آج پھر وہی یادیں تھیں۔شازمہ شاہ اور ان کی یادیں۔کچھ یادیں زخم کی مانند ہوتی ہیں۔وقت کے ساتھ مندمل تو ہوجاتی ہیں،مگر ان کے نشان ہمیشہ دل کے دیواروں پر ثبت رہتے ہیں۔
کراچی کا کلفٹن بیچ ہمیشہ کی طرح آج بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔شام کے سائے گہرے ہونے لگے تھے،مگر سمندر کی موجوں میں وہی پرانی مستی تھی۔ پانی پر سورج کی آخری روشنی یوں بکھری ہوئی تھی جیسے کسی نے سونے کے ذرات بکھیر دیے ہوں۔نرم ریت پر پاؤں دھنسنے کا احساس، ہوا میں نمکین خوشبو، اور سمندر کے کنارے ٹہلتے لوگوں کی سرگوشیاں۔
یہاں ہر چیز وقت کے بہاؤ کو روک دیتی تھی،یا شاید صرف شازمہ شاہ کو ایسا محسوس ہو رہا تھا۔وہ اپنے شریکِ حیات کے ساتھ ننگے پاؤں چل رہی تھی،اور ان کی گود میں تین ماہ کا وہ پیارا سا بیٹا تھا جو ان کی دنیا بدل چکا تھا۔ اس کی چھوٹی سی ناک،ننھے ہاتھ اور ماں جیسے گہرے نقوش۔۔مگر رنگت باپ جیسی گندمی تھی۔
شازمہ نے رک کر سمندر کی جانب دیکھا۔ سامنے حدِ نظر تک نیلا سمندر پھیلا ہوا تھا،گہرے نیلے پانی پر سرخ اور سنہری روشنی کے عکس لہروں کے ساتھ جھوم رہے تھے۔دور کہیں اونٹ کی گھنٹیاں بج رہی تھیں،کچھ بچے ہوا میں رنگ برنگی پتنگیں اڑا رہے تھے۔
”عجیب بات ہے نا؟“۔وہ کھوئی کھوئی سی بولی۔”ہم زندگی بھر بھاگتے رہتے ہیں،لیکن سمندر کے پاس آ کر سب کچھ تھم جاتا ہے“۔
”سمندر کی یہی خاص بات ہے۔یہاں شور کے بیچ بھی سکون چھپا ہوتا ہے۔شاید اسی لیے لوگ اس کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں“۔مسکراتے ہوئے بیوی اور بیٹے کو دیکھا،پھر سامنے سمندر پر نظریں جما کر بولے۔شازمہ شاہ نے جھک کر اپنے ننھے بیٹے کا گال چوما،جو معصومیت سے اپنی مٹھی بند کیے ہوا میں ہاتھ مار رہا تھا۔
”آپ ہمیں کب ملوائیں گے سب سے؟“۔شازمہ نے آہستہ سے سوال کیا۔اس کے لہجے میں ایک ان کہی اداسی چھپی تھی۔
”بہت جلد“۔انہوں نے پیار سے اس کے کندھے پر بازو رکھا اور آگے بڑھنے لگے۔
دور کہیں روشنیوں سے جگمگاتے کلفٹن کے ساحل پر بنے قدیم بنگلوں کی جھلک دکھائی دے رہی تھی۔وقت بدلا،شہر پھیلا،مگر کلفٹن کی شاموں کی خوبصورتی آج بھی ویسی ہی تھی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شام کی روشنی مدھم ہوچکی تھی،اور مصطفیٰ مینشن کے مکین اس پُر رونق محفل میں دل کے غم چھپائے مسکرا رہے تھے۔دنیا داری بھی نبھانی تھی۔ایک بڑی بزنس فیملی کے مینشن میں ہونے والی یہ انگیجمنٹ پارٹی کافی شاندار تھی۔ہر طرف خوشبو بکھیرتے پھول،جگمگاتی لائٹس اور نرم دھنوں پر چلتی ہلکی موسیقی ماحول کو جادوئی بنا رہی تھی۔
