ولید بھی سویرا کے ساتھ گھر گیا تھا جہاں حسب توقع سب گھر والے پریشان ملے۔ پھر تھوڑی ڈانٹ ڈپٹ، ضد بحث، نصیحت، وضاحت کے بعد بلآخر کشتی کنارے لگ گئی۔
ولید وہاں سے واپس اپارٹمنٹ آیا تو تینوں لاؤنج میں ہی بیٹھے ملے۔ جب کہ جنید جا چکا تھا۔ حسن ایک سنگل صوفے پر براجمان تھے جس کے ہتھے پر زین بیٹھا ہوا تھا۔ احتشام ڈبل صوفے پر موجود تھا۔ ولید بھی آ کر چپ چاپ احتشام کے برابر میں بیٹھ گیا۔
ان چاروں کے ہوتے ہوئے بھی سب کے بیچ گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ جیسے کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیسا رد عمل دیں؟
احتشام اور ولید نے آہستہ سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ دونوں کی نظریں ملیں اور۔۔۔۔دونوں کے لبوں پر مسکراہٹ امڈ آئی۔
اچانک دونوں ہنسے۔ حسن اور زین نے انہیں دیکھا۔ ان کی ہنسی بڑھنے لگی اور بلآخر فلک شگاف قہقہے میں تبدیل ہوگئی۔ دونوں ہنستے ہوئے صوفے سے اتر کر فرش پر آگئے تھے۔
”کیا ہوگیا تم دونوں کو؟“ حسن نے تعجب سے پوچھا۔
”لگتا ہے سویرا والا صدمہ ان کے دماغ پر لگ گیا ہے۔“ زین نے حسن کے کان میں سرگوشی کی۔
”سویرا کی باتوں سے بہت سویرا ہوگیا تھا ناں تیری زندگی میں؟ اب پتا چلا کہ وہ باتیں در حقیقت سورج کی تھیں، اب کیا جنید کو شادی کیلئے پرپوز کرے گا؟ کیونکہ سویرا تو تجھے فرینڈزون کر گئی ہے۔“ ولید نے ہنستے ہوئے مذاق اڑایا۔ اچانک ماحول کو تناؤ زائل ہوگیا۔
”ابے مجھے افسوس اس بات کا نہیں ہے کہ سویرا نے مجھے فرینڈ زون کیا، بلکہ اس بات کی خوشی ہے کہ وہ تجھے بھی بھائی زون کر گئی۔“ احتشام نے بھی لحاظ نہ رکھا جو بری طرح ہنس رہا تھا۔ وہ دونوں بھی ہنسنے لگے۔
”یہ سب تیری وجہ سے ہوا ہے کمینے، تیرے ساتھ رہ رہ کر میرا دھیان بھی بھٹک گیا ورنہ میں تو سادگی سے پڑھائی میں مصروف تھا۔“ ولید نے اسے چپت لگاتے ہوئے سارا الزام اسے دیا۔
”اچھا؟ میں نے تجھے کہا تھا کہ سویرا کیلئے گفٹ خرید اور برتھ ڈے پر پرپوز کر دے؟“ وہ ہنستے ہوئے ہی دو بدو ہوا۔
”تو نے نہیں کہا تھا، لیکن شکر ہے میں نے بھی کچھ نہیں کہا۔“ دھیرے دھیرے ولید کی ہنسی کو لگام لگی۔
”اگر صحیح وقت پر ساری بات نہ کھلتی اور کل میں سویرا سے وہ سب کہہ دیتا تو پھر ساری زندگی نظر نہیں ملا پاتا، وہ مجھے بھائی جیسا سمجھتی تھی اور میں اس کے بارے میں یہ سب سوچ بیٹھا۔“ ولید نے خود کو ملامت کی۔ احتشام بھی خاموش ہوگیا تھا۔
”میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا، میں بھی انجانے میں بہت بڑی غلطی کر بیٹھا تھا۔“ احتشام نے اعتراف کیا۔
”اگر دیکھا جائے تو غلطی تم دونوں کی نہیں ہے، لیکن غلطی تم تینوں کی بھی ہے۔“ حسن نے بھی نیچے بیٹھتے ہوئے حصہ لیا۔ دونوں نے اسے دیکھا۔
