پھر اکثر یونیورسٹی میں ہی ہماری ملاقات ہونے لگی۔ ہمارے سبجیکٹس ایک ہی تھے تو وہ اکثر مجھ سے مدد لینے لگی جس دوران ہم نے موبائل نمبرز بھی ایکسچینج کر لیے۔
دھیرے دھیرے اس کی کئی لوگوں سے دوستی ہوگئی جس کی وجہ سے اب وہ پہلے کی نسبت خاصی کانفیڈینٹ ہوگئی۔ اس کے دوستوں میں کچھ میل کلاس میٹس بھی شامل تھے جن سے نہ مجھے کوئی اعتراض تھا اور نہ اعتراض کا حق!
البتہ میری اور اس کی دوستی کچھ زیادہ ہی گہری ہو رہی تھی۔
روز صبح پہلا میسیج اسی کا ہوتا تھا اور اسی سے بات کرتے کرتے رات ہوجاتی تھی۔ کبھی اس کی طرف سے میسیج نہیں آتا تھا تو میں بے چین ہو کر میسیج کر دیتا تھا۔
میں پہلی بار کسی لڑکی سے بات نہیں کر رہا تھا۔ میری اور فیمیل کلاس میٹس سے بھی بات چیت تھی۔ میرا پورا بچپن اور لڑکپن فیمیل کزنز کے ساتھ کھیلتے کودتے گزرا تھا۔ لیکن پتا نہیں کیوں ثانیہ کا رویہ سب سے الگ محسوس ہوتا تھا۔
جس طرح وہ میری چھوٹی چھوٹی باتیں یاد رکھتی تھی، میرے کھانے پینے، سونے اٹھنے، پڑھنے لکھنے کی روٹین کا خیال رکھتی تھی وہ مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ اور کبھی کبھی تو وہ میرے لئے ایسے ہی چھوٹا موٹا گفٹ بھی لے آتی تھی۔
”یہ تمہارے لیے احتشام۔۔“ ایک روز ایسے ہی اس نے ایک شاپنگ بیگ دیا۔ میں نے چیک کیا تو اس میں ایک پرنٹڈ شرٹ تھی۔
”اس کی کیا ضرورت تھی، ابھی تو کوئی اسپیشل اوکیجن بھی نہیں ہے۔“ میں نے ہمیشہ کی طرح کہا۔
”اپنے لیے کچھ سامان لینے گئی تھی، وہاں یہ شرٹ دیکھ کر تمہارا خیال آیا تو تمہارے لیے لے لی۔“ اس نے بھی ہمیشہ کی طرح سہولت سے جواب دیا۔
اس کی دی گئی ہر چیز میرے لئے بہت خاص ہوتی تھی۔ اور جب بھی وہ مجھے کوئی تحفہ دیتی تھی تو بدلے میں مجھے بھی کچھ دینے کی خواہش ہونے لگتی تھی۔ میں بھی اس کیلئے کچھ خرید لاتا تھا جسے دیکھ ولید اکثر خفا ہوتا تھا۔
اس دن بھی میں اپنے بیڈ پر بیٹھا گفٹ پیک کر رہا تھا جب کمرے میں آیا ولید یہ دیکھ کر بگڑا۔ زین اور حسن بھی وہیں صوفے پر تھے جو کورس کی کتاب کھولے بیٹھے میرے ساتھ ایک سوال ڈسکس کرنے آئے تھے لیکن وہ میرے معاملات میں زیادہ دخل اندازی نہیں کرتے تھے۔ یہ کیڑا صرف ولید میں تھا۔
”تو پھر اس کے لیے گفٹ لے آیا؟ ابھی پچھلے مہینے تو نے اسے ایک برینڈیڈ سوٹ دیا تھا ناں؟“
”ہاں وہ تو پچھلے مہینے دیا تھا ناں؟ ابھی اس نے مجھے پھر ایک شرٹ گفٹ کی ہے، تو میرا بھی کچھ دینے کا من کیا۔“ میں رسٹ واچ پیک کرنے میں مصروف رہا۔
”اچھا! تو وہ چھپری پرنٹ والی شرٹ اس نے دی ہے؟ وہ ہی میں کہوں کہ تیری پسند تو اتنی چھچھوری نہیں ہے۔“ وہ نتیجے پر پہنچا تو میں اسے خشم گیں نظروں سے گھورنے لگا۔
”پانچ سو کی شرٹ میں اور پندرہ سو کی گھڑی میں بہت فرق ہوتا ہے شامی، وہ تجھے شرٹ اور سن گلاسسز جیسے سستے آئٹم پکڑا دیتی ہے اور تو باؤلا ہو کر مہنگی مہنگی چیزیں لے آتا ہے۔“ ولید پر میری گھوری کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔
”تحفے کی قیمت نہیں نیت دیکھی جاتی ہے، اور ویسے بھی لڑکیوں کی چیزیں مہنگی آتی ہیں، جب کہ لڑکوں کے استعمال کی چیزیں سستی ہوتی ہیں۔“ میں نے ہمیشہ کی طرح دلیل دی۔
”نہیں، لڑکوں کی چیزیں بھی مہنگی ہوتی ہیں، ابھی کل ہی میں نے فیسبک پر آٹھ ہزار کے شیونگ سیٹ کا ایڈ دیکھا تھا۔“ زین سے چپ نہ رہا گیا۔
”آٹھ ہزار کا شیونگ سیٹ؟ کیا اس کے ساتھ شیو بنانے کے لیے نائی بھی دے رہے تھے؟“ حسن کو حیرت ہوئی۔
”ثانیہ سے اگر یہ فرمائش کرکے بھی وہ شیونگ سیٹ مانگے ناں تو وہ دس روپے والا ریزر پکڑا کر کہے گی کہ کام تو یہ بھی وہ ہی کرے گا ناں، اور ویسے بھی تحفے کی نیت دیکھی جاتی ہے قیمت نہیں۔“ بیڈ پر بیٹھ کر جوتے اتارتا ولید طنز کرنے سے باز نہ آیا۔
ان لوگوں کی باتوں سے زچ ہو کر میں وہاں سے چلا گیا اور پھر میں نے ثانیہ کیلئے لیے گئے گفٹس گھر لانا ہی چھوڑ دیے بلکہ شاپ سے پیک کرا کے بیگ میں رکھ لیتا تھا کیونکہ گھر لاتا تو پھر ولید کے لیکچرز سننے کو ملتے۔