Uncategorized

Mohabbat Fateh Tehri by Ayesha Asghar Episode 1 Classic Novel Saga Online Reading


سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہوئے عابد کے قدم تیز تھے۔ لیکن جونہی اس کی نظر سامنے کھڑی فاطمہ پر پڑی، قدموں میں لگنے والی تیزی یکایک تھم گئی۔
”کیسی ہو تم؟“ عابد نے دھیمی آواز میں پوچھا۔
”میں ٹھیک ہوں، تم سناؤ؟“۔فاطمہ کا لہجہ بالکل رسمی تھا۔ آواز میں نہ کوئی نرمی تھی نہ کوئی گرمجوشی۔ ایک ہی گھر میں رہنے کے باوجود دونوں کی ملاقاتیں شاذ و نادر ہی ہوتیں۔
”سوچا تھا تمہیں آج کہیں باہر لے جاؤں، لیکن اچانک ضروری کام آ گیا ہے“۔ عابد کی آواز میں نرمی کا لمس تھا، اور آنکھوں میں پسندیدگی۔
”تم اپنے کام پر توجہ دو۔ ویسے بھی مجھے یوں جانا اچھا نہیں لگتا“۔ فاطمہ نے صاف گوئی سے کہا۔
عابد نے گہری سانس لی،اس کا یہ انداز اسے اچھا نہیں لگتا تھا۔لیکن پھر بھی وہ برداشت کرجاتا۔”تم ہمارے بیچ کی یہ تکلف کب ختم کرو گی؟“۔اس کی نظریں اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر تھیں۔
”جب میں اس رشتے کو دل سے قبول کر لوں گی“۔ فاطمہ نے بے لچک انداز میں کہا۔اس کی صاف گوئی عابد کے دل کے ہزار ٹکڑے کر گئی۔
”میں امید کرتا ہوں، تم جلد قبول کر لو گی“۔عابد کی آنکھوں میں بہت سے جذبات تھے، جو کہے بغیر بھی سمجھ میں آ رہے تھے۔دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ وہ داخلی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ فاطمہ نے سر جھٹکا اور سیڑھیاں چڑھنے لگی۔
”کیا باتیں ہو رہی تھیں؟“۔ ماریہ ابراہیم جو اوپر سے یہ منظر دیکھ رہی تھی، فوراً فاطمہ کے سامنے آ کھڑی ہوئی، آنکھوں میں شرارت اور ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے۔
”کچھ خاص نہیں“۔ فاطمہ نے سپاٹ لہجے میں کہا اور اپنے کمرے کا دروازہ کھول دیا۔
ماریہ نے بھی جلدی سے اس کا پیچھا کیا۔ “محبت کا اظہار ہو رہا تھا کیا؟” وہ اب بھی شرارتی انداز سے باز نہ آئی۔
”ماریہ ابراہیم“!فاطمہ نے بھرپور سنجیدگی سے اس کا نام لیا۔
”جی فرمائیے“۔ماریہ نے بیڈ پر دراز ہوتے ہوئے مزید مسکرائی۔
”کیا فاطمہ کمال تمہیں اس طرح کی لگتی ہے؟“۔ فاطمہ نے ڈریسنگ کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے بالوں کو کھولتے ہوئے کہا۔ اس کے لہجے میں ہلکی سی ناگواری تھی۔
”نہیں، فاطمہ کمال ایک سنجیدہ اور صاف گو لڑکی ہے، نکاح سے پہلے اظہار کو سخت ناپسند کرنے والی“۔ماریہ رٹے ہوئے جواب کی طرح بولی اور کہنی کے بل بیڈ پر لیٹتے ہوئے اپنی ہتھیلی گال پر ٹکا لی۔
”اور ساتھ ہی بے رحم، جو دوسرے کے جذبات کو بے دردی سے روند دیتی ہے“۔ ماریہ کے اضافی جملے پر فاطمہ نے آئینے میں سے اسے گھورا، جس پر وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔
”میں بے رحم نہیں ہوں“۔ فاطمہ نے بالوں کو دوبارہ بینڈ میں قید کرتے ہوئے نرمی سے جواب دیا۔