ماریہ ایک گوشے میں کھڑی تھی،خاموش اور اداس،جیسے روشنیوں کے ہجوم میں تنہا کوئی دیا ہو۔آسمانی رنگ کے مشرقی لباس میں ملبوس،جس کی ہلکی سنہری کڑھائی روشنی میں جھلمل کر رہی تھی۔اس کے کندھوں پر بڑے سلیقے سے رکھا دوپٹہ،کلائیوں تک آتی آستینوں والی لمبی قمیض،سبھی اس کے باوقار انداز کی گواہی دے رہے تھے۔
”کیسی ہیں، ماریہ آپ؟“۔۔اچانک ارمان کی بھاری،نرم آواز نے اس کی خاموشی توڑ دی۔وہ اپنی سوچوں کی دنیا سے نکلی اور مسکرا کر اسے دیکھا۔
ارمان سرمئی ٹی شرٹ کے اوپر سیاہ رنگ کی بلیزر اور سیاہ جینز میں ملبوس تھا، جس کے نیچے اس نے وائٹ ٹی شرٹ پہن رکھی تھی۔ اس کی کلائی پر بندھی گھڑی،ہلکی داڑھی اور جیل سے سلیقے سے سیٹ کیے ہوئے بال، سبھی کچھ اسے منفرد بنا رہے تھے۔۔
”میں ٹھیک ہوں، آپ کیسے ہیں؟“۔
”اداس لگ رہی ہیں؟“۔اس نے سوال کے جواب میں سوال کیا۔
”جی…آج پہلی بار فاطمہ اور احسن کے بغیر کسی پارٹی میں آئی ہوں“۔وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی،مگر اس کی آنکھوں میں اداسی واضح تھی۔
”ایک بات پوچھ سکتا ہوں؟“۔ماریہ نے چونک کر اسے دیکھا۔وہ سنجیدہ تھا۔
”جی، پوچھیں“۔
”فاطمہ کو آپ کے گھر میں کوئی پسند نہیں کرتا،پھر آپ دونوں بھائی اس سے اتنی محبت کیوں کرتے ہیں؟“۔ارمان کی نظریں اس کے چہرے کا ہر تاثر پڑھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
”مجھے خود نہیں معلوم،بس مجھے وہ اپنی سگی بہن کی طرح لگتی ہیں۔گھر والوں نے بہت کوشش کی کہ میں ان سے دور ہو جاؤں،مگر میں ان کے مزید قریب ہوتی چلی گئی۔شاید فاطمہ میں کشش ہی ایسی ہے کہ جو بھی انہیں جانتا ہے، ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے“۔وہ بولی تو اس کی آنکھوں میں چمک آئی۔ وہ ہنستے ہوئے بولی۔دھیمے سروں میں۔اور یہ منظر بےحد خوبصورت تھا۔کسی کے دل نے اعتراف کیا۔
”فاطمہ کے بابا اب تک نہیں آئے؟“۔۔کچھ فاصلے پر موجود شمائلہ اور ریحانہ بیگم نے ان دونوں کو تیز نگاہوں سے دیکھا تھا۔
”نہیں،مجھے لگتا ہے کہ انہیں پوری بات معلوم بھی نہیں“۔اس نے سادگی سے کہا اور دوپٹہ درست کرنے لگی۔
”گھر میں ان کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا؟“۔ایک اور سوال۔
”بس سنا ہے کہ بڑے تایا شاید آنے والے ہیں،باقی میرے سامنے کوئی ذکر نہیں ہوتا“۔بولتے بولتے ماریہ رک گئی، نظریں اٹھا کر غور سے ارمان کو دیکھا۔
”کیا ہوا؟“۔ارمان نے حیرت سے پوچھا۔
”آپ مجھ سے معلومات اکھٹی کر رہے ہیں؟“۔ وہ مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی۔
”واٹ؟میں کیوں کروں گا؟اس بورنگ پارٹی میں آپ کے ساتھ کمپنی انجوائے کرنے آیا تھا۔اس موضوع کے علاوہ کیا بات کروں؟“۔وہ کچھ ناراضگی سے بولا۔ماریہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
