”فاطمہ، یہ میں نے کیا کر دیا؟“۔ایک گہرا سانس لیتے ہوئے ان کے دل پر بھاری بوجھ محسوس ہوا۔جیسے گھٹن کا شکار ہوں۔کوٹ جھٹک کر چیئر پر پھینک دیا اور شرٹ کے اوپر کے بٹن کھول کر گہرے گہرے سانس لینے لگے۔پسینے کے قطرے پیشانی پر چمکنے لگے تھے،اور دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو رہی تھی۔
”میں آپ کو اپنے پاس لے آؤں گا، بیٹا، میں آپ کو اس جہنم میں نہیں رہنے دوں گا“۔آنکھوں میں نمی لیے، وہ سینے کو سہلانے لگے۔اُن کی طبیعت بگڑ رہی تھی۔جلدی سے میز کی دراز کھولی، میڈیسن باکس نکالا اور دوائیاں نکال کر کانپتے ہاتھوں سے گولی حلق میں اتار لی۔گلاس بھر کے ایک ہی سانس میں خالی کر دیا۔سانسیں کسی حد تک بحال ہوئیں تو وہ تھکے تھکے انداز میں چیئر پر گر گئے۔ آنکھیں بند کرتے ہی ماضی کے یادگار مناظر ذہن میں اُبھرنے لگے۔
”ناز، مجھے اس کی آنکھیں بہت پسند ہیں“۔نرم ملائی سی چھوٹی سی گڑیا کو گود میں لیے، وہ اُس کی آنکھوں کو بار بار چوم رہے تھے۔اس کی آنکھیں ماں جیسی تھیں۔نیلی۔ناز ہنستے ہوئے شوہر کی محبت دیکھ رہی تھیں۔
”اور مجھے اس کی ناک پسند ہے“۔ناز نے شوخی سے جواب دیا۔ناک بابا کی طرح تھی۔وہ ہنس دیے۔
”مجھے یقین نہیں آ رہا،ناز۔نہ صرف تم میری ہو،بلکہ اب ہماری محبت کی یہ چھوٹی سی نشانی بھی ہے“۔اُن کی آواز جذبات سے بھیگ گئی۔
”مجھے یاد ہے،کمال،بابا کو منانے کے لیے آپ نے کتنے پاپڑ بیلے تھے۔وہ تو پاکستان میں میری شادی کے لیے تیار ہی نہیں تھے“۔۔وہ مسکراتے ہوئے بولیں۔
”شکر ہے، آپ کی امی نے منا لیا تھا۔کیا کہا تھا انہوں نے کہ جب آپ پاکستان سے مجھے لا سکتے ہیں، تو بیٹی کو پاکستان جانے دیں۔آپ کو مجھ سے محبت تھی اور کمال کو آپ کی بیٹی سے“۔وہ ہنستے ہوئے اُن لمحوں کو یاد کر رہے تھے۔ناز اور کمال کی ملاقات ترکی میں ہوئی تھی۔ناز کے ملک میں۔
”کمال،ہماری بیٹی کو شہزادی بنا کر رکھیے گا،کبھی اُسے تنہا نہ ہونے دیجیے گا“۔ناز کی آنکھوں میں ماں کی محبت چھلک رہی تھی۔مائیں یوں ہی اولاد کے لیے جذباتی ہو جایا کرتی ہیں۔
”ناز،فکر کیوں کرتی ہیں؟ ہم دونوں ہیں نا،ہماری بیٹی کے لیے۔اسے دنیا کی ہر آسائش دینگے“۔۔
ماضی کی یہ جھلکیاں یاد کرتے ہی ان کی آنکھیں نم ہو گئیں۔وہ نیلی آنکھیں…وہ کتنی روئی ہوں گی؟ ان کی سوچوں میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔اسی لمحے میز پر رکھا موبائل بجا۔انجان نمبر سے آیا پیغام پڑھتے ہی وہ ساکت رہ گئے:
”میں جانتا ہوں آپ اپنی بیٹی کی سلامتی چاہتے ہیں۔اس کا حل سوچا میں ہی بتادوں آپ کو۔پولیس اور لائر سے دور رہیں،کیونکہ آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔پاکستان جب آئیں گے تو میں خود ملوں گا آپ سے۔مل کر بات کریں گے۔فی الحال آپ کو مجھ پر بھروسہ کرنا ہوگا۔فاطمہ کمال کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی،یہ میرا وعدہ ہے۔اور ویسے بھی،آپ کے پاس بھروسہ کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں“۔۔پیغام پڑھتے ہی ان کی پیشانی پر شکنیں گہری ہو گئیں۔ وہ اضطراب کے عالم میں پیشانی مسلنے لگے۔ابھی وہ اس حیرت میں تھے کہ ایک اور پیغام موصول ہوا۔
”آپ جس بزنس ڈیل میں پھنسے ہیں، اس کی نوعیت کا مجھے اچھی طرح علم ہے۔اور یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ کا فوری پاکستان آنا ممکن نہیں۔آپ بےفکر رہیں، فاطمہ محفوظ ہے۔ایک بات اور،میں جانتا ہوں کہ آپ ہائی بلڈ پریشر کے مریض ہیں۔اپنی طبیعت خراب کرنے کے بجائے روزانہ فاطمہ سے کال پر بات کرسکتے ہیں“۔۔
ہر لفظ ان کے دل پر نشتر کی طرح لگ رہا تھا۔وہ پیغام پڑھتے جا رہے تھے اور الجھتے جا رہے تھے۔
”یہ سب کچھ وہ کیسے جانتا ہے؟“۔لیکن پھر خود ہی سوچ کر رہ گئے۔ وہ ایک گینگسٹر تھا، جس کے لیے کچھ بھی معلوم کرنا مشکل نہیں۔لیکن… یہ مہربانیاں؟
”تم یہ سب کیوں کر رہے ہو؟اور فاطمہ کو حاصل کرنے کا مقصد کیا ہے؟“۔کچھ دیر سوچنے کے بعد انہوں نے پیغام ٹائپ کیا۔
”میں آپ کی بیٹی کو اپنی زندگی میں چاہتا تھا۔اب وہ مجھے مل گئی ہیں،ان کا خیال ہے جب ہی اتنی رعایت دے رہا ہوں“۔۔
موبائل کی اسکرین بند کرتے ہی وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ اُن کے چہرے پر گہری سوچ کے سائے تھے،جیسے وہ اپنی بیٹی کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے اندر ہی اندر خود کو تیار کر رہے تھے۔
جاری ہے