”سب کچھ سیٹ ہوگیا ہے تم دونوں میں؟“۔اس بےباک سوال نے فاز کے مصروف ہاتھوں کو لمحے بھر کے لیے روک دیا۔ڈاکٹر کو چیک کروانے کے بعد،وہ دونوں اسٹڈی میں بیٹھے ہوئے تھے۔فاز، جو سربراہی کرسی پر براجمان تھا،اس کی پشت پر ایک ریک میں کئی کتابیں اور ایوارڈز سجے ہوئے تھے۔بیچ میں ایک میز تھی اور اس کے ساتھ دو کرسیاں رکھی تھیں،جن میں سے ایک پر “اے آئی” بےتکلفی سے بیٹھا تھا۔
”ایسا کچھ نہیں ہے“۔نیلے رنگ کی ایک فائل کھولتے ہوئے، جس پر جلی حروف میں ‘ولیم’ لکھا ہوا تھا،اُس نے سنجیدگی سے جواب دیا اور اس فائل پر گہری نگاہیں ڈالیں۔
”تو پھر وہ سب کیا تھا؟“۔اے آئی کی باتوں میں دلچسپی کا عنصر تھا،اور اے آئی کو یہ جرات بھی تھی کہ وہ فاز سے اس طرح کھل کر بات کرسکتا تھا۔
”وہ خوفزدہ تھی،پریشان تھی۔میں بس ان کا مائنڈ فریش کرنا چاہتا تھا“۔فاز نے نظریں فائل سے نہیں ہٹائیں،مگر لہجے میں وہی سنجیدگی جو ہمیشہ اس کی شخصیت کا خاصہ رہی تھی۔
”تو تم اس کے ساتھ فلرٹ کر رہے تھے؟“۔اے آئی کی مسکراہٹ میں شرارت تھی،اور ہاتھ کی مٹھی گال پر رکھ کر وہ اُسے دیکھ رہا تھا۔
”شٹ اپ!بہت بکواس کر لیا۔بیوی ہیں وہ میری“۔فاز نے خفگی سے اس کی بات کاٹ دی۔
”آں ہاں، الرائٹ!میں بھی تو کب سے یہی کہہ رہا ہوں کہ تمہاری بیوی ہیں وہ“۔وہ دھیرے سے ہنس دیا۔
”اے آئی، سدھر جاؤ“۔فاز کی آنکھوں میں واضح وارننگ تھی،لیکن سامنے والا سدھرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔
”ویسے تم لوگوں نے یہ بڑا اچھا نام دیا ہے ‘اے آئی’ لوگوں کو لگتا ہوگا کہ میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس ہوں“۔وہ خود ہی اپنی بات پر ہنسنے لگا،شاید کچھ زیادہ ہی شوخ مزاج تھا۔
”ہاں تو تم ہو، اے آئی کا کام کیا ہوتا ہے؟جو کمانڈ دو وہ پورا کرتا ہے،بالکل ویسے ہی جیسے تم میرا ہر آرڈر پورا کرتے ہو… روبوٹ“۔فاز کی آنکھوں میں پہلی بار ایک ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔مگر وہ فوراً اپنی اصل طبعیت پر آگیا۔
”تو مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔اب تمہارا روبوٹ بننے کے لیے بھلا کون انکار کر سکتا ہے؟“۔اس نے بے نیازی سے کندھے اچکائے، اور فاز نفی میں سر ہلا کر رہ گیا۔ جیسے کہ اُس کا کچھ نہیں ہو سکتا۔
”ویسے ایک بات تو بتاؤ، یہ مراد آج کل کہاں ہے؟“۔اے آئی کے انداز میں تجسس تھا۔
”بہت یاد کر رہے ہو اسے؟کہو تو ابھی بلا لیتا ہوں“۔فاز نے مسکراہٹ دبائے ہوئے کہا۔
