل ہوتے ہی اس نے آنکھیں بند کرکے کچھ محسوس کرنا چاہا _ اس کمرے کے مکین کی موجودگی کو محسوس کرنا چاہا – دروازے کو بند کرتے وہ آگے بڑھا _ وہ کمرہ کشادہ اور خوبصورت تھا – صاف ستھرا ہر چیز اپنی جگہ پر ترتیب سے رکھی گئ تھی _
وہ شوز اتارتے نرم قالین پر قدم رکھتے آگے بڑھا _ پورے کمرے میں نظریں گھماتے وہ صوفے پر جابیٹھا – صوفہ بیڈ کے بلکل سامنے تھا – کوٹ کو سائیڈ پر رکھے وہ صوفے پر لیٹ گیا – نظریں ہنوز خالی بیڈ پر مرکوز تھیں _ کئ آنسو خاموشی سے بہتے چلے گئے جنہیں صاف کرنے کی کوشش نہیں کی گئ تھی
اس کمرے کی کسی بھی چیز نے اسے دیکھتے حیرانگی کا اظہار نہیں کیا تھا _ وہ بس خاموشی سے اسے تک رہے تھے وہ شخص انکے لیے اجنبی ہرگز نہیں تھا اور نہ ہی اسے روتا دیکھنا ان کے لیے نیا تھا _ آنکھیں بند کرتا ماضی میں گھم ہوتا چلا گیا __
لاہور (پاکستان) 🍂
ماضی :
دلھاد سلطان جنہوں نے اپنے باپ کے مرنے کے بعد انکا بزنس سنبھالا لیکن دن بدن زیادہ کی خواہش نے انہیں انڈرگراؤنڈ کاراستہ دیکھایا _ پہلے پہل تو چھوٹی موٹی ڈیلز ہی ہوتی رہی تھیں – لیکن پھر ایک دن ایک جانے مانے مافیا کی بیٹی کا رشتہ دلھاد سلطان کے لیے آیا _ یہ شادی بزنس کو آگے بڑھانے کا ایک بہترین زریعہ تھی اور دلھاد سلطان نے اس موقع کو ضائع ہونے نا دیا –
دلھاد سلطان کی نیلم سے شادی نے انہیں پوری طرح انڈر ورلڈ سے متعارف کروا دیا تھا _ پہلے جو کام وہ دوسروں کے زریعے کرواتے تھے اب خود کرنے لگے _ دیکھتے ہی دیکھتے وقت گزرنے لگا اور ان کی اولاد جوان ہو چکی تھی _ دلھاد سلطان کا ایک بیٹا تھا ہاشم اور ایک چھوٹی بیٹی تھی دانیہ جو کہ دس سال کی تھی _ سب کچھ ٹھیک تھا لیکن ایک دن ایسا آیا جس نے کئ زندگیاں پلٹ دیں _
ہاشم کو ایک لڑکی سے محبت ہوگئ تھی اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتے تھے – لیکن دلھاد سلطان کسی عام لڑکی کو اپنے گھر کی بہو نہیں بنانا چاہتے تھے –
لیکن ان کی سخت مخالفت کے باوجود ہاشم نے زرتاشہ سے شادی کرلی – اور زرتاشہ انکی زندگی اور گھر میں آگئیں _ اللہ نے انہیں اولاد عطا کی جس کا نام انہوں نے زاویار سلطان رکھا _ لیکن دلھاد سلطان کا دل اب بھی نہ پگھلا – انہیں اس بچے سے کوئ خاص لگاؤ نہیں تھا —
زاویار کو اپنے دادا سے محبت تھی وہ چاہتا تھا کہ وہ بھی اس سے پیار کریں لیکن دلھاد سلطان نے کبھی اس پر توجہ نہیں دی – وہ گیارہ سال کا تھا جب دانیہ کی شادی دلھاد سلطان نے اپنے دوست کے بیٹے کے ساتھ کردی _ وہ خوش تھیں اپنی زندگی میں اور اللہ نے پھر انہیں ایک بیٹی سے نوازا _ دانیہ اور انکے شوہر شہریار بہت خوش تھے_