”میرے کہنے کا مطلب وہ نہیں تھا…“۔ وہ جلدی سے بولی۔اس کے چہرے پر ندامت کے آثار تھے۔
”اٹس اوکے،اب مجھے نکلنا ہے،خدا حافظ“۔
”آپ ناراض ہو کر جا رہے ہیں؟“۔اس کے پلٹتے ہی وہ تیزی سے بولی۔ارمان رک گیا۔
”کیا میرا ناراض ہونا نا ہونا آپ کے لیے معنی رکھتا ہے؟“۔وہ پلٹا اور دو قدم قریب آیا۔ماریہ کی نظریں ایک لمحے کو اس کے چہرے پر جم گئیں۔
”ہاں“۔
”کیوں؟“۔
”آپ نے میری اتنی مدد کی ہے،میں نہیں چاہتی کہ میری وجہ سے آپ ناراض ہوں،اس لیے“۔وہ نروس ہو رہی تھی۔ بار بار اپنے بال پیچھے کرنے لگی۔
”ناراض نہیں ہوں،بس ضروری کام ہے،ڈونٹ وری“۔ارمان نے ایک نظر اس کے الجھے چہرے پر ڈالی اور ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔یہ کہہ کر وہ وہاں سے نکل گیا،اور ماریہ اپنی تیز دھڑکنوں کو قابو میں لانے کی کوشش کرنے لگی۔
ہفتہ بیت چکا تھا۔ پورے تین مہینے بعد اس کے بابا واپس آ رہے تھے۔بابا سے اس کی کل بات ہوئی تھی۔دل میں بےچینی،آنکھوں میں انتظار،اور دماغ میں سوالوں کا ہجوم تھا۔وہ بیتاب تھی بابا سے ملنے کے لیے۔اس نے اپنے کمرے کا دروازہ لاک کیا،ہلکی روشنی میں بیڈ پر بیٹھ گئی،اور موبائل ہاتھ میں لے کر ماریہ کو کال ملائی۔کھڑکی سے دوپہر کی دھوپ کمرے کے اندر آرہی تھی۔جس میں ہلکی سی سنہری چمک تھی۔
”السلام علیکم، کیسی ہو؟“۔۔باہر آسمان نیلا اور شفاف تھا۔
”وعلیکم السلام، ٹھیک ہوں، تم سناؤ؟“۔دوسری طرف سے ماریہ کی آواز نرم مگر فکرمند تھی۔مختصر بات چیت کے بعد وہ اصل مدعے پر آ گئی۔
”ماریہ، یہ شخص کہتا کچھ ہے اور کرتا کچھ۔مجھے یقین ہے کوئی بات ایسی ہے جو اس نے مجھ سے چھپائی ہوئی ہے“۔اس کی آواز دبیز اور مدھم تھی،جیسے وہ اپنے ہی اندر کسی الجھن میں گرفتار ہو۔
”فاطمہ!آپ یہ سب فون پر کیسے کہہ سکتی ہیں؟“۔ماریہ کی آواز میں اضطراب چھلک پڑا۔وہ کمرے میں بےچینی سے ٹہلنے لگی۔
”پریشان مت ہو،میں نے اسے کسی سے بات کرتے سنا تھا۔ شاید اس کا کوئی قریبی تھا۔وہ صرف مجھے خوفزدہ کرنے کے لیے کہہ رہا تھا کہ میری کال ریکارڈ ہو رہی ہے، لیکن اس نے ایسا کچھ نہیں کیا ہے“۔وہ گہری سانس لیتے ہوئے کہہ رہی تھی۔کمرے کی کھڑکی سے ٹھنڈی ہوا اندر آ رہی تھی۔
اچانک ہی باہر آسمان پر بادلوں کے پیچھے سورج چھپنے اور نکلنے کا کھیل کھیلنے لگا تھا۔
”اوہ… شکر! یہ بتائیں، آپ کو ایسا کیوں لگ رہا ہے؟“۔ماریہ صوفے پر بیٹھ گئی،اس کی پریشانی میں کمی تو آئی لیکن سوال باقی تھے۔
”اس نے نکاح اسی لیے کیا تھا نا کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے،لیکن ماریہ،جب بھی وہ مجھے دیکھتا ہے،اس کی نظر بس سرسری ہوتی ہے۔وہ کہتا ہے کہ وہ ایک گینگسٹر ہے، لیکن اس کے رویے میں گینگسٹر والی کوئی بات نہیں۔ چوبیس گھنٹوں میں بمشکل ایک دو گھنٹے میرے سامنے ہوتا ہے۔ایسا لگتا ہے جیسے وہ مجھے یہاں کسی اور مقصد کے تحت لایا ہے“۔اس کی آواز دھیمی تھی۔
”تو مطلب وہ برا انسان نہیں ہے؟“۔ماریہ نے گہری سوچ میں سر جھکایا،پھر بولی۔
”مجھے نہیں معلوم وہ اچھا ہے یا برا۔لیکن وہ میرے ساتھ ہمیشہ اچھے سے پیش آیا ہے“۔وہ ٹھر ٹھر کر کہ رہی تھی۔آنکھوں کے سامنے پچھلے ہفتے کی شام کا منظر آیا۔کافی کا وہ کپ،جو فاز کے ساتھ پی تھی۔پھر فاز کا کہا گیا وہ جملہ “وہ خوفزدہ تھیں،پریشان تھیں،میں بس ان کا مائنڈ فریش کرنا چاہتا تھا“۔
کچھ لمحے خاموشی میں بیت گئے۔باہر دور کہیں کسی گلی سے بلی کی میاؤں میاؤں کی آوازیں آرہی تھی۔
”کیا سوچا ہے آپ نے؟فاطمہ،آپ رہی ہیں؟“۔ماریہ کی آواز نے اسے حال میں واپس کھینچا۔
”ہاں“۔اس نے سر اٹھایا،آنکھوں میں ایک نئی روشنی چمک رہی تھی۔”میں اس پر نظر رکھوں گی،اس کی باتیں،اس کے ہر قدم کو دیکھوں گی۔کوئی نہ کوئی سرا ضرور ہاتھ لگے گا“۔ اس کی آواز میں عزم تھا۔
”یہ ہوئی نا بات! خوشی ہوئی کہ آپ دوبارہ فاطمہ کمال بن رہی ہیں“۔ماریہ مسکرائی۔
فاطمہ نے کھڑکی سے جھانکا۔سورج بادلوں کے پیچھے سے نکل کر اب مکمل روشن ہو چکا تھا۔
”میں احسن اور ابراہیم کو بھی ڈھونڈ نکالوں گی“۔اس کے لہجے میں یقین تھا،آنکھوں میں ایک چمک تھی۔
جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے نکلتے ہی گاڑی روشنیوں کے شہر میں سرپٹ دوڑ رہی تھی۔سورج ڈھل چکا تھا،لیکن کراچی کی رات جاگ رہی تھی۔بلند و بالا عمارتوں کے درمیان سڑک پر گزرتی گاڑیاں،دکانوں کے جگمگاتے بورڈ،اور سڑک کنارے کھڑے ٹھیلے۔سب اپنی اپنی کہانیوں میں گم تھے۔گاڑی کراچی کے مہنگے ترین Sakura ریسٹورنٹ کے سامنے آ کر رک گئی۔
ریسٹورنٹ کی بیرونی دیوار سیاہ ماربل سے چمک رہی تھی۔گولڈن حروف میں جگمگاتا نام “Sakura” آنکھوں کو بھلا معلوم ہو رہا تھا۔اس کے قریب ہی ایک ہلکے گلابی رنگ کا سائن بورڈ نصب تھا،جس پر نہایت خوبصورت فونٹ میں “Sakura” لکھا ہوا تھا۔اس کے آس پاس سفید اور گلابی پھول سجے ہوئے تھے،جو ایک خوشگوار احساس پیدا کر رہے تھے۔سرخ قالین سیڑھیوں تک پھیلا ہوا تھا،اور آخر میں ایک شفاف براؤن لکڑی کا دروازہ،جس پر چمکتا ہوا سنہری ہینڈل لگا تھا۔
دروازہ کھلا،اور وہ کوٹ کے بٹن کھولتے ہوئے اندر داخل ہو گئے۔ لاندر کی دنیا بھی سیاہ رنگ کے سحر میں قید تھی۔ سیاہ اور سفید کرسیوں پر مہذب گاہک بیٹھے تھے،چھت پر لٹکتے فانوسوں کی روشنی ہر شے کو کسی خواب کی مانند چمکا رہی تھی۔ہر گوشہ خاموشی اور نزاکت کی گواہی دے رہا تھا۔