”مجھے تو تمہاری سمجھ نہیں آتی کہ اسے تم نے میرے پیچھے لگایا کیوں تھا۔لیکن خیر،ابھی کچھ دنوں سے سکون ہے“۔۔
”تاکہ تم کوئی نقصان نہ کر بیٹھو“۔فاز نے گہری سانس لے کر مصروف انداز میں کہا۔
”مجھے معلوم تھا تمہیں میری پرواہ بہت ہے،ناجانے کون لوگ تمہیں کھڑوس کہتے ہیں“۔ اُس کی مسکراہٹ میں گہری محبت چھپی ہوئی تھی۔محبت سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”ڈونٹ لک ایٹ می لائیک ڈیٹ“۔فاز نے اپنی نظریں ہٹا کر ایک سخت نگاہ سے اُس کو گھورا۔اے آئی ہنستا چلا گیا۔
”یہ پابندی تو اب مجھ پر لگے گی ہی“۔اے آئی نے ہنسی روکتے شرارت سے فاز کی بات کا جواب دیا۔فاز نے کڑے تیوروں سے اسے دیکھا۔
”مجھے تمہاری نہیں،اپنے مشن کی فکر ہے۔کیونکہ اگر تم ہاتھ سے گئے تو سالوں کی میری محنت برباد ہو جائے گی“۔ اُس کی آواز میں سنجیدگی تھی۔
”تم چاہے منہ سے نہ بولو،مسٹر فاز،لیکن میں جانتا ہوں کہ تم کتنی فکر کرتے ہو“۔اے آئی ہنستے ہوئے،شرارتی نگاہوں سے فاز کو دیکھنے لگا۔
”ڈے ڈریمنگ“۔ فاز نے بڑبڑایا، لیکن اے آئی پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ جانتا تھا کہ فاز نے مراد کو اس کے پیچھے اس لیے لگایا تھا کہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
رات کے پُرسکون لمحے،جب شہر نیند کی آغوش میں جا چکا تھا،فاطمہ کمال کے ارادے اسے گھر کی پچھلی کھڑکی سے باہر دھکیل چکے تھے۔سفید چادر میں لپٹی،وہ خاموشی سے زمین پر اتری،جیسے رات کے اندھیرے سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کر رہی ہو۔ہوا میں ایک لطیف سی خنکی تھی، اور کراچی کی روشن سڑکیں اس کے راستے کا تعین کر رہی تھیں۔
چورنگی کے قریب ایک سفید کرولا آ کر رکی۔وہ فارحہ کو کال کرکے بلائی تھی۔
فاطمہ نے تیزی سے دروازہ کھولا اور اندر بیٹھ گئی۔اس کا دل ابھی بھی تیز دھڑک رہا تھا،لیکن چہرے پر سکون کی مصنوعی تہہ چڑھا رکھی تھی۔
”خیریت ہے فاطمہ اس وقت مجھے کیوں بلایا؟“۔ڈاکٹر فارحہ نے گاڑی کو ہسپتال کی طرف موڑتے ہوئے سوال کیا۔
”سب بتاتی ہوں… پہلے آپ یہ بتائیں کہ ہسپتال کی صورتحال کیسی ہے؟اکاؤنٹس میں سب ٹھیک چل رہا ہے؟“۔ فاطمہ کی آواز میں الجھن تھی، جیسے وہ سب کچھ سنبھالنا چاہتی ہو مگر زندگی کی سرکشی اسے مسلسل دھکیل رہی تھی۔
”تم بے فکر رہو،سب ٹھیک ہے۔میں نے ایک قابل لڑکی کو بھی ہائیر کر لیا ہے“۔فارحہ نے نرمی سے جواب دیا۔فاطمہ نے شکر گزاری سے اس کی طرف دیکھا۔
”احسن کا کچھ پتہ چلا؟“۔۔فارحہ گاڑی چلاتے ہوئے فکرمندی سے پوچھی۔شادی کے پوسٹ پونڈ ہونے کی خبر سب کو تھی اور احسن کے اغوا ہونے کی بھی۔
