سارا دن آبدار کا بےچینی میں گزرا تھا – لیڈی صوفیہ اور میرال سے بھی بات ہوئ اور میر ہادی سے بھی, لیکن حالت جوں کی توں تھی _ وہ شام ہوتے ہی نماز پڑھ کر سب سہی ہوجانے کی دعا کرتی چاۓ کی کیٹل لیے بالکنی میں آکھڑی ہوئ تھی _
وہ پچھلے آدھے گھنٹےسے کمرے کی بالکنی میں کھڑی ہوئ تھی – گرم سویٹر اور ٹراؤزر کے ساتھ ہڈی پہنے وہ خالی اور ہلکی روشنی میں ڈوبے لان کو دیکھ رہی تھی –
دونوں ہاتھ گرل پر رکھے ہوۓ تھے جو کہ اب تک سردی سے لال ہو چکے تھے – سردیوں کی رات تھی اور وہ بھی دسمبر کی , سر پر پہنی ٹوپی کو اسنے ایک ہاتھ سے سہی کیا پھر ہڈ بھی سر پر لے لیا –
ہاتھوں کو آپس میں رگڑتی وہ انہیں گرمائش پہچانا چاہ رہی تھی – اب اس نے اپنے ہاتھ ہڈی کے جیبوں میں ڈال لیے تھے – اور نظریں پھر سے لان پر جم گئیں _
ایک طرف پڑے گول چھوٹے سے کافی ٹیبل پر چاۓ کا کپ خالی پڑا تھا – جو یقیناً اسی نے پیا تھا – ٹیبل کے پاس رکھی آرام دہ کرسیاں آج خالی تھیں _
تھوڑی تھوڑی دیر بعد ٹھنڈی ہوا بندے کو کانپنے پر مجبور کردیتی تھی – ہر طرف پرسکون گہرا اندھیرا اور خاموشی تھی – لوگ سردی سے بچتے اپنے نرم گرم بستروں میں گھسے خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے _
اسی لمحے مین گیٹ کھلااور ایک کار گیٹ سے اندر داخل ہوئ اور پورچ میں جا کھڑی ہوئ – آٹومیٹک گیٹ خودبخود لاک ہو چکا تھا – وہ خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی _
باہر نکلتے اس نے کار لاک کی اور ایک لمبی اور تھکی ہوئ سانس خارج کی وہ آج بہت تھک چکا تھا _ گھڑی پر نظر پڑی تو رات کے نو بج رہے تھے- تبھی کسی کی نظریں خود پر محسوس کرتے اس نے اوپر دیکھا تو آبدار کو بالکنی میں کھڑا دیکھ کر اسے حیرت ہوئ _
اس نے ایک دفعہ پھر ٹائم دیکھا اور پھر آبدار کو جو ابھی تک ساکت کھڑی تھی بلکل خاموش _ اسے دیکھتے ہی تھکاوٹ ختم ہوتی محسوس ہوئ- مسکراتے اس نے ہاتھ ہلایا اور پھر ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ بھی وہیں آرہا ہے _
اگلے دو منٹ میں وہ بالکنی میں داخل ہو رہا تھا- آبدار کو ویسے ہی کھڑا دیکھتے اس نے ہلکا سا اسکے کندھے کو چھوا – گردن موڑ کر اسے دیکھتے وہ ہلکا سا مسکرائ اور قریب ہی رکھی الیکٹرک کیٹل کی جانب اشارہ کیا جہاں اب چاۓ سے دھواں اٹھ رہا تھا _
ابراہیم نے مسکراتے سر ہلایا اور چاۓ کپ میں ڈالتے گرل سے ٹیک لگاۓ کھڑا ہوگیا – یوں کہ وہ جیب میں ہاتھ ڈالے نیچے دیکھ رہی تھی اور وہ گرل کے ساتھ ٹیک لگاۓ دونوں ہاتھوں سے کپ کو تھامے اسے دیکھ رہا تھا _
“”” آبدار کے گلے میں پہنا لوکٹ چمک رہا تھا – وہ دو سوان جو جڑے ہوۓ تھے ایک دوسرے سے دو چھوٹے چھوٹے سفید سوان “””
خیریت ابھی تک سوئ نہیں تم – کوئ بات ہے کیا یا کہیں ایسا تو نہیں کہ اپنے شوہر کا انتظار کیا جارہا ہے ہممم _
ایسا کچھ نہیں ہے بس آج نیند نہیں آرہی تھی اور سچ کہوں تو ہاں آج تمہارا انتظار ہی کررہی تھی میں – تم سے بہت ضروری باتیں کرنی ہیں _
اوہ _ بولو کیا باتیں ہیں چاۓ کا گھونٹ بھرتے آنکھیں بند کرکے کھولیں _ اور اس سے پہلے کے وہ کپ دوبارہ ہونٹوں سے لگاتا اسکی اگلی بات سنتے اسکا سانس سینے میں ہی اٹک گیا _.
“Let’s break up . ”
ایک لمبا سانس لیتی وہ بولی جبکہ نظریں ابھی تک آسمان پر تھیں _
What…!! haha come on, don’t joke around like this _
بالکنی کی گرل کے ساتھ ٹیک لگاۓ وہ تھوڑا سا چونکہ لیکن پھر اسکی بات کو مزاق سمجھتا ہنسنے لگا –
” Stop laughing .. you know what I mean.. Man I said let’s break up let’s break this marriage .. I want divorce so let’s let’s just divorce _
آسمان سے نظریں ہٹاتے جب اس نے اسے دیکھا تو بےساختہ سانس اس شخص کے سینے میں اٹک گیا -اتنی خالی آنکھیں تھی اسکی _
Why…!!
کیا میں نے کچھ غلط کردیا ہے (belle) _ ؟ کیا مجھ سے کوئ غلطی ہوئ ہے _؟
اس نے بے ساختہ سر نفی میں ہلایا _ نہیں تم نے کچھ بھی نہیں کیا لیکن شاید تم ( contract) بھول گئے ہو – آج ڈیٹ کیا ہے جانتے ہو _؟
” دس دسمبر ” اس شخص کی آواز کہیں بہت دور سے آئ تھی
ہمم— دسمبر کی اکتیس کو ہمارا کانٹریکٹ ختم ہو رہا ہے _ ہم دونوں اس معائدے سے آزاد ہورہے ہیں – نیاسال ہمیں ایک دوسرے کے بغیر شروع کرنا ہے – اور مجھے لگتا ہے کہ یہ ہی بیسٹ ہے پچھلے سال کی تمام باتیں تمام وعدے اور تمام معائدے پیچھے ہی رہ جائیں تو –
” نیا سال نئ شروعات ” _
‘ جتنی جلدی ہوسکے ڈائیورس پیپرز ریڈی کرواؤ – اور مجھے انفورم کرو _ خوش رہو ہمیشہ ‘
اس نے قدم پیچھے لیے اور روم میں جانے کے لیے آگے بڑھی لیکن ایک آواز کچھ دیر کے لیے اس کے قدم روک گئ _
کیا ایک لمحے کے لیے بھی __؟
‘ پاس مت آ کہ مرے سر پہ چڑھی ہے وحشت
دور رہ یار کسی اور کا سایہ ہے مجھے ‘ ♡
‘ نہیں ‘ ایک لمحے کے لیے بھی نہیں __ بغیر کوئ اور بات کہے وہ جاچکی تھی –
(باقی آئیندہ)
Don’t forget to share your reviews everyone ✨