کونے کی ایک میز پر فاز عالم عرف وائے ڈی بیٹھا تھا۔ایک گہری سوچ میں مگن،اس کی آنکھیں کسی گہرے راز کی عکاسی کر رہی تھیں۔وہ تیز قدموں سے اس کی جانب بڑھے۔فاز ان کے آتے ہی کھڑا ہوا۔اور ان کے بیٹھتے ہی وہ بھی بیٹھ گیا۔
”بالآخر آپ تین ماہ بعد پاکستان واپس آ ہی گئے“۔فاز نے پرسکون مسکراہٹ کے ساتھ بات کا آغاز کیا
”تم چاہتے کیا ہو؟“۔انہوں نے سخت تاثرات کے ساتھ ایک سیدھا سوال داغا۔فضا میں کافی کی خوشبو بکھری ہوئی تھی۔ادھر اُدھر لوگ اپنی دنیا میں مگن تھے،کھلکھلاہٹیں، ہلکی موسیقی،چمچوں کی مدھم آواز،مگر ان کی میز پر ایک طوفان جنم لے رہا تھا۔
”آپ کو سب بتانے کے لیے ہی تو یہاں بلا لیا ہے“۔فاز کی آواز میں سکون تھا۔
”فاطمہ کو کیوں ٹریپ کیا؟“۔غصے میں مٹھی بھینچتے ہوئے وہ برہم ہوئے۔
”آپ نے فاطمہ سے یہ کیوں چھپایا کہ آپ کے علاوہ اس گھر میں اس کا کوئی سگا رشتہ نہیں؟“۔فاز نے انہیں غور سے دیکھا،جیسے ان کے اندر جھانکنے کی کوشش کر رہا ہو۔
”تم یہ پوچھنے والے کون ہوتے ہو؟“۔یہ سن کر کمال مصطفیٰ کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔الفاظ ان کے حلق میں اٹک گئے۔ کچھ لمحے خاموشی میں بیت گئے،پھر وہ دھیمے مگر سخت لہجے میں بولے۔
”سر، آپ کیا آرڈر کریں گے؟ہاٹ یا کولڈ بیوریجز؟“۔عین اسی لمحے ایک ویٹر ان کے قریب آیا۔
“One simple tea and one mint and lemon tea.”
فاز نے ایک نظر ان پر ڈالی اور پھر آرڈر دیا۔
ویٹر اثبات میں سر ہلا کر چلا گیا۔ کمال مصطفیٰ اپنی جگہ ٹھر سے گئے۔حیرانی سے فاز کو دیکھا،یہ کیسے ممکن تھا؟ ان کی پسندیدہ چائے صرف دو لوگ جانتے تھے۔تو پھر فاز کو کیسے معلوم تھا؟
”میں سب کچھ جانتا ہوں“۔فاز نے ان کی آنکھوں میں موجود سوال پڑھ لیا اور ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔یہ سن کر کمال مصطفیٰ نے کندھے ڈھیلے چھوڑ دیے۔
”آپ میرے ساتھ تعاون کریں،مسٹر کمال،یہ ہم تینوں کے لیے بہتر ہوگا“۔فاز کے لہجے میں کوئی التجا نہیں تھی،بس ایک حتمی فیصلہ تھا۔
”فاطمہ ٹھیک کہتی ہے،تم گینگسٹر نہیں لگتے“۔کمال مصطفیٰ کے لبوں سے بے ساختہ نکل گیا۔
”فاطمہ نے آپ سے ایسا کہا؟“۔فاز یہ جملہ سنتے ہی دھیرے سے ہنس دیا۔آنکھوں میں نیلی آنکھوں والی لڑکی کا عکس جھلکا۔
۔”تم نے مجھ سے وہ سوال کیوں کیا؟“۔کمال مصطفیٰ نے بالآخر سنجیدگی سے استفار کیا۔
”کیونکہ آپ کی ساری الجھنیں وہیں سے سلجھنا شروع ہوں گی“۔فاز کی آنکھوں میں ایک تیز چمک ابھری۔محیط کا شور، قہقہے، چمچوں اور پلیٹوں کی آوازیں،سب پس منظر میں دب چکے تھے۔
”میں اس کے دل میں سگے سوتیلے کی برائی نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔وہ سب فاطمہ سے محبت کرتے ہیں،اور میرا بھی ان سے کبھی سوتیلے والا تعلق نہیں رہا“۔