وہ جب اپنے گھر آئیں تو بارہ سالہ زاویار نے اس چھوٹی سی بچی کو دیکھا اور اسے وہ بہت کیوٹ لگی _” میری جان کتنی پیاری ہے دانیہ پھپھو ” — وہ پیارا سا منہ بناۓ اس چھوٹی سی بچی کی انگلی پکڑے اس سے کھیل رہا تھا _
بلکل بلکل تمہاری جان بہت پیاری ہے _ تمہیں اپنی بےبی سسٹر پسند آئ _ ؟! انکے سوال پر وہ کسی سوچ میں پڑھ گیا —
بےبی سسٹر _؟! ہاں بہت پیاری ہے یہ تو _ ویسے اسکا نام کیا پھپھو _ ؟
اسکا نام بابا نے رکھا ہے ——
دانیہ کے شوہر شہریار کی ایک حادثے میں موت ہوگئ تھی جس کا زمہ دار ان کو کہہ کر شہریار کے گھر والوں نے انہیں اپنے گھر سے نکال دیا تھا- اور انکی بیٹی کو اپنے پاس ہی رکھ لیا تھا _ جب دلھاد سلطان کو اس بات کا پتہ چلا تو انہوں نے شہریار کی فیملی پر کیس کیا اور کوئ عدالت بھی اتنی چھوٹی بچی کو ماں سے الگ نہیں کرتی _
اور پھر دانیہ اپنی دو سال کی بیٹی کے ساتھ سلطان ولاء میں رہنے لگیں _ وہ بچی زاویار کے ساتھ بہت اٹیچ تھی اور زاویار بھی ہر وقت اسی کے پاس پایا جاتا _ وہ اسکی کیوٹ بےبی سسٹر جو تھی _ دلھاد سلطان کو زاویار کا یوں اسکے پاس بیٹھے رہنا پسند نہیں تھا – غرض انہیں زاویار کی ہر بات سے مسئلہ تھا لیکن وہ بچی انہیں بہت عزیز تھی —
دانیہ دن بدن ختم ہوتی جا رہی تھیں اور ایک دن چار سال کی اپنی بیٹی کو چھوڑے وہ ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کرگئیں _ دلھاد سلطان کو اپنی بیٹی کی موت سے بہت دھچکا لگا تھا اور انہیں اپنی بیٹی کی آخری نشانی اور بھی زیادہ عزیز ہوچکی تھی _ اسے سنبھالنے کی زمہ داری زرتاشہ نے لینی چاہی جو دلھاد سلطان کو منظور نہیں تھا اور بڑھتے جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے ہاشم سلطان نے باہر شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا _
دلھاد سلطان کو کوئ اعتراض نہیں تھا لیکن نیلم نے اپنے بیٹے کو روکنے کی بہت کوشش کی لیکن پھر انہیں ہار ماننی پڑی – اور یوں وہ سترہ سالہ زاویار کو لیے کینیڈا شفٹ ہوچکے تھے _ زاویار اپنی پانچ سال کی چھوٹی سی کزن کو چھوڑنے پر راضی نہ تھا لیکن اپنے ماں باپ کی ضد کے آگے وہ گھٹنے ٹیک گیا لیکن اس شرط کے ساتھ کے وہ واپس پاکستان ضرور آۓ گا _
آہستہ آہستہ وہ زاویار کو بھول چکی تھی – سلطان ولاء میں وہ اپنے نانا اور نانی کے ساتھ رہتی تھی اور خوش رہتی تھی _ انہیں دنوں کینیڈا میں اک حادثہ پیش آیا اور ہاشم اور زرتاشہ کی جان لے گیا – دلھاد سلطان اچھی طرح یہ بات جانتے تھے کہ یہ قدرتی موت نہیں تھی _ انکے ڈیل حاصل کر لینے پر انکے دشمنوں میں سے کسی نے انکی فیملی کو ٹارگٹ کیا تھا _ پے در پے حادثوں نے انہیں بوکھلا کر رکھ دیا تھا _ اور انکی کمر تو تب ٹوٹی جب ایک دن انکی بیوی یہ دکھ برداشت نہ کرتے ہوۓ انہیں چھوڑ کر چلی گئ _
