دروازے پر دستک ہوئی تو وہ چونک سی گئی۔ آئینے کے سامنے کھڑی وہ اپنے ریشمی بالوں میں برش کر رہی تھی، جن کی نرم لٹیں اس کے کندھوں پر بے ساختہ گرتی تھیں۔ پیج رنگ کی گھٹنوں تک آتی قمیض پر کالے دھاگے سے کڑھے ہوئے نفیس پھول،اسی کے ہم رنگ ٹراؤزر نے اس کے سراپے کو مکمل کر دیا تھا۔
کھڑکی سے آتی ہوئی سورج کی روشنی سے،ہر چیز سنہری روشنی کے حصار میں سمٹ گئی تھی۔کھڑکی کے پردے ہلکی ہوا سے تھوڑے تھوڑے سرک رہے تھے، اور باہر کہیں کوئل کی مدھم آواز سنائی دے رہی تھی۔ بیڈ پر پڑا دوپٹہ اٹھاتے ہوئے نووارد کو اندر آنے کی اجازت دی۔”آجاؤ“۔اس کی مدھم آواز میں اکتاہٹ کی جھلک نمایاں تھی۔دروازہ کھلا تو فاز عالم اندر داخل ہوا۔
”صبح بخیر“۔اندر آتے ہی اس نے کہا تھا۔لیکن جیسے ہی اس پہ نظریں پڑیں،ٹھر سی گئیں۔یوں لگتا تھا پیج رنگ کی یہ قمیض اسی کے لیے تراشی گئی تھی۔
”یہاں کیوں آئے ہو؟“۔اس کی اکتاہٹ بھری آواز ابھری۔
”یہ کمرہ،جس میں آپ قیام پذیر ہیں،ملکہ عالیہ،آپ کی اطلاع کے لیے میرا ہے۔کیا اب بھی وجہ جاننا چاہتی ہیں؟“۔وہ آیا کسی اور مقصد سے تھا۔لیکن اس کا رویہ دیکھ کر چڑ سا گیا۔جب ہی اُسے اسی کے انداز میں جواب دیا۔
”میں نے کہا تھا کہ یہاں ٹھہراؤ مجھے؟اب اگر رہنے دیا ہے تو یہاں آنا چھوڑ دو۔ورنہ کسی اور کمرے کا انتظام کرو“۔دونوں بازو سینے پر باندھے،سختی سے بولی۔
”واقعی؟ آپ مجھے بتائیں گی کہ میں کیا کروں اور کیا نہ کروں؟“۔فاز عالم ہلکا سا ہنس دیا،وہ اُسے اِس لمحے ایک ضدی بچے کی مانند لگی۔
”میں وہی کروں گی جو میرا دل چاہے گا“۔اسے سبکی محسوس ہوئی تھی۔فاطمہ کی آنکھوں میں ضد سی تھی۔”اور آئندہ تم اس کمرے میں قدم بھی نہیں رکھو گے۔۔ورنہ“۔شرمندگی کا احساس زائل کرنے کو وہ مضبوط لہجے میں بولی۔فاز نے قدم آگے بڑھائے۔
”ورنہ؟“۔ اس نے دھیمی مگر چیلنج بھری آواز میں پوچھا۔
”ورنہ…میں اپنی جان لے لوں گی“۔فاطمہ نے آخری حربہ اختیار کیا۔فاز کی مسکراہٹ پل بھر میں ماند پڑ گئی۔ اس کی آنکھوں میں گہری سنجیدگی ابھر آئی۔ وہ قدم بہ قدم اس کے قریب آیا۔
”کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ دھمکی دینے کی پوزیشن میں ہیں؟میری نرمی کا آپ ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہیں“۔اس کی آنکھوں میں نرمی مفقود تھی۔نیلی آنکھوں میں خوف جھلکا تھا۔اور ان آنکھوں میں اترتا یہ تاثر فاز عالم کو اچھا نہیں لگا۔گہری سانس لیتے قدم پیچھے کیے۔
”یوں تو آپ حلال حرام کرتی رہتی ہیں۔کیا آپ کو کسی نے بتایا نہیں خودکشی حرام ہے؟“۔۔اس کی مسکراتی آنکھوں کو فاطمہ نے خفگی سے دیکھا۔
”ہاں تو صرف تمہیں کہا تھا۔میں کون سا سچ میں خود کی جان لے رہی تھی؟“۔۔جذباتی انداز میں کہتی وہ رخ موڑ گئی۔فاز عالم کی ہنسی گونجی۔
”میں آپ سے یہی سننا چاہتا تھا“۔اس نے ہنسی روکتے ہوئے کہا۔اندر کہیں یہ احساس ہوا تھا۔آج کل وہ کچھ زیادہ ہنس رہا تھا۔
”تمہیں میں معاف نہیں کروں گی۔تم بہت برے ہو۔تم نے مجھے قید کر رکھا ہے“۔اس کی پلکوں پر آنسو لرزنے لگے۔بےبسی سے آنکھوں کا بھگتا گوشہ صاف کیا۔وہ رونا نہیں چاہتی تھی۔لیکن اسے رونا آرہا تھا۔کل اس نے خود کو سمجھایا تھا۔اب وہ روئے گی نہیں۔اور اس شخص کے سامنے تو بالکل بھی نہیں۔
”آپ کو کس نے کہا کہ میں نے قید کیا ہوا ہے؟آپ میری بیوی ہیں،اس لیے یہاں ہیں۔اور برا تو میں واقعی بہت ہوں“۔فاز کے لہجے میں سچائی اور سنجیدگی تھی۔
”تم مجھے پریشان کر رہے ہو“۔دھیمی آواز میں شکوہ کیا گیا۔۔
”میں؟میں آپ کو پریشان کر رہا ہوں؟“۔فاز نے بے یقینی سے سوال کیا۔فاطمہ نے آہستگی سے اثبات میں سر ہلایا۔”آلرائٹ“۔فاز ہونٹوں کو زبردستی مسکراہٹ کے انداز میں ڈالتا سر ہلا گیا۔
”تم مجھے کمرے سے بھی نکال رہے ہو“۔اس کا موڈ بدل رہا تھا۔یا شاید وہ فلوقت کوئی بحث بدتمیزی نہیں چاہتی تھی۔جب ہی دھیمی آواز میں شکایت کررہی تھی۔
”میں آپ کو کمرے سے نکال سکتا ہوں؟میں سارے کام کرسکتا ہوں مگر یہ نہیں“۔۔بےیقینی ہی بےیقینی تھی۔انداز سوالیہ تھا۔لیکن آواز اتنی دھیمی تھی کہ وہ سن نہ سکی۔
”کیا کہ رہے ہو؟“۔۔
”کچھ نہیں،آپ اسی کمرے میں رہیں۔کوئی آپ کو کچھ نہیں کہے گا“۔گہری سانس بھرتے اسے دیکھا۔وہ معصومیت سے اپنا کام نکلوانا چاہتی تھی۔وہ خوب سمجھ رہا تھا۔
پھر اس نے اپنی جیب سے موبائل نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔”یہ موبائل دینے آیا تھا۔آپ کا ہر اکاؤنٹ میرے موبائل میں کھلا ہوا ہے۔جو کچھ آپ کریں گی،وہ سب مجھے معلوم ہوگا۔اس لیے محتاط رہیے گا۔گوگل اور یوٹیوب میں سرچ کرکے اپنا حرام اور حلال کا مسئلہ حل کرلیں۔کیونکہ اگر مزید کچھ دن آپ یونہی کھانے سے دور رہیں تو مجھے شک ہے کہیں ایک بیمار کی تیمارداری نہ کرنی پڑ جائے۔اور یقین کریں میں ایسا بالکل نہیں چاہتا“۔۔آخر میں اس کا لہجہ کچھ شرارتی ہوا تھا۔فاطمہ نے غصے سے موبائل لیا اور اسے سخت نظروں سے گھورا،مگر وہ مسکراتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔
”تم اس قابل نہیں ہو کہ میں تم سے اپنی تیمارداری کرواؤں“۔فاطمہ نے غصے میں اپنے دوپٹے کو جھٹکا اور کمرے میں ٹہلنے لگی،اس کے قدموں کی چاپ فرش پر دھیرے دھیرے گونج رہی تھی۔