Uncategorized

Mohabbat Fateh Tehri by Ayesha Asghar Episode 1 Classic Novel Saga Online Reading

حسد ایک خاموش مگر مہلک دشمن ہے
جو دل اور روح کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر دیتا ہے۔
یہ روح کے سکون پر حملہ آور ہو کر اسے بے قابو کر دیتا ہے
اور دماغ میں کانٹے کی طرح چبھتا رہتا ہے۔
یہ حقیقت کو جھوٹ کے پردے میں چھپا دیتا ہے
اور دل کی نرمی کو سختی اور بغض میں بدل دیتا ہے۔
یہ آنکھوں میں ایسی تیزی پیدا کرتا ہے
جو محبت اور خیرخواہی کے جذبات کو مٹا دیتی ہے۔
حسد ایک ایسا سایہ ہے جو دیکھتا ہے، انتظار کرتا ہے
اور موقع ملتے ہی وار کر دیتا ہے۔
یہ دوسروں کی خوشیوں پر نظر رکھتا ہے
اور ان کی کامیابیوں کو زہر سمجھ کر نگل لینا چاہتا ہے۔
یہ دلوں میں نفرت کے بیج بوتا ہے،
جو بڑھ کر اندھیروں کے جنگل میں تبدیل ہو جاتے ہیں
اور حسد کرنے والے کو بھی نگل لیتے ہیں۔
حسد سے بچو! یہ نہ صرف دوسروں کو نقصان پہنچاتا ہے
بلکہ تمہاری اپنی روح کو بھی تاریکی میں دھکیل دیتا ہے۔
اپنے دل کو محبت، خلوص، اور خیرخواہی سے روشن رکھو،
کیونکہ یہی حسد کا سب سے طاقتور علاج ہے۔
بہت سی مصروف شاہراہوں پر زندگی ایک بے قابو دریا کی طرح بہہ رہی تھی، جس کی موجیں سیاہ تارکول کی سڑک پر دوڑتی گاڑیوں کی صورت میں نمودار تھیں۔ ان موجوں میں ایک شاہانہ سیاہ لینڈ کروزر بھی تھی، جو رات کے سکوت کو اپنے وجود سے چیرتی ہوئی گزر رہی تھی۔
عقبی نشست پر بیٹھے شخص کی گود میں ایک لیپ ٹاپ روشن تھا، جس کی اسکرین سے نکلنے والی روشنی اندھیرے میں جلتے چراغ کی مانند محسوس ہو رہی تھی۔ اس کی انگلیاں کی بورڈ پر ایسے حرکت کر رہی تھیں جیسے کوئی ماہر موسیقار پیانو پر اپنی دھن بکھیر رہا ہو۔
مصروف شہر کے مصروف لوگ!
یہ شہر،ایک خواب اور حقیقت کا سنگم،کراچی تھا، جسے لوگ منی پاکستان بھی کہہ کر پکارتے تھے۔ روشنیوں اور اندھیروں کے امتزاج میں ڈوبا یہ شہر، کروڑوں دلوں کی دھڑکن تھا، جہاں دن کبھی مکمل نہ ہوتا تھا اور رات کبھی ختم نہ ہوتی تھی۔جہاں ہر دھڑکن کے پیچھے ایک کہانی چھپی تھی،اور ہر کہانی میں اس شہر کا عکس جھلکتا ہے۔
”سر، گزشتہ رات جس شخص نے آپ کی گاڑی پر حملہ کیا تھا،اسے پکڑ لیا گیا ہے“۔
گاڑی میں بیٹھا شخص اپنے مخصوص لباس میں ملبوس تھا۔سیاہ ٹی شرٹ، جینز، اور ایک سیاہ کوٹ، جو اس کے کردار کے بھید بھرے پن کو مزید گہرا کر رہا تھا۔ اس کے گلے میں لٹکتی سلور چین پر دو انگریزی حروف “Y” اور “D” اندھیری رات کے ستاروں کی مانند جھلک رہے تھے۔
گاڑی ایک خوبصورت مینشن کے پورچ میں رکی۔ مینشن کی روشنیاں ایسے لگ رہی تھیں جیسے کسی قلعے کے بلند میناروں پر چراغاں کیا گیا ہو۔
”کہاں ہے وہ؟“
گاڑی سے اترتے ہوئے اس نے اپنے کوٹ کے بٹن کھولے۔اس کا خاص ملازم، جو ایک سایے کی طرح اس کے پیچھے چل رہا تھا، اس کے لیپ ٹاپ کو احتیاط سے سنبھالے ہوئے تفصیلات بتانے لگا۔
”معلومات ٹھیک نکلوائی ہیں؟“۔ اس کے بے تاثر چہرے پر پتھر کی سی سختی تھی۔
”سر، آپ اسے جو سزا دینے کا سوچ رہے ہیں، وہ اسی کا حقدار ہے۔“ مراد نے فوراً جواب دیا۔
”کہاں ہے ہمارا مہمان؟“
