گڈمارنگ _ . گڈمارنگ, لیڈی صوفیہ کیسے آنا ہوا ؟
آبدار گھڑی پر ٹائم دیکھتی طنزیہ بولی _ _
اچھا اب بس بھی کرو – میں زرا زیادہ سو گئ تھی- آبدار کو وہ کچھ تھکی تھکی سی لگیں –
کیا بات ہے ؟ کچھ ہوا ہے کیا ؟!
ہمم شیلا نے فون کیا ہے پیسے مانگ رہی ہے – کہہ رہی تھی ایک ہفتہ دیا ہے اور صرف دودن رہتے ہیں_ کہاں سے لائیں گے ہم پیسے _ مجھے معاف کرنا میں نے تمہارے اور ایشان کے ساتھ اچھا نہیں کیا _
چھوڑدیں اب اس بات کو – میں بات کروں گی اس سے – کچھ نہ کچھ کر لوں گی میں _
تم کیا بات کرو گی آبی اس سے – اور کیا کر سکتی ہو تم – ساری غلطی میری ہی ہے میں نے اپنے ہاتھوں سے سائن کیے ہیں _ لیڈی صوفیہ اپنے ہاتھوں کو دیکھتیں نم آواز میں بولیں
بینک سے لون لے لے گے _ ہاں یہ ہوسکتا ہے _
نہیں لے سکتے ہیں میں نے بات کرلی ہے _ ہمارے پاس گروی رکھنے کو کچھ بھی نہیں ہے _
تم اور ایشان مجھے معاف کرنا – لگتا ہے جلد ہی یہ کیفے خالی کرنا ہوگا – ایشان کا سامنا نہیں کرسکتی میں تم خود اسے بتادینا _ وہ کاؤنٹر سے ہٹتی کچھ قدم ہی آگے گئ تھیں کہ لہرا کر گر پڑیں _
آبدار فوراً لیڈی صوفیہ کی طرف بڑھی – ابراہیم ٹرے پکڑے باہر ہی کھڑا تھا – وہ اندر آ ہی رہا تھا کہ لیڈی صوفیہ کی نم آواز سنتے وہی رک گیا _ اور اب انہیں یوں بےہوش ہوتے دیکھ وہ تیزی سے انکی جانب بڑھا تھا _
آبدار لیڈی صوفیہ کا سر گود میں رکھے انکا چہرہ تھپتھپا رہی تھی _ ابراہیم نے جلدی سے نبض چیک کی اور ساتھ ہی ایمبولنس کو کال کی _
کال کاٹنے کے بعد اس نے اگلی کال سیف کو کی تھی _
سیف ؟! یس بڈی کیسا ہے تو ؟
سیف اس سب کا وقت نہیں ہے – جلدی سے ہنی بی پہنچو – ایک ایمرجنسی ہوگئ ہے – فاسٹ
اوکے پہنچ رہا ہوں _ سیف جو میٹنگ اٹینڈ کرکے آرہا تھا جلدی سے سٹیئرنگ ویل گھماتا گاڑی کیفے کی طرف موڑ گیا _
⭐⭐⭐..
ہم ویٹ نہیں کرسکتے – انکی حالت خراب ہورہی ہے _ چلو انکو لے کر چلتے ہیں ہوسپیٹل – آبدار کی آواز دوسری طرف موجود سیف نے بھی سنی تھی اور اس نے کار کی سپیڈ تیز کردی تھی _ ابراہیم سر ہلاتا جلدی سے آگے بڑھا _
آبدار اور وہ صوفیہ کو سہارا دیتے ابراہیم کی کار تک لاۓ – ابراہیم نے پچھلی سیٹ کادروازہ کھولتے انہیں اندر سیٹ پر لیٹنے سے کے انداز میں بٹھایا – آبدار جلدی سے تھوڑی سی جگہ پر بیٹھتی انکا سر گود میں رکھ گئ –
ابراہیم خود جلدی سے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتا گاڑی کو ہوسپیٹل کی طرف موڑ گیا – جبکہ کیفے میں موجود لوگ سیچویشن کو سمجھتے آہستہ آہستہ کیفے سے جانے لگے _
اسی لمحے سیف جلدی سے کیفے میں داخل ہوا لیکن وہاں نہ تو آبدار تھی نہ ہی ابراہیم – کیفے میں موجود لوگوں سے اسے حالات کا پتا چلا –
اور حالات کو دیکھتے اس نے کیفے میں ہی ٹہرنے کافیصلہ کیا
⏳——-.
وہ پچھلے کچھ گھنٹوں سے یونہی سر جھکاۓ بینچ پر بیٹھی ہوئ تھی – اب تو شام ہونے والی تھی سردی بڑھ گئ تھی اور وہ صرف وائٹ کھلی سی شرٹ اور ٹراؤزر میں ملبوس تھی _ لیکن وہ سردی سے بےپرواہ بنی وہی بیٹھی رہی _
ہوسپیٹل کی لمبی راہداری میں ڈاکٹرز اور مریض آجا رہے تھے _ کچھ دیواروں کے ساتھ رکھے بنچوں پر بیٹھے ہوۓ تھے اور کچھ آجا رہے تھے _
آئ – سی – یو , کے باہر رکھے بینچ پر آبدار خاموش سی بیٹھی ہوئ تھی – اور اسے خاموشی سے دیکھتا ابراہیم جو کہ اسکی سامنے دوسری طرف موجود بینچ پر بیٹھا ہوا تھا _
وہ ایک لمبی سانس خارج کرتا اٹھ کھڑا ہوا اور اپنا لانگ کورٹ اتارتے آبدار کے کندھوں پر پھیلا دیا _
آبدار ،، چلو بھی سب کچھ ٹھیک ہوجاۓ گا – لیڈی صوفیہ ٹھیک ہوں گیں _ فکر مت کرو _
آبدار نے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا – اسکا بےتاثر سرد سا چہرہ دیکھ ابراہیم اسکے ساتھ والی چیئر پر بیٹھتا اسے اپنے ساتھ لگا گیا _ وہ خاموشی سے سر اسکے کندھے پر رکھے سامنے سفید پینٹ کی ہوئ دیوار کو گھور رہی تھی – دونوں ہاتھوں سے اسکا بازو تھامے وہ خاموش تھی اور اسکی یہ خاموشی ابراہیم کو بلکل اچھی نہیں لگی _
آئ – سی – یو کا دروازہ کھلا اور ڈاکٹرز اور نرسز باہر آۓ _ وہ ہنوز اسکی بازو تھامے اٹھ کھڑی ہوئ_
کیسی ہیں ڈاکٹر وہ _ ٹھیک تو ہیں نہ _ ؟!
ڈاکٹر اپنے ساتھ موجود ڈاکٹرز کو الوداع کرتا انکی طرف مڑا
مس —-؟!!!
” آبدار — آبدار سلطان ” –
تو مس آبدار – آپکی پیشنٹ کا نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے – یہ کسی زہنی ٹینشن اور دباؤ کی وجہ سے ہوا ہے _ اور آپکے پیشنٹ کی حالت کافی نازک تھی – بہت مشکل سے انکا بی پی نارمل ہوا ہے _ آپ انکا خاص خیال رکھیے اور کوشش کریں کے انہیں کوئ پریشانی نہ ہو _ میں چلتا ہوں _
ڈاکٹر وہ کب تک ڈسچارج ہو جائیں گیں ؟! ابراہیم کی بات پر ڈاکٹر کچھ سوچتا ہوا بولا – انکی طبیعت کو دیکھتے ہوۓ ہی ہم کچھ کہہ سکتے ہیں وہ ہوش میں آجائیں تو پھر
اوکے ڈاکٹر _ آپکا شکریہ —
یہ ہمارا فرض تھا – آپ اپنی وائف کا بھی خیال رکھیں یہ نہ ہو کہ ہمیں انہیں بھی ایڈمٹ کرنا پڑے _
وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے تو کبھی ڈاکٹر کو – یہاں تک کے ڈاکٹر بھی کنفیوز ہوگیا – کیا ہوا ہے کیا میں نے کچھ غلط کہہ دیا _ ؟!!
We are not married _
” He is not my husband and she is not my wife ” ….
وہ دونوں ایک ساتھ بولے – آبدار جلدی سے اسکا بازو چھوڑتی اس سے دور کھسکی _
اوکے اوکے سوری . شکر ہے صوفیہ ٹھیک ہے – اس موٹی کے بنا میں کیا کرتی !! آبدار بولتی ہوئ پھر سے چیئر پر بیٹھ گئ _ ویسے کیا بات ہے بتا سکتی ہو ؟! ہاں بتا سکتی ہوں – ویسے بھی آدھی بات تم نے سن ہی لی ہے – یہ کہتے ہوۓ آبدار نے اسے وہ ساری بات بتائ جسکی وجہ سے لیڈی صوفیہ یہاں تک پہنچ گئ تھیں
یہ کیفے صوفیہ کو بہت پسند ہے – یوں سمجھ لو اسکا سب کچھ ہے یہ _ اگر مجھے پتا ہوتا تو میں یہ فضول کام کرنے ہی نہ دیتی لیکن شاید وہ ڈر گئ تھی – لون شارکس سے بچنے کےلیے شیلا سے پیسے لیے – حالانکہ دونوں کی خصلت ایک جیسی ہے خودغرض اور لالچی _
ایک بات کہوں آبدار _ ؟! ابراہیم کچھ سوچتا ہوا بولا — ہمم کہو کیا کہنا ہے ویسے کونسا تم میری بات سنتے ہو _ ‘
برا نہیں ماننا ٹھیک ہے اس میں ہم دونوں کا فائدہ ہے _ ایک ڈیل کرتے ہیں آبدار سلطان _
کیسی ڈیل مسٹر ؟؟! میں تمہیں یہ کیفے واپس دلواؤں گا اور تم مجھ سے شادی کرو گی – ہم کانٹریکٹ کریں گے _ میں تمہاری مدد کروں گا اور تم میری _ کہو منظور ہے- ” مدد نہیں مسٹر سودا – آخر کو ہونا تم ایک بزنس مین ہی – اپنا فائدہ ہر جگہ دیکھ لیتے ہو ” – میرا ہرگز یہ مطلب نہیں آبدار _ اس نے بولنا چاہا لیکن —– تم کہہ چکے ہو مسٹر _ ہمم تو تمہاری ڈیل اچھی ہے سوچا جا سکتا ہےاس بارے میں _ تو چلو سودا کرتے ہیں پھر _ لیکن صرف کیفے نہیں میری کچھ اور بھی شرائط ہیں اگر وہ پوری ہوگئیں تو میں تیار ہوں ‘ کانٹریکٹ میریج ‘ کے لیے
آبدار پلیز —
واٹ پلیز — کل کیفے میں بات ہو گی تمہارے وکیل کے سامنے – ابھی کے لیے اس ٹاپک کو ختم کرتے ہیں –
یہ بتاؤ کیفے کا کیا بنا – کون ہے وہاں _
وہ لمبی سانس خارج کرتا بولا _ کیفے میں سیف ہے اور ایشان بھی وہی ہیں میں نے منع کردیا تھا یہاں آنے سے اسلیے وہ سیدھا کیفے گیا تھا لیکن اب وہ یہی آرہے ہیں تھوڑے ٹائم بعد_
ہمم شکریہ _
آبی میم کیسی ہیں _ ؟؟؟ ایشان اور سیف کو آتا دیکھ کر وہ سیدھا ہوکے بیٹھے اور چہرے کے تاثرات نارمل کرتے آبدار اسکے سوالوں کے جواب دینے لگی _
وہ چاروں اب ہوسپیٹل کی کینٹین میں موجود کافی پی رہے تھے _ کیا سب کچھ ٹھیک ہے ؟ سیف کے یوں اچانک سوال پر ابراہیم اور آبدار اسے دیکھنے لگے .
