Uncategorized

Listen My Love by ZK Episode 22

کیسی ہو ؟! بیڈ کے پاس کھڑے ہوکر دونوں ہاتھ جیبو میں ڈالے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لیے میر ہادی آبدار سے مخاطب ہوا تھا – جوابأ اس نے ایک خفگی بھری نگاہ اس پر ڈالی – افف کون ہو تم ؟ اور بار بار کیوں مجھ سے باتیں کرنے آجاتے ہو – ہونہہ تم نے مجھے پہچانا نہیں کیا ؟!
مجھے یاد ہے بیہوش ہونے سے پہلے میں نے تمہیں دیکھا تھا مجھے آواز دیتے ہوۓ لیکن مجھے اور کچھ یاد نہیں ہے – تم ہو کون _ ؟! بات کے آخر میں اس نے سوال پوچھنا ضروری سمجھا تھا —
وہ جو پہلی بات پر حیران ہوا تھا اگلی بات پر سر نفی میں ہلاتا ہوا ہنسا – ہاں بلکل میں وہی ہوں جو تمہیں آواز دے رہا تھا اور تم میری دوست کی بیٹی ہو _ اب وہ اطمینان سے کہانی بناتا بیڈ کے پاس رکھی کرسی پر آرام دہ سا بیٹھ چکا تھا –
دوست کی بیٹی کہا تم نے _ ؟!
ہاں بلکل کوئ شک ہے تمہیں ؟ نہیں – پتا نہیں مجھے کچھ یاد نہیں
اوکے تو اب ہم اپنے گھر واپس جائیں گے – چلنا ہے ہمیں – تو کیا خیال ہے ؟ ایک منٹ گھر ؟ کون سے گھر بھئ -؟ میں اپنے اپارٹمنٹ میں جاؤں گی — میں وہیں رہتی ہوں –
تمہیں یاد ہے یہ – وہ حیران ہوا تھا
اس بات میں اتنی حیرانگی والی کیا بات ہے – ؟
نہیں کچھ نہیں – اب طبیعت کیسی ہے کہیں درد تو نہیں ہو رہا –
نہیں میں ٹھیک ہوں لیکن سر میں ہلکا ہلکا درد ہے اور ہلنے سے چکر آتے ہیں –
تو پھر کوئ ضرورت نہیں ہے آج جانے کی کل ہم گھر چلیں گے اوکے – اور میرے گھر جب تک تم ٹھیک نہیں ہوجاتی تم اپنے اپارٹمنٹ نہیں جاسکتی – آبدار انکار کرنے کو اٹھی ہی تھی کہ سر میں ہوتے شدید درد سے کراہ کر رہ گئ – اور بس سر ہاں میں ہلا دیا _ ٹھیک ہے لیکن میں ٹھیک ہوتے ہی اپنے اپارٹمنٹ واپس چلی جاؤں گی اوکے _
بلکل جیسا تم چاہو – اب آرام کرو ایسا کرو سو جاؤ تاکہ تم صبح فریش اٹھ سکو – وہ اسے اونگھتا ہوا دیکھ کر بولا اور ساتھ ہی اٹھ کھڑا ہوا- آبدار نے اسکی انگلیاں تھام کر اسے روکا تھا -تم کہاں جارہے ہو مجھے چھوڑ کر _ ؟!
میں کہیں نہیں جارہا یہیں ہوں – مجھے کچھ چوٹیں آئ ہیں بس انہیں کا علاج کروانے جا رہا ہوں – میر ہادی نے اپنے زخمی بازو اور کہنی کو ایک نظر دیکھا تھا –
آبدار نے سر نفی میں ہلاتے زور سے اسکی انگلیاں پکڑی تھیں جبکہ آنکھیں اب ہلکی ہلکی بند ہورہی تھیں – تم نہیں جاؤ ڈاکٹر کو یہاں بلا لو – میں ادھر اکیلی ہو جاؤں گی – دیکھتے ہی دیکھتے وہ سو چکی تھی میڈیسن کا اثر تھا شاید – میر ہادی نے ایک نظر اسکے ہاتھ کو دیکھا تھا جس سے اس نے میر کے ہاتھ کو پکڑا ہوا تھا –
اور پھر وہ واپس وہی پر بیٹھ گیا تھا – فون ملاتے کان سے لگایا اور ثاقب کو نرس کو اندر بھیجنے کا کہا –
کچھ ہی دیر میں نرس کچھ سامان لیے اندر داخل ہوئ – میر ہادی نے اسے اشارے سے بات آہستہ کرنے کا کہا – سر لگتا ہے یہ آپ کے لیے بہت اہم ہیں –
ہمم شاید – ثاقب کو اندر داخل ہوتا دیکھ میر ہادی نے بات کو ادھورا چھوڑتے اسے جانے کا اشارہ کیا – نرس بینڈیج مکمل کرتی باہر نکل گئ –