دلھاد سلطان کے پاس کچھ بھی نہیں بچا تھا _ اور وہ اپنی نانو کی موت سے کئ مہینے صدمے میں رہی – انکا بزنس انکی مافیاز کے ساتھ کی گئ ڈیلز کچھ بھی انکے ہاتھ میں نہیں رہا تھا _ اور پھر انہیں روشنی کی ایک کرن نظر آئ جب انہیں پتا چلا کہ زاویار پاکستان آ رہا ہے _ انہوں نے پلان ترتیب دے دیا تھا چاہے کچھ بھی ہو جاۓ وہ پیسے اور طاقت کو چھوڑنے کے حق میں نہیں تھی _
” وہ بھی ایسی ہی تھی – اسے پسند تھا پیسہ ، پاور ، اور تحت _ اسے حکومت کرنا پسند تھا – وہ حکومت کرنا چاہتی تھی اور دلھاد سلطان نے اسے اپنا وارث چن لیا تھا _ انکے بعد مافیا کی کرسی وہ سنبھالنے والی تھی ” _
وہ انتظار کررہے تھے تو بس زاویار کا – وہ واپس پاکستان آرہا تھا – وہ لاہور واپس آرہا تھا – لاہور کی فضاؤں نے اسے خوش آمدید کہا تھا اسے اس کا وعدہ یاد دلایا تھا – لیکن اسے نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ اس طرح سےواپس آۓ گا _ ایئرپورٹ سے نکلتے اس نے اپنے سامنے کھڑی گارڈز کی گاڑیوں کو دیکھا – اور پھر ایک گاڑی کے سامنے کھڑے ڈرائیور کو جو اسے گاڑی میں بیٹھنے کا کہہ رہا تھا _
تم جاؤ گاڑی میں خود ڈرائیو کروں گا _ وہ بلیک پینٹ شرٹ کے اوپر بلیک لونگ کوٹ پہنے – چھوٹے چھوٹے بال ماتھے اور گردن پر بکھرے ہوۓ تھے جبکہ کچھ بالوں کی چھوٹی سی پونی بنی ہوئ تھی _ سرد سی سبز آنکھیں لیے اسکا چہرہ بے تاثر تھا _ وہ زاویار سلطان تھا _ سلطان کا خون تھا وہ اسے دیکھ کر ہی وحشت محسوس ہوتی تھی –
کئ گاڑیاں سڑکوں پر سے گزرتی جارہی تھیں – لوگوں نے ٹہر کر دیکھا تھا _ اب وہ گاڑیاں سلطان ولاء کے سامنے رکی تھیں – وہ کئ کنال پر پھیلا سلطان ولا ایک شان سے کھڑا تھا – وہ دیکھنے والے کو کہتا تھا کہ دیکھو مجھے – میری خوبصورتی دیکھو میری شان دیکھو – دیکھو میں کس غرور سے کھڑا ہوا ہوں –
گاڑی سے باہر نکلتے اس نے سامنے کھڑے اس عالیشان ولاء کو دیکھا تھا اور کیا کچھ نہ یاد آیا تھا _ داداجان اور دادو, دانیہ پھپھو اور اس کی چھوٹی سی کزن _ وہ بڑی بڑی سی ہیزل آنکھیں لیے اسکی کزن __
وہ قدم قدم بڑھاتا آگے بڑھا _ گارڈز نے اسے دیکھا اور اس کا راستہ چھوڑے کھڑے ہو گئے _ وہ ایک (aura )رکھتا تھا _ کہ اس سے دور رہا جاۓ _
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡……