”یہ تم صبح صبح کہاں جانے کی تیاری میں ہو؟“
دادی سکینہ کی سخت آواز کمرے کے سکون پر بجلی بن کر گری۔ہلکی چائے کی بھاپ، چمچوں کی مدھم کھنک، اور ناشتے کی خوشبو جیسے ایک پل کو رک گئی۔ سب کی نظریں اس طرف اٹھیں جہاں ہلکے گلابی لباس میں ملبوس فاطمہ، تیار، ناشتہ کرنے کے لیے کرسی کھینچ کر بیٹھی تھی۔آج جمعہ کا دن تھا، اور جمعہ ،ہفتہ اتوار فاطمہ کا آف ہوتا تھا۔۔ اس کی نظریں ناشتہ کی میز پر جمی تھیں، مگر دادی سکینہ کی ٹٹولتی نگاہیں اسے بےچین کر رہی تھیں۔ان نظروں سے وہ ہمیشہ غیر آرام دہ رہی تھی۔زیر لب اس نے اپنی بےچینی کو کم کرنے کے لیے “ومن شر حاسد اذا حسد” دھیرے سے پڑھی۔
”یونیورسٹی… میری ایکسٹرا کلاسز ہیں“۔
نرمی سے مگر مختصر جواب دے کر اس نے جیم کے جار کو کھولا۔وجود کے گرد اٹھنے والی تلخیوں کو وہ نظرانداز کرتی سنجیدگی سے بریڈ میں جیم لگانے لگی۔میز پر سب موجود تھے۔سوائے کمال مصطفیٰ کے،جو کام کے سلسلے میں شہر سے باہر تھے۔
”یہ کون سی کلاسز ہیں جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتیں؟“۔پھوپھی ریحانہ نے اپنی مخصوص طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ پراٹھے کا نوالہ توڑتے ہوئے فاطمہ پر نظریں جمائے بیٹھی تھیں۔
”وہی کلاسز، جن سے کبھی آپ کا واسطہ نہیں پڑا“۔
فاطمہ نے بنا نظریں اٹھائے، دھیمے مگر کٹ دار لہجے میں جواب دیا۔ اس کے الفاظ نرم تھے، مگر ان میں چھپی تلخی کسی دھار دار شیشے کی مانند کاٹتی ہوئی تھی۔وہ بریڈ کے چھوٹے چھوٹے ٹکرے چباتی رہی،ماحول کے بھاری پن کو نظر انداز کرنے کی ہمیشہ کی طرح کوشش تھی۔
ناشتے کی میز پر خاموش بیٹھے ماریہ اور احسن نے ایک دوسرے کو چپکے سے دیکھ کر مسکراہٹ کا تبادلہ کیا۔ ان کی شرارتی نظروں میں وہ خوشی تھی جو پھوپھی ریحانہ کے طنزیہ جملوں کے جواب میں اکثر جھلکتی۔انھیں بھی پھوپھی ریحانہ اچھی نہیں لگتی تھیں۔
”ہائے ہائے، کتنی لمبی زبان ہے! اور بھلا ہی ہوا جو ہمارا ایسی کلاسوں سے واسطہ نہیں پڑا“۔پھوپھی ریحانہ نے نوالہ چباتے ہوئے ایک اور طنز اچھالا۔ ان کی باتوں میں وہ تیزابیت تھی جو ہمیشہ فاطمہ کو گہری سوچوں میں ڈال دیتی تھی۔آخر وہ اس سے اتنی نفرت کیوں کرتی ہیں؟۔
فاطمہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔
”احسن، مجھے ڈراپ کر دو گے؟“اس نے ناشتہ ادھورا چھوڑا اور احسن کی طرف رخ کر کے کہا۔
”عابد، فاطمہ کو چھوڑ آؤ“۔تایا، جو کافی دیر سے خاموش تھے، انھوں نے عابد کو حکم دیا۔ عابد موبائل کی اسکرین پر نظریں جمائے بیٹھا تھا، باپ کی بات پر فوراً چونکا۔
”ہاں ہاں، آؤ فاطمہ“۔
عابد کی مخصوص مسکراہٹ، جو ہمیشہ فاطمہ کو دیکھ کر اس کے چہرے پر آتی، اس وقت بھی نمایاں تھی۔
”تم ناشتہ کرو، میں احسن کے ساتھ چلی جاؤں گی“۔
فاطمہ نے مختصر انکار کیا اور احسن کو اٹھنے کا اشارہ دیا۔
”تھینک یو، ویسے بھی مجھے ضروری کام سے جانا تھا۔ واپسی میں پک کر لوں گا“۔ عابد نے مسکراہٹ پاس کرتے ہوئے اسے کہا۔۔فاطمہ کی گاڑی ورکشاپ میں تھی۔
”اس کی ضرورت نہیں، واپسی میں حنا کے ساتھ آ جاؤں گی۔“..فاطمہ نے سرد لہجے میں انکار کرگئی اور اپنا بیگ اٹھا کر دروازے کی طرف بڑھ گئی۔جب عابد اس کے ہر معاملے میں اتنا بے پرواہ ہوسکتا ہے تو پھر فاطمہ کمال کو ایسے شخص کی ضرورت نہیں۔
”توبہ ہے اماں، اس کے تیور دیکھ رہی ہیں؟ یہی اثر ہونا ہے جب لڑکا لڑکی ساتھ پڑھیں گے“۔پھوپھی ریحانہ کی زہریلی آواز نے فاطمہ کو رکنے پر مجبور کر دیا۔ان کی ذہنیت نہیں بدل سکتی تھی۔وہ پلٹی۔
”میرے تیور دیکھنے کے بجائے، اگر آپ خود پر اور اپنی بیٹی کے رویے پر نظرثانی کریں تو زیادہ بہتر ہوگا“۔اس کی نظریں نگاہیں ایک لمحے کے لیے سب کو ساکت کرگئیں۔
“یہ کیا بدتمیزی ہے؟ پھوپھی ہے وہ تمہاری! فوراً معافی مانگو!” دادی سکینہ برہم ہوئی تھیں۔
“میں نے کچھ غلط نہیں کہا اور معافی میں کبھی نہیں مانگوں گی۔” فاطمہ نے ایک لمحے کے لیے ان سب کی طرف دیکھا، پھر بےنیازی سے بولی۔اس کی ہٹ دھرمی اور خود اعتمادی نے ماحول میں مزید تلخی بھر دی۔ وہ ایک آخری نظر عابد پر ڈال کر گھر سے باہر نکل گئی۔ باہر ہوا کی ہلکی سرسراہٹ، درختوں کی جھومتی شاخیں، اور سورج کی دھیمی روشنی اس کے قدموں کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ پیچھے دادی سکینہ کی بڑبڑاہٹ اب بھی کانوں میں گونج رہی تھی۔”بند کرواتی ہوں تمہارا یونیورسٹی جانا!”
فاطمہ کمال نے گریجویشن کے بعد کے دو سال یوں ہی فارغ گزار دیے تھے۔مگر یہ خلا زیادہ عرصے تک نہیں رہا۔ وہ جلد ہی بابا کو منانے میں کامیاب ہو گئی اور چوبیس برس کی عمر میں ماسٹرز میں داخلہ لے لیا۔بابا کیا۔۔اصل مسئلہ تو دادی تھیں۔وہ خود ایک تعلیم یافتہ انسان تھے۔انھوں نے بزنس ایڈمنسٹریشن میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی۔باقی تایا نے بمشکل انٹر اور چچا نے لگے باندھے پرائیویٹ یونیورسٹی سے بیچلر کی ڈگری لینے کے بعد اپنی کتابیں بند کر کے کاروبار کی طرف توجہ مرکوز کر لی تھی۔پھوپھی ریحانہ بی اے کرنے کے بعد پڑھائی کو خیر آباد کہ چکی تھی۔آج ان کی فیملی جو سوسائٹی میں جانی جاتی تھی وہ سب پہلے صرف ان کے دادا کی وجہ سے تھا اور اب کمال مصطفیٰ کے۔
فاطمہ، جو اب چھبیس برس کی ایک سنجیدہ لڑکی تھی، ہمیشہ ایسی نہیں تھی۔ کبھی وہ کھلکھلاتی ہوئی، خوش مزاج اور زندگی سے بھرپور لڑکی ہوا کرتی تھی۔ جب ماں زندہ تھی، تو وہ خوشبوؤں میں لپٹی ایک آزاد پرندے کی طرح تھی، جو کسی بھی شاخ پر بےخوف بیٹھ سکتا تھا۔ مگر ماں کی موت کے بعد، حالات کی کڑی دھوپ اور گھر کے افراد کے تلخ رویے نے اس کی خوشبو چھین لی تھی۔
اب وہ اپنے جذبات کو ایک محفوظ خول میں بند کیے رکھتی تھی، جیسے کوئی نایاب گلاب دھوپ سے بچنے کے لیے کلی کی صورت میں سمٹ جائے۔ اس کی زندگی کا ہر دن ایک سنجیدہ قصے کی مانند تھا، جس میں لڑکپن کی شوخیوں اور ماں کے لمس کی نرمی کا صرف ایک دھندلا سا عکس باقی رہ گیا تھا۔
اردگرد کے ماحول کی سختیاں اور تلخ باتیں اس کے دل پر اس طرح برستی تھیں، جیسے کسی شام کے سائے خاموشی سے آنگن میں اتر کر ہر رنگ کو ماند کر دیں۔ مگر فاطمہ کمال نے ان سائے دار راستوں میں بھی اپنے لیے روشنی ڈھونڈنے کی ٹھانی تھی۔
”سر، ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ آپ کے خلاف کوئی پلین بنایا جارہا ہے“۔وائے ڈی کے خاص ملازم نے تولیہ تھام رکھا تھا،اور وہ ٹریڈمل پر دوڑتے ہوئے اپنے وجود کو جیسے فولاد میں ڈھال رہا تھا۔پسینے کے قطروں نے اس کی پیشانی کو شبنم جیسا چمکدار کر دیا تھا۔نیچے اترتے ہی اس نے تولیہ لیا اور چہرے و گردن پر پسینہ خشک کرنے لگا۔ مراد کی بات پر اس کے ہونٹوں پر مخصوص مسکراہٹ ابھری۔
”وائے ڈی کس کام میں ماہر ہے، مراد؟“ اس کی آواز میں بلا کا اعتماد تھا۔اس کی آنکھوں کی چمک بتاتی تھی جواب سے تو وہ پہلے ہی واقف ہے مگر سننے کا لطف لینا چاہتا ہو۔ دونوں اب گھر کے جم سے نکل کر لاؤنج کی جانب قدم بڑھا رہے تھے۔
”پلین کو فیل کرنے میں، سر!“۔مراد نے فوراً مؤدبانہ لہجے میں جواب دیا۔وہ وائے ڈی کے پیچھے محتاط قدموں سے ایسے چل رہا تھا جیسے سایہ چلتا ہے،ہمیشہ قریب مگر کبھی بوجھ نہیں بنتا۔
”اور جو میرے بنائے ہوئے دائرے میں داخل ہونے کی کوشش کرے؟“۔لاؤنج میں پہنچتے ہی ایک ملازم نے تیزی سے فریش جوس کا گلاس تھمایا۔
”تو پھر اس کی موت یقینی ہے“۔رٹا رٹایا جواب آیا تھا۔وائے ڈی کے چہرے پر ایک گڑھے جیسا دلکش ڈمپل ابھرا،جو اس کی شخصیت کی سختی میں ایک دلربا نرمی کا اضافہ کرتا تھا۔خوبصورتی اور خطرے کا ایسا امتزاج، جیسے کسی سرکش سمندر پر چمکتا ہوا چاند ہو۔
”پتہ کرو اس بار کون سا دیگ چڑھایا گیا ہے، تاکہ الٹنے کا انتظام کیا جا سکے“۔وہ ہنستے ہوئے خالی گلاس مراد کے حوالے کرتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔
مراد نے فوراً “جی سر” کہتے ہوئے گلاس ملازم کے حوالے کیا اور اپنے مشن پر روانہ ہو گیا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