ثاقب تم جاؤ جا کر آرام کرو – صبح آجانا صبح جائیں گے ہم _ لیکن سر آپ ؟! میں یہی ہوں – اس نے آبدار کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیکھا اور کرسی سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا – ثاقب سب دیکھتے ہوۓ چپ چاپ باہر نکلا اور جا کر دیوار کے ساتھ لگے بینچ پر جا بیٹھا – اب وہ اپنے سر کو یوں اکیلا تو نہیں چھوڑ سکتا تھا نہ — *فلیش بیک اینڈ * میر ہادی نے اسے ساری بات بتا دی تھی سواۓ ہاتھ پکڑنے والی بات کے اور یہ کہ اسے کیا محسوس ہوا تھا اس وقت — وہ اب خاموش بیٹھے زاویار کو دیکھ رہا تھا جو ایسے تھا جیسے پتھر کا ہوگیا ہو – اس کا رنگ برف کی طرح سفید تھا – ہاتھوں کی رگیں پھول چکی تھیں – آبدار –؟! یہ سب کچھ آبدار کے ساتھ ہوا- ایکسیڈنٹ اور پھر نروس بریک ڈاؤن
یہ سب یہ سب کچھ میری وجہ سے ہوا ہے – اس سب کا زمہ دار میں ہوں – میر ہادی بس خاموشی سے اسے تک رہا تھا – ظاہر سی بات ہے اس سب کے زمہ دار تم ہی ہو – تم آسانی سے گمراہ ہوگئے – تمہیں نہیں ہونا چاہیے تھا – اس حال تک اسے لانے والے تم ہی ہو – تم آسانی سے manipulate ہو گئے —
مسٹر میر پلیز – خاور نے اسے چپ کرانا چاہا
میر ہادی نے بنا کچھ کہے بس ابرو اچکا کر اسے دیکھا – شکاری سی آنکھوں میں شاطرانہ چمک تھی – وہ یقیناً نہیں چاہتا تھا کہ آبدار کو اب ان لوگوں سے کوئ بھی کسی بھی قسم کی تکلیف ہو- –
میں — مجھے ملنا ہے آبی سے _ مجھے اپنی Çiçeğim سے ملنا ہی ہوگا – ہاں مجھے ملنا ہے اس سے _ بالوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑے وہ مسلسل ایک ہی بات کہے جارہا تھا —
کس حق سے – تم آخر کس حق سے آبدار سے ملنا چاہتے ہو زاویار سلطان _ کیونکہ اب تمہارے پاس کچھ بھی نہیں ہے – تم موقع گنوا چکے ہو – وقت ریت کی طرح تمہارے ہاتھ سے نکل چکا ہے _ آبدار اب تمہاری نہیں رہی _
زاویار نے زرا کی سی نظریں اٹھا کر میر ہادی کو دیکھا تھا – سوالیہ نظروں سے – جیسے اس کی بات کا مطلب جاننا چاہتا ہو _
میر ہادی نے آگے جو کچھ کہا تھا اس نے زاویار کا دل توڑ دیا تھا _ اس کا دل کیا تھا کہ وہ بھاگ کر آبدار کے پاس جاۓ اور پھر بچوں کی طرح اس کے کندھے پر سر رکھ کر روۓ _
مقدر میں کہاں ہوتے ہیں محبت ہوجائے جن سے….!!
ازل سے مشہور ہے قصہ تیسرے شخص کا 🌸
زاویار بغیر کچھ اور کہے لڑکھڑاتے قدموں سے باہر کی جانب بڑھا تھا خاور اس کا نام پکارتا جلدی سے اسکے پیچھے بھاگا — میر ہادی نے کچھ کہنے کو لب وا کیے پر پھر کچھ سوچتے ہوۓ چپ ہی رہا _ آفس کا دروازہ بند ہوتے ہی اس نے ایک لمبی سانس لیتے اپنی ٹائ کو ڈھیلا کیا تھا- کرسی سے ٹیک لگاتے وہ آنکھیں بند کیے ماضی کی یادوں میں کھو گیا –
“( انہیں میر ہادی کے مینشن میں آۓ دو دن ہو چکے تھے – تب سے میر خود ہی آبدار کے کھانے پینے اور دوائ کا خیال رکھ رہا تھا – اب بھی وہ پچھلے دس منٹ سے کھڑا اسے میڈیسن لینے کے لیے کہہ رہا تھا –
میں نہیں کھاؤں گی یہ دوائ – اس کا ذائقہ بہت برا ہے – نو وے
تمہاری مرضی نہیں چلے گی – دوائ تو لینی پڑے گی آبدار – میر ہادی نے دوائیوں والی چھوٹی سی پلیٹ آگے بڑھائ —
اففف کہا تو ہے کہ اچھی نہیں ہے تم سمجھ کیوں نہیں رہے –
اہمم میں نے سنا ہے کہ تم نے آج پیزا کھانا تھا – اگر تم یہ دوائ لے لو تو میں تمہیں گھر میں پیزا بنا کر دینے کے بارے میں سوچ سکتا ہوں – تو بولو لڑکی کیا خیال ہے –