”آپ نے انہیں کبھی محبت سے جواب دیا بھی نہیں“! ماریہ نے فاطمہ کی بےرحمی کی دلیل دینے کی کوشش کی۔
”نکاح سے پہلے کی محبت میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ جب وہ شوہر کے رتبے پر فائز ہوگا، تب اسے محبت سے جواب دے دوں گی“۔فاطمہ کا لہجہ بے حد سنجیدہ تھا۔
”آہ! آپ تو واقعی کبھی کبھی روبوٹ لگتی ہیں۔ بلکہ کبھی کبھی نہیں، ہمیشہ۔ لڑکیاں جب اپنے منگیتر کے بارے میں بات کرتی ہیں تو شرماتی ہیں، اور آپ کے چہرے پر تو کوئی تاثر ہی نہیں ہوتا“۔ ماریہ نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”چندا، جب دل میں جذبات ہوں، تب ہی چہرے پر تاثر عیاں ہوتا ہے۔ میرے دل میں ایسا کچھ نہیں، اور اب تم مزید کوئی سوال نہیں کرو گی“۔فاطمہ نے اسے منہ کھولتے دیکھ کر فوراً ٹوک دیا۔
”ٹھیک ہے، بھئی“۔ماریہ کندھے اچکاتے ہوئے کمرے سے نکل گئی۔ماریہ کے جاتے ہی فاطمہ کا مضبوط نقاب ڈھلک گیا۔ وہ بیڈ پر بیٹھ گئی اور اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔
”ماریہ، میں روبوٹ نہیں ہوں“۔ اس نے دل ہی دل میں کہا۔ “میں کیسے اس سے محبت کرسکتی ہوں؟محبت تو محسوس کی جاتی ہے نا؟مجھے تو عابد کی محبت کبھی محسوس ہی نہیں ہوئی۔مجھے کسی انداز سے نہیں لگا وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔میں بظاہر مضبوط نظر آتی ہوں، لیکن اندر سے بہت کمزور ہوں۔ سب کی نفرت اور الزام تراشیوں نے مجھے اندر سے توڑ دیا ہے۔ جب تک نکاح نامے پر سائن نہیں کرونگی،مجھے کسی وعدے کسی محبت پر یقین نہیں آئے گا۔اور جب تک یقین نہیں آئے گا، محبت کیسے ہو سکتی ہے؟ میرا سخت لہجہ، میری بے لچک باتیں، یہ سب خود کو بچانے کی ایک کوشش ہے“۔۔اس کی آنکھیں گیلی ہوئیں تھیں۔ آنکھوں میں چھپا ہوا درد اپنے کمرے کی تنہائی میں اتر آیا، مگر وہ کسی کو اپنی کمزوریوں کی خبر دینا نہیں چاہتی تھی۔ یہ جنگ صرف اس کی تھی، جسے وہ اکیلے لڑنے کا عزم رکھتی تھی۔وہ فاطمہ کمال تھی اپنی جنگ لڑکے کا عزم خود رکھتی تھی۔
اچانک ایک مہینہ پرانے منظر کی دھند اس کے ذہن میں چھا گئی۔اس رات کی تاریکی جیسے اس کے گرد لپٹ گئی تھی۔ ہسپتال سے واپسی پر گھڑی کی سوئیاں دس کا ہندسہ چھو رہی تھیں۔ سڑک ویران تھی، اور ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی، سوائے گاڑی کے انجن کی ہلکی گڑگڑاہٹ کے۔
پھر اچانک، جیسے کسی نے سکوت کو توڑ دیا ہو۔ سامنے کچھ سایے نمودار ہوئے، اور گاڑی کو زبردستی روک لیا گیا۔ چاروں منچلے قہقہے لگاتے اس کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ان کی نظریں جیسے گدھ کی طرح شکار پر جمی ہوئی تھیں۔ فاطمہ کی سانسیں بےترتیب ہو گئیں، دل جیسے پنجرے میں دھڑک رہا تھا۔
وہ تھکی ہوئی تھی۔دن بھر کی مصروفیت نے اس کی طاقت نچوڑ لی تھی۔ اور اب یہ رات، یہ اکیلا پن، اور یہ اجنبی سایے… وہ ان سے مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتی تھی۔
