”میرے دل میں انسانوں کے لیے درد اور احساس نہیں ہوتا، تو میں ابھی یہاں نہیں ہوتا“۔مبہم انداز میں سر جھکائے کہ رہا تھا۔فاطمہ کے زخمی ہاتھ پر اپنی انگلیاں نرمی سے دوبارہ پھیرنے لگا۔اس کے لمس میں ایک عجیب سکون تھا،جو فاطمہ کے اندر تک سرایت کر گیا۔
”کیا کہنا چاہتے ہو؟“۔فاطمہ نے اسے اپنے قدموں کے پاس سر جھکائے بیٹھے دیکھا۔اور پھر اپنے برابر میں خالی جگہ کو۔اور اس کے بعد اس کے مسلسل حرکت کرتے انگوٹھے کو۔وہ الجھ سی گئی۔
”کچھ نہیں۔کمرے میں جائیں۔رات گہری ہورہی ہے“۔بات سمیٹتے ہوئے وہ کھڑا ہوا۔ساتھ اُسے بھی کیا۔
”میں یہیں رہنا چاہتی ہوں“۔رخ موڑ کر وہ دور آسمان میں چمکتے ستارے کو دیکھنے لگی۔”رات سے زیادہ گہرے تو تم ہو“۔وہ دل میں ہی کہ سکی۔
”میں آپ کو اتنی رات کو یہاں اکیلے بیٹھنے نہیں دے سکتا۔میرے ساتھ آپ یقیناً بیٹھنا نہیں چاہیں گی۔جس دن آپ راضی ہونگی،اس دن میں آپ کے ساتھ فجر تک یہاں بیٹھوں گا۔لیکن ابھی آپ جائیں“۔۔اس کا چہرہ آسمان کی جانب تھا۔ورنہ وہ اس کی آنکھوں میں موجود نرم تاثر کو دیکھ کر ضرور پگھل جاتی۔
”تم اتنے تمیز سے بات کیسے کرتے ہو؟“۔۔اس کی بات کا اثر زائل کرنے کے لیے وہ ذہن میں کلبلاتا سوال فوراً کر ڈالی۔وہ ہنس دیا۔بےساختہ سی ہنسی تھی۔گردن پیچھے کی جانب پھینکے آسمان پر نظریں جمائے وہ ہنس رہا تھا۔فاطمہ اسے دیکھتی گئی،اتنی خوبصورت ہنسی۔وہ اتنا اچھا لگتا تھا،پھر ایسی کیا مجبوری تھی کہ وہ گینگسٹر تھا؟برے کام کرتا تھا؟۔ہنسی روکتا وہ اس کی جانب چہرہ کیا۔اسی تیزی سے فاطمہ کمال نے اس کے چہرے سے نظریں ہٹاتے سامنے کی تھی۔
”مانتا ہوں گینگسٹر ہوں،لیکن کیا گینگسٹر تمیز دار نہیں ہوسکتے؟“۔۔مسکراتے ہوئے وہ الٹا اس سے پوچھ رہا تھا۔اس کے چہرے پر پھیلے تبسم کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا تھا وہ خاصہ لطف محسوس کیا ہے،فاطمہ کے سوال پر۔
”عجیب ہو تم“۔وہ بڑبڑائی۔
رات کے اس گہرے لمحے میں چاند کی روشنی اور ہوا کی نرم سرگوشیاں جیسے ان دونوں کے درمیان خاموشی کا پل باندھ رہی تھیں۔ فاز نے آسمان کی طرف دیکھا،جہاں ستارے ان کے دکھوں کے گواہ بنے تھے۔
”اندر چلیں“۔کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ گویا ہوا۔بنا کسی بحث کے وہ بھی اس کے ساتھ چلنے لگی۔اس کے کمرے کے پاس وہ رک گیا۔
”فاطمہ“۔اس کی پکار پہ،دھات کی ٹھنڈی ہینڈل پہ رکھا فاطمہ کا ہاتھ ٹھر سا گیا۔لیکن وہ پلٹی نہیں۔پلٹ جاتی تو سب بدل جاتا۔
”آپ کے ہنسنے کی وجہ بھی میں ہی بنوں گا“۔۔بھاری آواز میں کہتا وہ جاچکا تھا۔وہ ہل تک نہ سکی۔اس کے کانوں میں اپنے جملے کی بازگشت ہونے لگی ‘میرے رونے کی وجہ تم ہو’ تیزی سے اس نے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوتے ہی کمرہ لاک کیا۔گہری سانس لیتی وہ بیڈ پہ بیٹھ گئی۔نظریں بینڈیج ہوئے ہاتھ پہ گئی۔اسی احساس نے گھیر لیا تھا۔
”یا اللّٰہ کیا ہے یہ شخص؟“۔۔حیران زدہ تاثرات لیے وہ آڑا ترچھا بیڈ پہ لیٹ گئی۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