بلکل – سب ٹھیک ہی ہے _ اور شکریہ آپکا آج کے لیے – اٹس مینز آلاٹ _
شکریہ کی کوئ بات نہیں ہے ہم سب انسان ہے اگر ایک دوسرے کے کام نہیں آئیں گے تو کیا فائدہ —
آج کل لوگ کسی کے کام آنے کے لیے اپنا فائدہ دیکھتے ہیں مسٹر سیف _ میرا یہ سب سوچنا کوئ حیرانگی کی بات تو نہیں — آپ سمجھے نہیں لیکن سمجھ جائیں گے — اب میں چلتی ہوں – ڈاکٹرز نے روم میں شفٹ کردیا ہے لیڈی صوفیہ کو مجھے اب انکے پاس جانا چاہیے _
ہم بھی یہی ٹہرتے ہیں آپکا یوں اکیلے یہاں ٹہرنا مناسب نہیں _ سیف اپنی جگہ سے کھڑا ہوتا بولا –
نہیں میں سب سنبھالتی آئ ہوں اور آگے بھی سب سنبھال لوں گی آپ فکر نہیں کریں اور اکیلی کہاں ہوں میں ایشان بھی ہے میرے ساتھ _ آپ اپنے دوست کو ساتھ لیں اور گھر جاکر آرام کریں _ تم بل دے دو مجھے — ہاتھ بلز لینے کے لیے آگے بڑھایا_
میں یہی ہوں – اور بل بھی میں پے کردوں گا _ ابراہیم اپنی جگہ سے کھڑا ہوتا اب کہ فیصلہ کن انداز میں بولا _
نہیں تم گھر جاؤ – تم صبح سے یہاں ہو میرے ساتھ – پہلے کیفے میں اور پھر یہاں ہوسپیٹل تم تھک چکے ہو آرام کرو جا کر – صبح ملاقات ہوگی – اور بلز مجھے دے دو _
لیکن میں انہیں پے کر سکتا ہوں _ اس نے اپنی بات پر زور دیا
پے تو میں بھی کر سکتی ہوں – میرے پاس لاکھوں نہ سہی ہزاروں ہیں _ یہ کوئ اتنی بڑی بات نہیں ہے میرے لیے _ گیواٹ ٹومی ناؤ —
وہ ہار مانتا بلز اسے پکڑاتا سیف کے ساتھ باہر کی طرف بڑھا – اپنا کوٹ بھی لیتے جاؤ _ وہ کوٹ اسکے بازو پر رکھتی اسکے کچھ اور بولنے سے پہلے ہی کینٹین سے جاچکی تھی –
وہ کئ لمحے کوٹ کو دیکھتا رہا اور اس راستے کو بھی جہاں سے وہ ابھی چل کے گئ تھی – کہ سیف کے کندھا ہلانے پر اس کی جانب متوجہ ہوا – چلو ہم بھی چلتے ہیں _ ہممم وہ دونوں ہوسپیٹل سے نکلتے چلے گئے –
شام ہوچکی تھی – روڈ کے سائیڈوں پر لگے لیمپ جل اٹھے تھے – ہلکی پیلی روشنی, ٹھنڈی ہوا, سرد موسم سب کچھ بہت خوبصورت تھا – سڑک پر گاڑیاں رواں دواں تھیں _ انہیں میں سے ایک گاڑی سیف کی تھی جس میں دونوں بیٹھے اپنی منزل کی طرف گامزن تھے –
سیف نارمل سپیڈ میں ڈرائیو کرتا گاہے بگاہے نظر ابراہیم پر بھی ڈال لیتا – جو ایک کہنی ونڈو مرر پر ٹکاۓ خاموشی سے باہر گزرتے مناظر دیکھ رہا تھا – سیف نے اسے کئ بار شیشہ بند کرنے کا کہا بھی تھا کہ اندر ہیٹر لگا ہے – لیکن اسکی مسلسل خاموشی پر لمبا سانس بھرتے ہیٹر بند کر دیا – ٹھنڈی ہوا اندر آتی سیف کو ٹھٹھرنے پر مجبور کرگئ _ وہ گاڑی کی سپیڈ تھوڑی سلو کیے ابراہیم سے مخاطب ہوا —-
کیا بات ہے – کچھ تو ہوا ہے جو یوں بیہیو کررہے ہو تم اور میں آبدار کو زیادہ جانتا نہیں ہوں لیکن اس کے فیس سے یہ صاف ظاہر ہورہا تھا کہ تم دونوں کے درمیان کچھ تو ہوا ہے –
مگر اسکی مسلسل خاموشی پر چڑ گیا —-
یوں منہ بنا کر نہ بیٹھو جواب دو مجھے – اور وہ کیوں کہہ رہی تھی کہ صبح کیفے میں ملاقات ہوگی – آخر ایسی کونسی آفت آن پڑی ہے کہ تم لوگ بیمار انسان کو ہوسپیٹل چھوڑ کر کیفے میں میٹنگز کرتے پھرو _
آخرکار اسکے ساکت وجود میں ہلچل ہوئی اور وہ گردن کو دائیں بائیں گھماتا تھکاوٹ زدہ سانس خارج کرتا ہوا بولا _ میں نے آج پھر آبدار سے کانٹریکٹ میریج کے حوالے سے بات کی ہے –
آج پھر سے – ہمم لیکن کب _؟؟ جب ہم ہوسپیٹل میں تھے میں نے اسے کہا کہ میں اسکی ہیلپ کروں گا اور بدلے میں وہ میری ہیلپ کرے – میں نے کہا کہ ہم ڈیل کرتے ہیں –
سیف نے اپنی کار سائیڈ پر روکی اور حیرت سے ابراہیم کو دیکھنے لگا – اسے یقین نہیں ہورہا تھا کہ وہ اتنی بیوقوفی والی حرکت بھی کرسکتا ہے-
” یااللہ ” _ ابراہیم یار تم پاگل ہو – تم نے اتنی فضول بات کیسے کی آبدار سے وہ بھی آج اس وقت جب وہ اتنی ٹینشن میں ہے – ایک انسان مرتا ہوا بچا ہے اور تم ہوسپیٹل میں بیٹھ کر ڈیلز کررہے ہو – شیم آن یو مین —
میں کیا کرتا مجھے لگا یہی سہی موقع ہے – اگر میں نے اسےابھی ہیلپ کی آفر کی تو وہ مان جاۓ گی اور دیکھو وہ مان بھی تو گئ ہےنا _
ہاں مان گئ ہے – کیونکہ تم نے ڈیل کی ہے ابراہیم – تم نے بزنس کیا ہے اور بزنس پارٹنرز بس اپنا فائدہ دیکھتے ہیں – وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ہمیں اس ڈیل سے کتنا پروفٹ ہوگا _ اور آبدار نے بھی تمہیں ایک بزنس پارٹنر کی نظر سے دیکھا ہے – اسکی نظروں میں اپنی عزت تم ختم کرچکے ہو یہ میں نے دیکھا ہے _
مجھے جو سہی لگا میں نے کیا – اگر دادو یہ چاہتی ہیں تو مجھے یہ کرنا ہی تھا – انکی خوشی کے لیے کچھ بھی —-
اپنا کیا دوسروں پر مت ڈالو ابراہیم خانزادہ – اس طرح سے زندگی نہیں گزرتی – اپنے کیے ہوۓ عملوں کی زمہ داری لو – تم تو اتنے خودغرض نہیں تھے ابراہیم _ یہ سیلفیشنیس کہاں سے آگئ ہے تمھارے اندر –
” تم کب سے دوسروں کی زندگیوں پر سودے بازی کرنے لگے “
اب بس بھی کرو – پہلے ہی آبدار کا رویہ عجیب ہو گیا ہے _ ابراہیم جھنجھلایا ہوا لگا سیف کو – وہ لمبا سانس لیتا سر نفی میں ہلا گیا –
صرف رویہ -؟!!
اگر میں اسکی جگہ ہوتا تو تمہاری شکل بھی دوبارہ نہیں دیکھتا – لیکن ایم ایمپریسڈ وہ کافی سمجھدار لڑکی ہے – ہائیپر ہونے کی جگہ اس نے سوچ کر فیصلہ کیا ہے – یا تمہاری زبان میں کہو تو ‘ ڈیل ‘ _ غلط وقت پر غلط بات کی ہے تم نے
سب کچھ وقت کے ساتھ ٹھیک ہو جاۓ گا – آئ ہوپ سو — ابراہیم نے جیسے خود کو تسلی دی _
سب کچھ ٹھیک ہی رہے گا اگر تم اس ڈیل کو اسکے ختم ہونے تک ڈیل ہی سمجھو – دل نہ لگاؤ کیونکہ اگر دل لگا لیا تو ٹکڑوں کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آۓ گا _
” جو لوگ خاموش رہتے ہیں اور بڑے بڑے فیصلے خاموشی سے کر جاتے ہیں – ایسے کہ اگلے انسان کو لگے کہ یہ فیصلہ اسی نے کروایا ہے اور وہ سمجھدار ہے تو یقین کرو – تم سے بڑا بےوقوف اور کوئ نہیں اور تمہیں چاہیے کہ ایسے لوگوں سے بچو _ یہ خاموشی خاموشی میں انسان مار دیتے ہیں ” _
واہ تمہیں تو ڈرامہ لکھنا چاہیے – ابراہیم نے جیسے سب سمجھتے ہوۓ بھی اگنور کیا – اور ایسا ویسا کچھ نہیں ہوگا – ہماری ڈیل صرف ڈیل ہی رہے گی اس سے زیادہ کچھ نہیں –
ہممم گڈ — لیٹس گو – ان کی کار اب روم کی سڑک پر چلتی جارہی تھی _ دھند بڑھتی جا رہی تھی – ایسی کہ سانس بند ہوجاۓ اور کچھ نظر بھی نہ آۓ _
♡(∩o∩)♡
( دن : سوموار / تاریخ : تیس )
گڈ مارنگ دادو — وہ سیڑھیاں اترتا ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھ کر ناشتہ کرتی اپنی دادو کو وش کرتا ان کے ساتھ والی کرسی پر جا بیٹھا _
کتنی بار کہا ہے کہ سلام کرتے ہیں – تم نہ سدھرنا ابراہیم _ وہ اسے گھورتی چاۓ کا کپ منہ کو لگا گئیں —
سوری سوری اوکے تو _ اسلام علیکم —-
ہمم یہ ہوئ نہ بات – وعلیکم اسلام — اور کہاں بزی ہو آج کل, گھر پر تو دکھتے ہی نہیں – جان بوجھ کر تو نہیں کررہے تاکہ تم میری بات کو اگنور کرسکو _ شکی انداز میں اسکو گھورا گیا
کم آن دادو – ایسی کوئ بات نہیں ہے میں نے آپ کو بتایا تھا نہ کہ آپکی خواہش پوری ہونے والی ہےتو بس اسی حوالے سے آپ سے کچھ بات کرنی ہےمجھے – میں نے بہت سوچا ہے ساری رات سوچا ہے اور یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں شادی نہیں کرنا چاہتا —
لیکن کیوں تم نے تو کہا تھا کہ تم شادی کرنے کو تیار ہو کچھ دن پہلے تک تو اب کیا ہوگیا ہے —
“( کیا لگتا ہے – ابراہیم کیا سوچ رہا ہے – ؟ کیا وہ سچ میں شادی سے انکار کردے گا ؟! کیا وہ آبدار کی کیفے کو واپس حاصل کرنے میں مدد کرے گا؟! کیا آبدار ابراہیم سے پہلے جیسا برتاؤ کر پاۓ گی ؟؟؟؟؟ شیئر یور تھوٹس ) “
باقی آئیندہ