”تم دونوں کی غلطی اسی لئے نہیں ہے کہ یہ تو قانونِ فطرت ہے کہ مخالف جنس ایک دوسرے کی جانب کھنچتی ہی ہے، ان کی عام سی بات بھی بہت خاص لگتی ہے، جو تم لوگوں کو بھی لگ گئی۔۔۔۔۔لیکن تم تینوں کی غلطی یہ ہے کہ قانونِ فطرت سے واقف ہونے کے باوجود تم لوگوں نے اسے فار گرینٹیڈ لیا، اتنا نظر انداز کیا کہ شاید بھول ہی گئے، سویرا بھول گئی کہ بھلے ہی وہ تمھیں دوست یا بھائی سمجھتی ہے لیکن ہو تو تم دونوں ہی مرد اور وہ عورت، تم دونوں بھول گئے کہ سویرا کے ساتھ تو معاہدہ ہی ہیلنگ کا ہوا تھا، اور اس کے ہیل کرنے کی کوشش کو تم دونوں محبت کی علامت سمجھ بیٹھے۔“
حسن نے پوری تصویر واضح کی جو منظر کے باہر کھڑا بہ آسانی اس زاویے سے پورا نظارہ کر سکتا تھا، جس زاویے سے یہ لوگ منظر کا حصہ ہو کر منظر کو نہیں دیکھ پائے۔ لیکن اب سب سمجھ آگیا تھا۔
”تو ٹھیک کہہ رہا ہے یار، اب میں بھی یہ لڑکی وڑکی سے دوستی کے چکر میں نہیں پڑوں گا، اس چکر میں محبت اور اٹریکشن کے بیچ بڑی کنفیوژن ہے، مجھے بس پڑھائی پوری کرنی ہے پھر سیدھا امی کی پسند سے شادی کر لوں گا۔“ زین نے بھی حسن کے برابر بیٹھتے ہوئے فوراً عبرت پکڑی۔
”ٹھیک کہہ رہے ہو، غلطی محبت کی نہیں ہماری ہوتی ہے، ہم فطری کشش کو ہی محبت سمجھ بیٹھتے ہیں، اور پھر محبت کو کوستے ہوئے روتے ہیں۔“ احتشام نے تائید کی جو یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ گیا تھا۔
”ہاں لیکن اس ساری گڑبڑ میں ایک بات اچھی ہوئی۔“ حسن کو اچانک خیال آیا۔
”کون سی بات؟“
”یہ ثابت ہوگیا کہ ہر بار ایک عورت کے پیچھے دو مرد ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نہیں ہوتے، کبھی کبھی وہ ایک دوسرے کیلئے قربانی دینے کو بھی تیار ہوتے ہیں۔“ حسن نے ان دونوں کی جانب اشارہ کیا جو اس انکشاف سے پہلے ایک دوسرے کی خوشی میں قربان ہونے کیلئے بخوشی راضی تھے۔
”جب دوست ایسا ہو تو اس کیلئے قربان ہونا بھی اعزاز سے کم نہیں ہوتا۔“ ولید نے محبت سے احتشام کے گرد بازو حمائل کیا۔
”لیکن مجھے میرے دوست کی قربانی نہیں، ساتھ چاہیے، ہمیشہ۔۔۔“ یہ ہی عمل دہراتے ہوئے احتشام کے انداز میں بھی اتنی ہی محبت تھی۔
”صنم ملے نا ملے، محبوب دوستوں کا ساتھ کبھی نہیں چھوٹنا چاہیے۔“ احتشام نے دوسرا بازو ان دونوں کیلئے وا کیا۔ وہ دونوں بھی فوری ساتھ آ کر بیٹھ گئے۔ بھلے وہ ان کے بچپن کے دوست نہیں تھے۔ لیکن انہوں نے بھی ہر قدم پر دوستی نبھائی تھی۔
”سب ہیپی ہیپی سا لگ رہا ہے، لگتا ہے پکچر ختم ہونے والی ہے۔“ زین نے اندازہ لگایا۔
”ابھی کہاں، ابھی تو رئیل ہیروئنز کی انٹری باقی ہے۔“ احتشام نے تصحیح کی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے