”فاطمہ ایک ریکوسٹ ہے۔پلیز آپ کچھ دن ہر چیز سے بریک لے کر اس کے گھر میں رہیں۔ہاسپٹل یونیورسٹی نہیں جائیے گا۔کہیں وہ کسی اور کو نقصان نہ پہنچا دے“۔۔ماریہ کا سہما ہوا لہجہ اسے یاد آیا تو وہ آنکھیں بند کرگئی۔پھر دھیرے سے کھولی۔وہ یوں ہاتھ پہ ہاتھ دھڑے تو نہیں بیٹھ سکتی۔اسے کچھ کرنا ہوگا۔۔
دیوار کے ساتھ دیوار گیر لکڑی کے ریک بنے تھے، جن پر سینکڑوں کتابیں اور فائلز سلیقے سے رکھی تھیں۔ان کتابوں کی جلدوں پر مختلف رنگ اور عنوانات کمرے کو ایک عالمانہ تاثر دے رہے تھے۔ کمرے کی وسط میں ایک بھاری لکڑی کی میز رکھی تھی، جس کے کنارے پر کاریگرانہ نقوش کندہ تھے۔صدارتی کرسی میں وہ بیٹھا ہوا تھا،جو اس وقت کاغذات کے پلندے میں گم تھا۔
”سر، اندر آ جاؤں؟“۔دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی،اور ساتھ ہی ایک آواز ابھری۔
میز پر جھکے ہوئے وہ شخص قلم کو رکنے دیا اور سر اٹھا کر دیکھا۔ نظریں سامنے کھڑے شخص پر جا ٹھہریں۔”تم اندر آ چکے ہو“۔اس نے سرسری لہجے میں کہا،مگر اس کی نگاہوں میں جتانے کا تاثر نمایاں تھا۔
”دروازے کے پاس ہی ہوں سر“۔کھسیانی ہنسی کے ساتھ وہ پوری طرح اندر آگیا اور سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔
”کہو، کیا بات ہے؟“۔ اب وہ لیپ ٹاپ پر جھکا کچھ تلاش کر رہا تھا،اس وقت وہ بہت مصروف لگ رہا تھا۔ کمرے کی ہلکی زرد روشنی میں اس کا چہرہ مزید پراسرار دکھائی دے رہا تھا۔۔
”سر،وہ اسے ڈھونڈ رہا ہے،اور لگتا ہے جلد ہی اسے ڈھونڈ لے گا“۔پریشانی اس کی آواز میں نمایاں تھی۔
”کون؟ ارمان شاہد؟“۔لیپ ٹاپ کی اسکرین کی روشنی اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی،اس کی انگلیوں کی حرکت رک گئی۔پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوا۔اس کی نظریں گہری اور پرسکون تھیں۔
”جی سر، وہی“۔ سامنے بیٹھے شخص نے اثبات میں سر ہلایا۔
”تو تم نے وجہ معلوم کی؟وہ اسے کیوں ڈھونڈ رہا ہے؟“۔اس نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی،اس کی انگلیاں میز پر ہلکے سے تھپتھپا رہی تھیں۔
”جی سر، ایک لڑکی کی وجہ“۔
”ماریہ ابراہیم؟احسن ابراہیم کی بہن؟“۔اس کی آواز میں ایک عجیب یقین تھا۔سامنے بیٹھا شخص اپنے سر سے مرعوب ہوا۔اسے ہر بات کی خبر تھی۔
”جی سر، وہی۔میرے خیال میں وہ اس لڑکی سے محبت کرتا ہے،اسی لیے اس کے بھائی کو ڈھونڈ رہا ہے“۔
”تم نے کیا محبت میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے؟جو ہر کسی کے بارے میں یہی اندازہ لگاتے رہتے ہو؟“۔۔اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آکر معدوم ہوگئی۔
”سر آپ بھی“۔۔سامنے بیٹھا شخص خفیف سا ہنس دیا۔
”ٹھیک ہے۔ تم یہ پتہ لگاؤ کہ وہ اس کے ساتھ کتنا مخلص ہے۔اگر واقعی وہ یہ سب ماریہ کے لیے کر رہا ہے،تو اسے اس تک پہنچنے دو“۔وہ لمحے بھر کو خاموش ہوا،جیسے بات کے ہر پہلو پر غور کر رہا ہو۔ پھر اس نے اپنی انگلیوں کو ایک ساتھ جوڑ کر کہا۔