پیارے سے کمرے میں ڈبل بیڈ پر بیٹھی لڑکی نے پیزا کا نام سنتے چمکتی ہوئ نظروں سے اپنے سامنے کھڑے شخص کو دیکھا اور پھر لمبا سانس لیتے سر کو بمشکل ہاں میں ہلاتے دوائ کھائ _
اوکے اب چلو کچن میں پیزا بناؤ میرے لیے — وہ جلدی سے سلیپرز پہنتے کھڑی ہوگئ تھی —
تم یہی بیٹھو آرام کرو میں بنا لاتا ہوں _ نہیں میں ساتھ چلوں گی —
وہ پیزا کو اوون میں رکھنے کے بعد کچن میں پھیلا پھیلاوا سمیٹ رہا تھا اور آبدار کرسی پر بیٹھے ہوئ اسے دیکھ رہی تھی – میر ہادی کے کام کرتے ہوۓ ہاتھ آبدار کی بات پر ساکت ہوۓ تھے _
کیا تم کسی سبز آنکھوں والے شخص کو جانتے ہو میر ہادی ؟! کیا مطلب ؟!
کل رات کو میں نے پھر اس سبز آنکھوں والے شخص کو دیکھا تھا خواب میں – وہ آنکھیں اتنی پیاری سی تھیں اتنی اپنی سی تھیں وہ _ لیکن اس کا چہرہ دھندلا تھا- اس کا چہرہ مجھے نظر نہیں آتا ناجانے کیوں _
نہیں میں کسی کو نہیں جانتا جس کی سبز آنکھیں ہیں – یہ بس ایک برا خواب ہے اور کچھ نہیں – آف وائٹ ٹراؤزر اور شرٹ پہنے وہ کمفرٹیبل سا پیارا لگ رہا تھا – قدم قدم چلتا وہ آبدار کے ساتھ والی کرسی پر جا بیٹھا تھا –
برا خواب تو مت کہو _ مجھے تو کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا – ایک پل کو سب کچھ پتا ہوتا ہے مجھے اور اگلے ہی پل سب کچھ بھول جاتی ہوں _
اوون کی بیپ پر وہ دونوں اس طرف متوجہ ہوۓ – تم روم میں جاؤ میں پلیٹ میں نکال کر لاتا ہوں پیزا – اوکے
ہمم اوکے – میں بھی تھک گئ ہوں _
سارا کام میں نے کیا ہے اور تھک تم گئ ہو لڑکی ؟ بلکل – تمہیں کوئ اعتراض ہے -؟! بلکل نہیں – وہ بےساختہ ہنسا تھا دیکھو زرا تم ہنستے ہوۓ کتنے اچھے لگ رہے ہو – میں اچھا لگتا ہوں ہنستے ہوۓ — ؟ ہاں تم اچھے لگتے ہو — وہ کہتے ہوۓ کچن سے باہر کی طرف بڑھ گئ – اور اس کے نظروں سے دور ہوتے ہی میر ہادی نے فون نکالتے ڈاکٹر کو فون ملایا تھا
ساری بات بتانے کے بعد وہ ڈاکٹر کی بات کے انتظار میں تھا – ہمم مسٹر ہادی جو باتیں آپ نے مجھے بتائ ہیں اس سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ میم سپلیٹ پرسنیلیٹی ڈس آرڈر
( split personality disorder)
کا شکار ہیں – یہ بھی ان کی کنڈیشن کے پیشینٹ کا ایک مسئلہ ہے – ایسے لوگوں کو سب کچھ یاد ہوتا بھی ہے اور نہیں بھی – بظاہر تو یہ کوئ اتنے خطرے والی بات نہیں ہے لیکن آپ ان کو ٹائم پر میڈیسن ضرور دیں اور ہو سکے تو کسی اچھے سے psychiatrist کو دکھائیں – بلکہ باقائدہ سیشنز رکھوائیں
ہمم تھینکیو ڈاکٹر _ فون بند کرتے وہ پلیٹ میں پیزا نکالتے آبدار کے روم کی جانب بڑھا تھا _ ) “
بجتے ہوۓ فون نے اس کو سوچوں سے نکالا تھا — سکرین پر نظر پڑتے ہی اس کے لبوں پرآنے والی مسکراہٹ بے ساختہ تھی – کالی آنکھیں مسکرائ تھیں – فون کو ٹیبل سے اٹھاتے اس نے کان کے ساتھ لگایا تھا –
ہیلو _ آبدار ؟!!!
🌸🌸🌸 🌸

Admin2

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,
Uncategorized

Dil dharky tery liye By Warda makkawi

dharky dil twry liye by Warda makkawi is a Classic, Urdu, Romantic, & Social Novel.  It was published online on