رات کے گہرے سناٹے میں مینشن میں ہر سوں گہری خاموشی تھی۔دور کہیں گونجتی ہوا کی سرسراہٹ اور درختوں کی سر ہلانے کی ہلکی آواز ماحول کو مزید پراسرار بنا رہی تھی۔بلیو کوٹ ہاتھ میں لیے، سفید ہائی نیک اور بلیو ڈریس پینٹ میں ملبوس فاز عالم تھکے ہوئے قدموں سے سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔بارہ بجے کا وقت تھا۔اس کے بکھرے بال اور تھکے ہوئے چہرے سے واضح تھا کہ وہ ایک طویل دن گزار کر لوٹا ہے۔سیڑھیوں پر چلتے ہوئے اس کی نظریں اچانک کھلے دروازے پر جا ٹھہریں،جو ٹیرس کی طرف کھلتا تھا۔
”یہ دروازہ کھلا کیوں ہے؟“۔اس نے خود سے بڑبڑاتے ہوئے اپنا ارادہ کمرے کی بجائے ٹیرس کی طرف موڑ لیا۔
ٹیرس پر پہنچ کر منظر نے اسے ٹھہر جانے پر مجبور کر دیا۔ چاندنی رات میں فاطمہ دیوار کے ساتھ گھٹنوں کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھی تھی۔اس کے کندھوں پر گرتی بھوری زلفیں ہوا کے نرم جھونکوں سے چہرے کے گرد کھیل رہی تھیں۔وہ سر جھکائے،آنسو بہاتی ہوئی،اپنے دکھ میں گم تھی۔فاز کی نظر اس پر ٹک گئیں۔اس کے نیلی آنکھوں کے آنسو چمکتی چاندنی میں موتیوں کی مانند لگ رہے تھے۔ایک لمحے کے لیے وہ اس کی حالت دیکھ کر الجھ گیا، لیکن اگلے ہی لمحے وہ اس کے قریب آیا اور ایک گھٹنا زمین پر رکھ کر اس کے سامنے بیٹھ گیا۔
”رو کیوں رہی ہیں؟“۔اس نے دھیرے سے پوچھا۔اس کی آواز میں نرمی تھی۔فاطمہ نے چونک کر سر اٹھایا،نیلی آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر جھلک رہا تھا۔
”تت… تم یہاں کیا کر رہے ہو؟“۔وہ جلدی سے اپنے آنسو صاف کرنے لگی۔سیاہ رنگ کے لباس میں وہ خوبصورت لگ رہی تھی۔اس کا ترکش اور پاکستانی نقوش اسے اور بھی منفرد بناتا تھا۔
”ٹیرس کا دروازہ کھلا دیکھ کر آیا تھا۔آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا“۔فاز نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ پوچھا۔
”کیونکہ میں نہیں دینا چاہتی“۔غصے سے کہتی وہ اٹھنے لگی تھی،لیکن فاز نے نرمی سے اس کی کلائی تھام لی۔
”یہ کیا بدتمیزی ہے؟ہاتھ چھوڑو میرا“۔ڈوپٹے کو کندھے پہ ٹھیک کرتی وہ طیش کے عالم میں ہاتھ چھڑانے لگی۔
”جب تک مجھے میرے سوال کا جواب نہیں ملے گا،میں آپ کو جانے نہیں دوں گا“۔اس نے نرمی سے اس کی دوسری کلائی بھی پکڑ لی۔اس ہاتھ میں ہوئی پٹی کو نرمی سے چھوا۔فاز کے لہجے میں سنجیدگی اور نرمی دونوں کا امتزاج تھا۔
“تمہاری وجہ سے۔سنا تم نے؟تم ہو میرے رونے کی وجہ۔میری زندگی برباد کردی ہے تم نے“۔وہ جو پہلے ہی بھری بیٹھی تھی،پھٹ پڑی۔آنسو تیزی سے بہنے لگے۔فاز خاموشی سے اس کی بات سنتا رہا۔ چاند کی روشنی میں اس کا چہرہ نرم اور متفکر دکھائی دے رہا تھا۔
”تم نہ آتے میری زندگی میں،تو احسن ہم سے دور نہیں ہوتا۔کاش تم نہ آتے،تو میں یہ کبھی جان نہیں پاتی کہ اُس گھر میں بابا کے علاوہ میرا کوئی سگا رشتہ نہیں ہے“۔اونچی آواز میں بولنے اور رونے کی وجہ سے اس کی سانسیں پھولنے لگی تھیں۔
”فاطمہ،ریلکس۔یہاں دیکھیں،کچھ نہیں ہوا یار“۔ اس کا ہاتھ تھام کر اسے جھولے کی طرف لے گیا۔”یہاں بیٹھیں۔ میں سب سن رہا ہوں“۔
”کچھ نہیں ہوا؟“۔ فاطمہ کی آواز غصے کی شدت سے کانپ گئی۔”میری زندگی برباد ہوگئی ہے،اور تم کہہ رہے ہو کچھ نہیں ہوا؟تمہاری وجہ سے سب رشتے ختم ہوگئے۔میرا سگا رشتہ تو کوئی تھا ہی نہیں“۔متورم آنکھوں میں نفرت لیے وہ اسے دیکھ رہی تھی۔ہاتھ چھڑانے کی کوشش مسلسل جاری تھی۔
”یہ برا نہیں،اچھا ہوا ہے۔کب تک دھوکے میں رہتیں؟ کیا یہ اچھا نہیں کہ آپ کو حقیقت معلوم ہو گئی؟آپ جان گئی وہ آپ کے سگے رشتے نہیں۔کب تک حقیقت سے آنکھیں بند رکھنا چاہتی تھیں آپ؟حقیقت جان لینا ہی بہتر ہوتا ہے،چاہے وہ کتنی بھی کڑوی ہو۔کیا ملا آپ کو ان لوگوں سے؟“۔وہ جھولے پر بیٹھی تھی،اور وہ اس کے پاس نیچے زمین پر۔اس کی آنکھوں میں دیکھتے وہ سنجیدگی سے سوال کررہا تھا۔
”تم جانتے تھے؟“فاطمہ چونک کر اسے دیکھی۔
”آپ کو آج معلوم ہوا ہے۔لیکن میں پہلے سے جانتا ہوں۔آپ کے لیے یہی بہتر ہے کہ آپ جلدی حقیقت کو قبول کرلیں۔ اب مجھ سے زیادہ سگا آپ کا کوئی نہیں ہے“۔اس کے الفاظ میں سنجیدگی تھی،لیکن اس کی آنکھوں میں ایک نرم چمک تھی۔آخری جملے پہ ناجانے وہ کیوں سمٹی تھی؟۔اس کا زخمی ہاتھ وہ مسلسل انگوٹھے سے سہلا رہا تھا۔نرمی سے۔
”تم نہیں سمجھ سکتے۔تمہارے دل میں کسی کے لیے احساس ہوتا تو تم سمجھتے۔تمہارا کام تو لوگوں کو قتل کرنا اور پیسہ کمانا ہے۔تمہیں کیا غرض؟کیسا رشتہ؟کیسا احساس؟تم نے کبھی انسانوں کے لیے درد محسوس کیا ہوگا؟وہ جو بھی تھے،جیسے بھی تھے،میرا بچپن پورا ان کے ساتھ گزرا ہے۔میں کیسے قبول کروں کہ وہ میرے سگے رشتے نہیں؟“۔۔اس کی آواز دھیمی ہوگئی۔نظریں جھکائے وہ درد بھرے لہجے میں بول رہی تھی۔یہ دیکھے بغیر کہ اس کی باتوں کی وجہ سے فاز عالم کے چہرے پہ کربناک تاثرات ابھر رہے تھے۔ہر انسان کو ہمیشہ اپنا ہی غم بڑا لگتا ہے۔اسے لگتا ہے سارے غم جیسے اس کی ہی زندگی میں ہیں۔لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ہر انسان کے اپنے اپنے غم ہوتے ہیں۔اور اس کے زخمی ہاتھ پہ پھیرتا انگوٹھا یکدم رک گیا۔فاطمہ کو عجیب سا احساس ہوا تھا۔وہ بولتے بولتے رک کر اس احساس کے زیرِ اثر مقناطیسی انداز میں اپنی ہتھیلی کی طرف دیکھی۔اسے کچھ دیر سے ایک احساس سکون پہنچا رہا تھا۔اس چیز کا اندازہ ہوتے ہی اس نے گھبرا کر اپنا ہاتھ کھینچنا چاہا۔فاز ذہنی طور پر جو کہیں کھو گیا تھا فوراً ہوش میں آتے خود کو سنبھالا۔۔