”اور اگر وہ واقعی ماریہ کے لیے کر رہا ہو،پھر؟“۔
”تب تم اسے اس کے قریب پہنچنے دینا۔لیکن جب وہ احسن کے کے بالکل قریب پہنچ جائے،تو اس سے پہلے اس کی ملاقات مجھ سے کروا دینا“۔۔اس کے لبوں پر دھیرے سے مسکراہٹ پھیل گئی،اس کی آنکھوں کی چمک مزید گہری ہوگئی۔ یہ مسکراہٹ کسی منصوبے کی خبر دیتی تھی،جو مکمل ہونے کے قریب تھا۔سامنے بیٹھا شخص احترام سے اٹھا اور اجازت لے کر باہر نکل گیا۔
_________________________
مشروب اور سگریٹ کی ملی جلی خوشبو کمرے کی فضا کو اپنے حصار میں لے چکی تھی۔یہ بو وہاں کے مکینوں کے لیے معمول کا حصہ تھی،جیسے ان کے روزمرہ کا ایک لازمی جزو۔لیکن اگر کوئی نیا فرد وہاں قدم رکھتا،تو وہ شاید چند لمحوں میں ہی دم گھٹنے کی شکایت کرتا۔کمرے کی زرد روشنی،جس پر دھویں کی ہلکی تہہ چھائی ہوئی تھی، ماحول کو مزید دھندلا بنا رہی تھی۔
”کچھ سوچا ہے اس وائے ڈی کا کیا کرنا ہے؟“۔حمید صاحب نے گہری آواز میں پوچھا،ان کی نظریں سامنے پڑے گلاس پر مرکوز تھیں۔
”ابھی کچھ وقت تک تو خاموش رہنا ہوگا۔زوہیب کی وجہ سے سارا معاملہ پہلے ہی خراب ہو چکا ہے“۔شاہد عباسی، جو اپنے خیالات میں الجھے ہوئے تھے،جھنجھلا کر بولے،ان کی آواز میں مایوسی کا عنصر جھلک رہا تھا۔
”میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ اس پر اتنا بھروسہ نہ کرو“۔ ان کا لہجہ کسی قدر طنزیہ تھا۔فاخر سلمان نے کندھے اچکائے اور بے نیازی سے موبائل کی اسکرین پر نظریں گاڑھ لیں۔
”اس کا پلان تو ٹھیک تھا،لیکن یہ وائے ڈی بہت شاطر ہے۔ زوہیب نے صحیح پہچانا تھا کہ یہ لڑکی کا معاملہ ہے۔لیکن اس نے الٹا زوہیب کو استعمال کیا، نہ صرف لڑکی حاصل کر لی بلکہ ہمارا پورا منصوبہ بھی خاک میں ملا دیا“۔حمید صاحب نے تلخی سے کہا۔ان کے چہرے پر غصے اور ناگواری کے آثار واضح تھے۔پھر وہ اچانک شاہد عباسی کی طرف متوجہ ہوئے، جن کا چہرہ کسی گہری سوچ کی عکاسی کر رہا تھا۔
”شاہد، تم کچھ پریشان لگ رہے ہو؟“۔حمید صاحب نے سوال کیا۔
”ہاں، واقعی! کیا بات ہے؟“۔فاخر سلمان، جو اب موبائل جیب میں رکھ چکے تھے، شاہد عباسی کی طرف دیکھتے ہوئے بولے۔شاہد عباسی چونک کر خیالات کی دنیا سے باہر آئے۔
”کون؟ میں؟ آں… نہیں، بس وہی وائے ڈی کے بارے میں سوچ رہا تھا“۔وہ مسکرا کر بولے، لیکن ان کی مسکراہٹ کے پیچھے چھپے اضطراب کو کوئی بھی محسوس کر سکتا تھا۔
”پریشان نہ ہو۔ابھی کچھ دن آرام کرو۔اس معاملے کو بعد میں دیکھ لیں گے“۔۔حمید صاحب سنجیدگی سے بولے۔
”ہاں، بالکل۔ اچھا یہ بتاؤ، تم لوگ پارٹی میں چل رہے ہو نا؟“۔فاخر سلمان نے ان کی بات کی تائید کرتے ہوئے بات کا رخ بدل دیا۔ یہ کمرہ نہ صرف ان کی سازشوں کا گواہ تھا بلکہ ان کی الجھنوں اور پریشانیوں کا بھی مرکز بن چکا تھا۔