بیسمنٹ کی سیڑھیاں اترتے ہوئے اس کی آواز بیسمنٹ کی دیواروں سے ٹکرا کر ایسی بازگشت پیدا کر رہی تھی جیسے کسی جیل کے تنگ و تاریک راہداریوں میں کوئی فیصلہ سنا رہا ہو۔ سامنے کرسی پر بندھا شخص خوف اور بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا تھا۔
“کس نے بھیجا تھا تمہیں؟”
اس کے قریب پہنچتے ہی اس نے مٹھی سے اس کے بالوں کو جکڑا۔
”مم… مجھے نہیں پتا!“
”اس جملے کا مطلب جانتے ہو؟“ اس کے لبوں پر مسکراہٹ ایک لمحے کے لیے جھلک دکھائی تھی ۔”جب کوئی کہے ‘مجھے نہیں پتا’، تو سمجھ جاؤ کہ اسے سب کچھ پتا ہے“۔
ایک لمحے میں، اس کی انگلیوں نے ایسے زور دیا جیسے کسی شیشے کو چٹخنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ایک چٹاخ کی آواز آئی، ہڈیوں کے ٹوٹنے کی اور دل دہلا دینے والی بازگشت نے بیسمنٹ کو بھر دیا۔
”مجھے چھوڑ دو!“درد کی شدت سے وہ چیخا۔
”جب کوئی کہے ‘مجھے چھوڑ دو’، تو اسے مزید مضبوطی سے پکڑ لینا چاہیے“۔
یہ کہتے ہوئے، اس نے دوسرے ہاتھ کو پکڑا اور بلیڈ کا ہلکا سا وار کیا۔ خون کی پہلی بوند بلیڈ سے یوں ٹپکی جیسے کسی زخم نے اپنا راز فاش کیا ہو۔پھر اچانک، اس نے گردن پر ایسا دباؤ ڈالا جیسے کسی پرندے کو پنجے میں جکڑ لیا جائے۔ وہ شخص ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگا، اس کی آنکھیں باہر کو آنے لگیں۔ لمحے بھر بعد، اس نے دباؤ ہٹا لیا اور اسے سانس لینے دیا۔مراد بےتاثر چہرے کے ساتھ باس سے کچھ فاصلے پر کھڑا سب دیکھ رہا تھا۔
”مَہ… میں کیا کہوں؟“۔کچھ دیر بعد اس نے ہانپتے ہوئے پوچھا۔
”یہ ہوئی نا سمجھداری والی بات۔ وہی کہو جو میں سننا چاہتا ہوں۔“
اس کی ہنسی گویا کسی مردہ دل ویرانے میں بجلی کی کڑک تھی۔ اسی لمحے، رسیوں سے بندھے شخص کی نظر اس کے گلے میں لٹکتی چین پر پڑی۔ وہ دو انگریزی حروف “Y” اور “D” اس کی رہی سہی ہمت بھی توڑ چکے تھے۔
”تت… تم…“اس نے ہکلاتے ہوئے کہا۔اس کی نظریں اپنے چین پر محسوس کرکے وہ چمکتی آنکھوں سے مسکرایا۔
”ہاں، میں یور ڈیتھ“۔
”وائے ڈی کے پاس جو جاتا ہے، پھر وہ وہی کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے“۔۔
یہ الفاظ اس کے کانوں میں گونجے، اور اسے اپنے اطراف کے سارے دروازے بند ہوتے ہوئے نظر آ ئے۔
”کس نے بھیجا تھا تمہیں؟“۔
اس بار آواز میں ایک ایسی سرد مہری تھی جیسے کسی برفانی طوفان نے سب کچھ منجمد کر دیا۔
”شا… شَاہِد عباسی۔“
نام زباں پر آتے ہی، پسٹل سے نکلتی گولیوں کی آواز بیسمنٹ کی خاموشی کو چیر گئی۔
ایک کے بعد ایک گولی اس کے سینے میں اتری، اور بھوری آنکھوں والا شخص تیز قدموں سے بیسمنٹ سے نکل گیا۔جیسے اندھیری رات کا سایہ دوبارہ اپنے غار میں لوٹ گیا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

Admin2

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Howto Determine Gallbladder Disease

17 Symptoms of Gallbladder Disease Ordering an composition is speedy and straightforward. Thus, you’ll get an essay which is totally
Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,