تب ہی، اندھیرے کی چادر کو چیرتے ہوئے ایک وجود سامنے آیا۔طوفان کے بیج آکر کھڑا ہونے والا اسے کوئی محافظ لگا،اس کی موجودگی جیسے ایک یقین دہانی تھی۔
اس نے آتے ہی دو لڑکوں کو پلک جھپکتے زمین پر گرا دیا۔ باقی دو خوف سے پیچھے ہٹے اور اندھیرے میں کہیں غائب ہو گئے۔ اور وہ لمحہ ایسا تھا جیسے کسی طوفان میں اچانک سکون چھا جائے۔
”آپ گھر جا سکتی ہیں اب“۔
اس کی گہری بھاری آواز میں ایسی گہرائی تھی، جیسے گونجتی ہوئی وادیوں کا ساز ہو۔فاطمہ نے بےاختیار اسے دیکھا، لیکن وہ صرف اس کی آنکھیں دیکھ سکتی تھی۔ سیاہ، گہری، اور ایسی کہ دل کو اپنی گرفت میں لے لیں۔ باقی چہرہ نقاب میں چھپا ہوا تھا۔
”خیال رکھا کریں اپنا“۔
اس کی باتوں میں عجیب سی نرمی تھی، ایسی نرمی جو کسی اجنبی سے امید نہیں کی جا سکتی تھی۔ایسا جملہ تو کبھی گھر والوں نے بھی نہیں کہا تھا۔
”ڈریں مت مجھ سے“۔
فاطمہ کے سخت ہوتے تاثرات یکدم پگھل گئے، جیسے کسی برفیلے پہاڑ پر دھوپ پڑ جائے۔
”تم نے میری مدد کی،شکریہ۔لیکن مجھ سے فری ہونے کی ناکام کوشش مت کرو۔تمہارا وقت ضائع ہوگا“۔۔سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے فاطمہ نے اپنے مضبوط لہجے میں کہا اور گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔
”میرا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے، مس کمال۔ اور یقین مانیں، میں نینو سیکنڈ بھی ضائع کرنے کا قائل نہیں“۔۔
اس کے بھاری لب و لہجے نے فاطمہ کے قدموں کو روک لیا۔ وہ پلٹی، اور ایک لمحے کے لیے اسے دیکھا۔
اندھیرے میں اس کی آنکھوں کی گہرائی کچھ کہہ رہی تھی، کچھ ایسا جو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ فاطمہ نے کچھ کہے بغیر گاڑی میں بیٹھ کر انجن اسٹارٹ کیا، اور سڑک پر روشنیوں کے ساتھ غائب ہو گئی۔
لیکن وہ رات، وہ آواز، وہ گہری آنکھیں۔یہ سب آج بھی اس کے دل کے کسی کونے میں زندہ تھے۔ وہ لمحے جیسے وقت کے کسی دھاگے میں پروئے گئے ہوں، جو بار بار اسے یادوں کی دنیا میں لے جاتے تھے۔ان خیالات سے وقتی طور پر چھٹکارا پاتے وہ ہسپتال جانے کے لیے تیار ہونے لگی۔
فاطمہ کمال سائیکالوجی میں ماسٹرز کررہی تھی۔ساتھ ہی اس نے والد کی مدد سے ایک ہسپتال تعمیر کروایا تھا۔یونیورسٹی کے بعد وہ اپنا وقت ہسپتال کو دیتی تھی۔وہاں کی سی ای او تھی۔اور ایک رحم دل سائیکالوجسٹ۔ماسٹرز کا بس آخری سیمسٹر تھا۔پھر اسے لائسنس مل جانا تھا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

Admin2

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Howto Determine Gallbladder Disease

17 Symptoms of Gallbladder Disease Ordering an composition is speedy and straightforward. Thus, you’ll get an essay which is totally
Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,