”نہیں…“فاطمہ کی مدھم آواز نے دونوں کے بیچ کی فضا کو بوجھل کر دیا۔گاڑی ہسپتال کے پارکنگ میں رک چکی تھی۔
”تم دوبارہ ہسپتال کب آ رہی ہو؟“۔خاموشی چند لمحے برقرار رہی، پھر فارحہ نے سوال کیا۔
”میری شادی ہو چکی ہے“۔یہ جملہ کسی طوفان کی طرح گاڑی کی خاموشی کو توڑ گیا۔سیٹ بیلٹ کھولتا ہوا ہاتھ ٹھر سا گیا۔
”شادی؟ لیکن وہ تو پوسٹ پونڈ ہو گئی تھی؟“۔فارحہ حیرت سے اس کی طرف دیکھی۔
”مسٹر فاز عالم عرف وائے ڈی سے میرا نکاح ہوا ہے۔“
یہ کہتے ہی فاطمہ کی نگاہیں خلا میں جم گئیں، جیسے اپنے ہی الفاظ کی گہرائی کو جانچ رہی تھیں۔گاڑی سے نکلتے ہوئے دونوں اندر کی طرف بڑھی۔ہسپتال کے آفس میں بیٹھ کر اس نے پوری کہانی سنائی،وہ سب کچھ جو اسے بوجھل کیے جا رہا تھا۔
”تو تم اس وقت کیوں آئی ہو؟“۔۔فارحہ چہرے پہ پریشانی لیے اسے دیکھنے لگی۔
”وہ رات بھر گھر میں نہیں ہوتا، اس لیے مجھے یہی وقت محفوظ لگا۔میں نہیں چاہتی کہ اب میری وجہ سے کوئی نقصان اٹھائے“۔۔فاطمہ کا لہجہ بےتاثر تھا۔
”تم نے اس سے پوچھا کہ وہ تم سے کیا چاہتا ہے؟“۔فارحہ نے گہری سانس لی،پھر مدھم لہجے میں کہا۔
”بےشمار بار…مگر وہ کبھی سیدھا جواب نہیں دیتا“۔فاطمہ کی نظریں میز پر ٹک گئیں۔
”فارحہ،میں نے ہمیشہ خود کو مضبوط سمجھا،لیکن حالیہ واقعات نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ایک اجنبی سے نکاح، دادی اور پھوپھی کی حقیقت..سب کچھ جیسے میری ذات کو منتشر کر گیا ہے“۔فاطمہ کی آواز میں تھکن در آئی۔
”فاطمہ آپ خود سائیکالوجسٹ ہیں اور نیوروپلاسٹیسٹی کے تصور سے بخوبی واقف ہیں۔ہمارا دماغ تبدیلیوں کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔لیکن اس میں وقت لگتا ہے،خود کو وقت دیں“۔
”میں جانتی ہوں،مگر جذباتی سطح پر یہ سب قبول کرنا آسان نہیں ہوتا“۔۔فاطمہ نے گہری سانس بھری۔ان سارے واقعات سے اس کی جذباتی وابستگی تھی۔احسن کا اغوا، رشتوں کی حقیقت،اور سب سے بڑھ کر… کسی انجان کے نکاح میں چلے جانا۔جس کے آگے پیچھے سے واقفیت نہیں۔ہر لڑکی کو اپنے نکاح کو لے کر بہت ارمان ہوتے ہیں۔
” جب ہم گہرے جذباتی صدمات سے گزرتے ہیں، تو دماغ کو ان کے ساتھ ہم آہنگ ہونے میں ذیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔یہ ایک قدرتی عمل ہے۔ہم ان تجربات پہ غور کرتے ہیں۔ان کے ساتھ جیتے ہیں۔دماغ نئے نیورل راستے بناتا ہے تاکہ ہم ان حالات کو قبول کر سکیں۔جیسے جسمانی زخموں کو بھرنے میں وقت لگتا ہے،ویسے ہی ذہنی زخم کو مندمل ہونے کے لیے بھی وقت چاہیے“۔۔۔فاطمہ نے گہری سانس لے کر سر اثبات میں ہلا دیا۔
”ٹھیک کہ رہی ہیں آپ۔میں نے خود پر بہت دباؤ ڈال لیا ہے۔ فوراً سب کچھ ٹھیک نہیں کر سکتی،مجھے خود کو وقت دینا چاہیے،اور صبر سے کام لینا ہوگا“۔فاطمہ کی آنکھوں میں سوچ کے عکس ابھرے۔ان سب باتوں سے وہ خود بھی واقفیت رکھتی تھی۔لیکن اگر گفتگو کسی اچھے اور سینئیر ساتھی کے ساتھ ہو تو وہ زیادہ پراثر ثابت ہوتی ہے۔
”اور اس دوران خود کے ساتھ مہربان رہنا۔یاد رکھو،انسان چاہے جتنا بھی مضبوط ہو،زندگی کی غیر متوقع تبدیلیات اور انکشافات اسے متاثر کرسکتی ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ ہم ان سے سیکھیں اور آگے بڑھیں“۔وہ نرم سی آواز میں اسے سمجھا رہی تھی۔فاطمہ نے نرم نگاہوں سے انھیں دیکھا۔یہی وہ پر شفقت انداز تھا جو وہ مِس کررہی تھی۔
”شکریہ فارحہ!آپ سے باتیں کرکے میں کافی حد تک خود کو پرسکون محسوس کررہی ہوں“۔ڈاکٹر فارحہ ایک کامیاب سائیکیٹرسٹ تھی۔
”ہم سب انسان ہیں فاطمہ۔اور انسان ہونے کا مطلب ہم محسوس کرتے ہیں،سیکھتے ہیں اور وقت کے ساتھ بڑھتے ہیں۔تو کبھی خود کو ڈیپریس محسوس کرو تو یہ مت سوچنا تم ایک سائیکالوجسٹ ہو یا ایک مضبوط عورت ہو تو تمہاری یہ کیفیت نہیں ہوسکتی۔تم ان سب سے پہلے ایک انسان ہو۔ایک عام انسان۔جو ہر کیفیت سے گزر سکتا ہے“۔۔
فاطمہ کے ہونٹوں پر پہلی بار ایک حقیقی مسکراہٹ ابھری۔
” اللّٰہ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔بس اس سے ہمیشہ خیر مانگتے رہو۔۔اب تم کام دیکھ لو۔یوں تو میں سارا سنبھال چکی ہوں۔تم نہ بھی آؤ تو میں ہینڈل کرلونگی“۔۔ڈاکٹر فارحہ کرسی پیچھے دھکیلتی کھڑی ہوگئی۔
”جزاک اللہ آپ نے میری بہت ہیلپ کی ہے“۔۔فاطمہ ایک بار پھر ممنون ہوئی۔ہسپتال بننے سے اب تک فارحہ اس کے ہر قدم پہ اس کے ساتھ تھیں۔
”آدھا گھنٹہ ہے تمہارے پاس۔جلدی دیکھ لو۔پھر ساتھ چلیں گے“۔۔وہ نرم لہجے میں کہتی چلی گئیں۔
’’وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى‘‘(والضحی:۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہوجاؤ گے۔
اچانک ہی اس کے ذہن کے پردوں میں سورہ الضحیٰ کی آیات نمبر ۵ تازہ ہوئی۔یہ عربک خطاطی بھی فاز کے کمرے میں لگی ہوئی تھی۔وہ پرسکون ہوگئی۔
زخم چاہے جسمانی ہوں یا جذباتی،انہیں مندمل ہونے کے لیے وقت دینا پڑتا ہے۔زندگی کے نشیب و فراز کا سامنا کرنا انسانی تجربے کا حصہ ہے۔اور ہر چیلینج ہمیں مزید مضبوط اور سمجھدار بناتا ہے۔وقتی طور پر لگتا ہے ہم کمزور ہوگئے ہیں۔بیکار ہوگئے ہیں۔لیکن وہ ہمارا ٹوٹ کر جڑنے کا پیریڈ ہوتا ہے۔ہم وقتی طور پر کمزور ہوتے ہیں،دوبارہ جڑنے کے لیے۔
رات کا دوسرا پہر تھا۔کراچی کی سڑکیں دن کے ہنگاموں کے بعد اب خاموشی کی چادر اوڑھے ہوئے تھیں۔کہیں کہیں کھڑے اسٹریٹ لائٹس کی مدھم روشنی زمین پر پیلی لکیر بناتی جا رہی تھی،اور ہلکی ٹھنڈی ہوا عمارتوں کے بیچ سرسراتی پھرتی تھی۔۔قدموں کی ہلکی چاپ اس خاموشی کو توڑ رہی تھی۔
”تم پھر سے آگئے؟“۔چوراہے پر ایک اکیلی سفید چادر میں لپٹی لڑکی کے ساتھ قدم ملاتے ہوئے کسی کے قدموں کی آہٹ ابھری۔اس لڑکی نے چلتے چلتے گردن موڑی،نظریں تیکھی ہو گئیں۔
”آپ مجھے پہچان گئیں؟“۔سیاہ آنکھوں میں ہلکی سی چمک تھی۔
”ایک جیسے حلیے میں آؤ گے تو پہچانوں گی ہی۔“
فاطمہ نے کندھے اچکائے اور دوبارہ قدم آگے بڑھا دیے۔ چورنگی کے شور سے دور،اب گلیاں خاموش تھیں،اور اسے گھر تک پیدل جانا تھا۔
”تو آپ کو میرا حلیہ یاد ہوگیا؟“۔اس کے چہرے پر نقاب تھا،مگر مسکراہٹ اس کی آواز میں چھپی نہیں تھی۔دکانوں کے شٹر نیچے تھے تو کچھ کھلے ہوئے تھے۔کہیں کوئی سڑک کنارے چائے کے ہوٹل پر کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔
”کچھ دن پہلے تمہارا خیال آیا تھا،ہوا کے جھونکوں کی طرح آئے اور ویسے ہی غائب ہو گئے۔جنات تو نہیں ہو؟“۔وہ لاپرواہی سے بولی،مگر اس کی بات پر ساتھ چلتا شخص کھل کر ہنسا،اس زور سے کہ سنسان گلی بھی چونک گئی۔
”اتنی زور سے کون ہنستا ہے؟“۔فاطمہ رک گئی،غصے سے اسے گھورا۔
”میں انسان ہوں، آپ کی طرح“۔وہ اس کی پہلی بات کا جواب دیا۔سیاہ آنکھیں ایک بار پھر مسکرائیں،مگر اب کی بار ان کا محور فاطمہ کی چادر تھی جو اس کے گرد لپٹی ہوئی تھی۔سفید چادر۔چھوٹے چھوٹے گلابی پھول والے۔
”تم میرے پیچھے کیوں آتے ہو؟“۔اس کی آواز میں خفگی تھی،مگر کہیں اندر ایک اور جذبہ بھی سر اٹھا رہا تھا،تجسس۔
دور کہیں کوئی آوارہ کتا بھونکا،پھر خاموشی لوٹ آئی۔
”اگر آپ ہر وقت تنہا نکلیں گی،تو مجھے آنا پڑے گا ناں؟“۔آواز گہری تھی۔رات کے سناٹے میں اور بھی گونج دار لگ رہی تھی۔فاطمہ رک گئی۔پلٹی۔غور سے اس اجنبی کو دیکھا۔
”تمہارا مطلب ہے تم مجھے بچانے آتے ہو؟“۔لہجے میں گہری سنجیدگی اتر آئی۔موٹر سائیکل کی آواز خاموشی کو چیرتے ہوئے گزر گئی۔وہ خاموشی سے سر ہلا گیا۔
”تو تم یہ بھی جانتے ہو گے کہ میری شادی ہو چکی ہے؟“۔اس کے لہجے میں غیر محسوس سا طنز ابھرا۔بازو سینے پر لپیٹے،وہ اسے تولتی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
”جانتا ہوں“۔جواب بغیر کسی توقف کے آیا۔
”تو تب بچانے کیوں نہیں آئے؟“۔اس بار سوال سوچا سمجھا تھا۔جذباتی نہیں،پرسکون،اور اس کے اندر کہیں گہرا دھنسنے والا۔
”میں ہر جگہ بچانے نہیں آسکتا“۔وہ دوبارہ چلنے لگا۔فاطمہ کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔
”اچھااا…تو تم ہر جگہ نہیں آسکتے؟“۔فاطمہ سر ہلاتے ہوئے ہلکا سا قہقہ لگا گئی۔جو فضا میں تحلیل ہوگیا۔۔ساتھ چلنے والے نے حیرانی سے اسے دیکھا،شاید اس کی ہنسی کی وجہ جاننا چاہتا تھا۔
”دیکھو،تم نے جتنی بھی مدد کی،اس کے لیے شکریہ۔لیکن اب آئندہ میرے سامنے مت آنا“۔آواز میں قطعیت تھی،جیسے کوئی حد کھینچ دی ہو۔چہرے کے تاثرات سنجیدگی میں ڈھل گئے۔انگلی اٹھا کر وارننگ دی گئی تھی۔
”رات کے اس پہر آپ کا نکلنا محفوظ نہیں ہے“۔وہ اس کی تنبیہ کو نظرانداز کرتے ہوئے بولا،لہجے میں فکر کی جھلک واضح تھی۔
”تو اس بات کی فکر میرے شوہر کو ہونی چاہیے،تمہیں نہیں“۔کچھ سوچ کر اس نے یہ کہا تھا۔
وہ لمحہ بھر کو خاموش رہا۔نظریں اس کے چہرے پر جمی رہیں، پھر دھیرے سے سر ہلایا۔
”ٹھیک ہے،اب میں نہیں آؤں گا۔“
فاطمہ کی مسکراہٹ اور گہری ہو گئی۔
”تمہارے لیے یہی بہتر ہوگا“۔یہ کہتے ہی وہ پلٹ گئی،جیسے کوئی غیر ضروری باب بند کر چکی ہو۔
”ایک آخری سوال کا جواب دیتی جائیں“۔پیچھے سے آتی آواز نے اسے پھر رکنے پر مجبور کر دیا۔وہ دوبارہ پلٹی۔وہ اب بھی وہیں کھڑا تھا،نظریں اسی پر جمی تھیں۔
”آپ نے کہا تھا اگر میں دوبارہ ملا تو آپ میرا نقاب اتاریں گی۔ لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔کیوں؟“۔
فاطمہ کی آنکھوں میں سوچ کے سائے ابھرے، مگر اس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔
”تمہارے بارے میں میرے ذہن میں کئی سوال ہیں۔بہت سے شک جو شک تو خیر نہیں ہیں۔فلحال اس بات کو رہنے دیتے ہیں۔رہی بات نقاب کی تو اگر میں تمہارا نقاب اتارنے کی کوشش کرتی،تو تم یقیناً مجھے روکنے کے لیے میرا ہاتھ پکڑتے اور فاطمہ کمال ایسا بالکل نہیں چاہتی“۔وہ باوقار انداز میں کہہ کر آگے بڑھ گئی۔اس لمحے اس میں وہی پرانی والی فاطمہ کمال کی جھلک نظر آئی تھی۔مضبوط،باوقار اور پر اعتماد۔پیچھے کھڑے شخص کی آنکھیں پھر سے مسکرائیں۔کہیں دور ایک کار کی ہیڈلائٹس لمحہ بھر کو گلی میں جھلکیں اور غائب ہو گئیں۔۔
رات گہری ہو چکی تھی، لیکن فاطمہ کے دماغ میں اب دھند کم ہونے لگی تھی۔ہر قدم کے ساتھ سوالات بھی تھے،اور ان کے جوابات بھی۔وہ جذباتی کیفیت سے نکل کر ایک نئے زاویے سے سوچنے لگی تھی۔