میں ثانیہ سے یونیورسٹی میں ملا تھا، میں سیکنڈ ایئر میں تھا اور وہ فرسٹ ایئر نیو ایڈمیشن تھی۔ اس دن اس کا یونیورسٹی میں پہلا دن تھا۔ اس کی کوئی کالج کی دوست ساتھ نہیں تھی، وہ اکیلی تھی اسی لیے زیادہ نروس تھی۔
جب پہلی بار میری اس پر نظر پڑی تو وہ نوٹس بورڈ کے پاس کھڑی اپنا دوپٹہ مروڑتے ہوئے قدرے پریشان تھی۔ اور اسی چیز نے مجھے اس کی طرف کھینچا۔
ایسا نہیں تھا کہ وہ لڑکی تھی تو ہی میں اس کی مدد کرنے پہنچ گیا۔ یہ میری بچپن کی عادت ہے کہ مجھے اسکول، کالج، یونیورسٹی کہیں بھی کوئی ایسا انسان نظر آتا ہے جو نئے ماحول میں پریشان ہو رہا ہوتا ہے تو میں اس کی ممکنہ مدد ضرور کرتا ہوں۔ یہ ہی میں نے اس وقت کیا۔
”ایکسکیوزمی! کوئی پرابلم ہے؟“ میں نے پاس جا کر شائستگی سے پوچھا۔ وہ چونک کر مجھے دیکھنے لگی۔
”آپ نیو ایڈمیشن ہیں؟“ اسے خاموش پا کر میں نے خود ہی اندازہ لگایا۔
وہ چند لمحے کشمکش کا شکار بری طرح دوپٹہ مروڑتی رہی پھر ”ہاں“ میں سر ہلا دیا۔
”تو کوئی مسلہ ہوگیا ہے؟ کلاس نہیں مل رہی؟“ میں خود ہی اگلے سوال پر آیا۔ کیونکہ اکثر نیو اسٹوڈنٹس کا کامن مسلہ یہ ہی ہوتا ہے۔ دوبارہ دھیرے سے سر ہلا۔
میں نے اس سے تفصیلات پوچھیں اور پھر خود ہی اسے کلاس تک چھوڑنے چل پڑا۔ وہ ہچکچاتے ہوئے پیچھے چل تو پڑی لیکن اتنا ہلکے چل رہی تھی کہ مجھے کئی بار رک کر پیچھے دیکھتے ہوئے اس کے آگے آنے کا انتظار کرنا پڑا۔
بلآخر ہم دونوں سیکنڈ فلور پر مطلوبہ کلاس تک پہنچ گئے۔ وہ کلاس کا جائزہ لے کر فوری اندر چلی گئی۔ مجھے اخلاقاً شکریہ تک نہ کہا۔ مجھے پل بھر کو تھوڑا تعجب ہوا، لیکن پھر میں بھی سر جھٹک کر وہاں سے چلا گیا کہ یہ میرے لئے کوئی بڑی بات نہیں تھی۔
اگلے دن تک تو میں اسے بھول بھی گیا تھا لیکن اچانک وہ مجھے پکارتی ہوئی آگئی۔ اس وقت ولید بھی میرے ساتھ تھا اور ہم دونوں لائبریری کی طرف جا رہے تھے۔
”سنیں۔۔۔“ آواز پر ہم دونوں رک کر پلٹے۔
شاید وہ مجھے دور سے دیکھنے کے بعد بھاگتی ہوئی آئی تھی تب ہی اس کا سانس پھول رہا تھا۔
”آپ نے ہمیں پکارا تھا؟“ ولید نے پوچھا۔
”نہیں، صرف ان کو، آپ جا سکتے ہیں۔“ اس کے غیر متوقع صاف جواب کے لیے ہم تیار نہیں تھے تب ہی بھونچکا رہ گئے۔
”یہ میرا دوست ہے، تو یہیں رک، آپ کہیں آپ کو مجھ سے کیا کام ہے؟“ میں نے ولید کو کہتے ہوئے لڑکی سے پوچھا۔
”مجھے آپ کو کل کے لیے تھینکس کہنا تھا، آپ نے مجھے ٹھیک کلاس تک پہنچا دیا تھا، ورنہ مجھے لگا کہ آپ بھی میرے ساتھ پرینک کر دیں گے۔“ کل کی نسبت آج وہ بہتر لگ رہی تھی۔
”اصل میں آپ سے پہلے میں نے دو لوگوں سے مدد مانگی تھی لیکن انہوں نے مجھے غلط راستہ بتا دیا اور میں گھوم پھر کر وہیں پہنچ گئی جہاں سے چلی تھی، اسی لیے جب آپ نے آفر کی تو میں ڈر رہی تھی کہ کہیں آپ بھی ایسا ہی نہ کریں، لیکن شکر ہے کہ آپ نے ایسا نہیں کیا، اس وقت میں اتنی نروس تھی کہ آپ کو تھینکس کہنے کا بھی خیال نہیں رہا، اسی لئے ابھی آپ کو دیکھا تو فوراً چلی آئی، تھینک یو میری ہیلپ کے لئے۔“ اس وقت مجھے اندازہ ہوا کہ وہ خاصی باتونی لڑکی تھی۔
”اٹس اوکے، یہ چھوٹی موٹی ہیلپ کرنا تو اچھی بات ہوتی ہے۔“ میں نے شائستگی سے کہا۔
”ہاں اور یہ ہمیشہ سب کی ایسے ہی ہیلپ کرتا ہے۔“ ولید نے بھی ٹکڑا لگایا جو شاید اسے جتا رہا تھا کہ تمھیں کوئی اسپیشل ٹریٹمنٹ نہیں دیا گیا۔
”آپ کا نام کیا ہے؟“ اس نے جاننا چاہا۔
”احتشام، اور یہ میرا دوست ولید ہے۔“ میں نے تعارف کرایا۔
”میں ثانیہ ہوں۔“ اس نے بتایا اور پھر چند باتوں کے بعد ہم اپنے اپنے راستے چلے گئے۔