ولید نے بلڈنگ میں ہی ایک جاننے والے سے گاڑی لی تھی اور اب سویرا کو واپس گھر چھوڑنے جا رہا تھا۔ دونوں کے بیچ خاموشی حائل تھی جسے ولید نے ہی توڑا۔
”تم اور جنید ایک دوسرے کو پسند کرتے ہو یہ بات پھوپھو پھوپھا جانتے ہیں؟“ اس نے ڈرائیو کرتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں، یہ بات کوئی نہیں جانتا اور نہ ہم ابھی کسی کو بتانا چاہتے تھے۔“ وہ گویا ہوئی۔
”کیونکہ ایک طرح سے میرا اور جنید کا رشتہ ٹیچر اور اسٹوڈنٹ کا ہے، ہم ایتھکلی اور مورلی اس کی ریسپکٹ قائم رکھنا چاہتے تھے، ہمارا ارادہ تھا کہ جب میں اپنا ڈپلومہ کمپلیٹ کرکے پراپر پریکٹس میں آجاؤں گی، اور جنید کو آسٹریلیاء سے اپائنٹمنٹ لیٹر مل جائے گا، تب ہم گھر والوں سے بات کریں گے، کیونکہ جنید کی امی میڈم سلمیٰ ہماری سینئر ٹیچر ہیں جنہیں اپنے اکلوتے بیٹے کیلئے بہو بھی اتنی ہی لائق چاہیے، کچھ اس لئے بھی میں اور دل مار کر اس ڈپلومہ کے بوجھ کو گھسیٹ رہی تھی۔۔۔۔
لیکن اپنے ہر پریکٹیکل کے بعد مجھے یہ سمجھ آتا گیا کہ اگر میں نے اس فیلڈ کو زبردستی جوائن کر بھی لیا تو اپنے ساتھ ساتھ اپنے پیشنٹس پر بھی ظلم کروں گی، جیسا پہلی ملاقات میں احتشام کے ساتھ کر گئی تھی، میں اپنی فرسٹیشن کہیں نا کہیں اپنے پیشنٹس پر نکال دوں گی جو کہ بالکل غلط ہے، بس یہ ہی سب سوچتے ہوئے میں نے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کر لیا، اب آگے پتا نہیں کیا ہوگا؟“
اس نے آخر میں تھک کر گہری سانس لی۔ ولید نے اس کی جانب دیکھا۔ وہ واقعی تھکن زدہ لگ رہی تھی۔ ان چاہا بوجھ اٹھائے پھرنے کی تھکن۔۔۔۔
”آگے بھی سب اچھا ہوگا۔“ ولید نے واپس سڑک پر دیکھتے ہوئے تسلی دی۔
”میں نے اچانک آ کر تم لوگوں کو بھی پریشان کر دیا، آئی ایم سوری۔“ وہ شرمندہ ہوئی۔
”سوری تو مجھے کہنا چاہیے تم سے، شرمندہ تو میں ہوں۔“ ولید کے انداز میں ملال تھا۔ اسی پل گاڑی گھر کے آگے رکی۔
”تم کیوں شرمندہ ہو؟“ سویرا نے متعجب نظروں سے دیکھا۔ ولید نے بھی نظر ملائی۔
”تمہارے ساتھ اندر ہی اندر اتنے مسائل چل رہے تھے اور مجھے پتا ہی نہیں تھا ورنہ کوئی مدد کر دیتا۔“ اس نے بات بدل دی۔ کیونکہ اصل بات بتا دیتا تو واقعی شرم کے مارے ساری زندگی نظر نہیں اٹھا پاتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