ویٹر نے ان دونوں کے سامنے ان کی چائے رکھ دی۔
”آپ نے کب دیکھا کہ وہ فاطمہ سے محبت کرتے ہیں؟ بمشکل ایک آدھا گھنٹہ؟ان کے ساتھ تو پورا دن فاطمہ گزارتی تھیں۔کیا آپ نے فاطمہ سے کبھی پوچھا کہ وہ ان کے ساتھ کیسا محسوس کرتی ہیں؟“۔ان کی آنکھوں میں دیکھتے وہ جو سوال کررہا تھا وہ کمال مصطفیٰ کو مزید الجھا رہے تھے۔انھیں فاطمہ کی باتیں یاد آرہی تھیں۔
”تم میرے گھر والوں کے بارے میں اس طرح بات نہیں کر سکتے“۔اندر کے شور کو دباتے ہوئے وہ سختی سے اسے ٹوکے۔فاز پیچھے ہوتا مسکرادیا۔
”کم آن،کمال صاحب۔آپ کے گھر والوں میں سب سے اہم فاطمہ ہے،اور وہی آپ کی فیملی ممبر ہے۔آپ کو لگتا ہے کہ میں نے فاطمہ سے زبردستی شادی کی؟“۔وہ ایک لمحہ کے لیے رکا۔کمال مصطفیٰ کو غور سے دیکھا۔جن کی رنگت تبدیل ہورہی تھی۔
”نہیں،کمال صاحب،آپ کے گھر والے تو انھیں ایک بوجھ سمجھ کر سر سے اتارنا چاہتے تھے۔کون اپنی بیٹی کو ایک گینگسٹر کے ساتھ بیاہ دیتا ہے؟چاہے جن حالات میں بھی نکاح ہوا ہو،آپ کے پیارے گھر والوں نے تو ان کے سر پہ ہاتھ تک نہیں رکھا۔اور وہ مصطفیٰ مینشن کی سربراہ سکینہ بیگم؟“۔فاز نے ان کا نام لیتے ہی طنزیہ مسکراہٹ سجا لی۔وہ کمال مصطفیٰ کو ان حقیقت سے روشناس کروارہا تھا جو بہت بھیانک تھی۔کم از کم کمال مصطفیٰ کے لیے تو۔
”بکواس بند کرو۔تم میری ماں کا ذکر اس طرح نہیں کر سکتے۔اپنی لمٹ میں رہو“۔کمال مصطفیٰ غصے سے غرائے۔چائے ٹھنڈی ہوگئی تھی۔ان چھوئی۔فاز نے چائے کا کپ پرے کیا اور سکون سے کھڑا ہو گیا۔
”ماں؟جنہوں نے مجھے خود فون کر کے کہا تھا، آؤ اور اس منحوس لڑکی کو نکاح کرکے لے جاؤ؟بنا یہ جانے کہ میں کون ہوں، کیا ہوں؟“۔یہ الفاظ ایک زلزلے کی مانند ان کے اندر گونج رہے تھے۔کمال مصطفیٰ بےیقینی سے اسے دیکھ رہے تھے۔کیا سکینہ بیگم ایسا کرسکتی تھیں؟
”اور آپ کیسے باپ تھے؟ادھر انھوں نے کہا میں تمہاری بیٹی کا نکاح کررہی ہوں اور آپ نے انھیں کرنے دیا؟اپنی غیر موجودگی میں آپ اس بات کی اجازت کیسے دے سکتے تھے؟آج کے لیے اتنا کافی ہے۔فاطمہ سے ملاقات آپ تب ہی کر سکتے ہیں جب آپ یہ سب جان لیں اور قبول کرلیں“۔یہ کہہ کر فاز میز سے ہٹ گیا۔کمال مصطفیٰ وہیں ساکت بیٹھے رہ گئے۔
لان میں رات کے کھانے کے بعد ہوا خوشگوار ہو چکی تھی۔ اے آئی ٹہلتے ہوئے کبھی آسمان کی طرف دیکھتا تو کبھی قدموں کی چاپ سنتا۔چاند کی چاندنی گھاس پر بکھری تھی،ہوا کے ہلکے جھونکے درختوں کے پتوں میں سرگوشیاں کر رہے تھے۔
”مجھے یاد کر رہے تھے تم؟“۔اچانک، ایک مانوس سی آواز نے اسے چونکا دیا۔
اے آئی کے قدم رک گئے۔اس کی پیشانی پہ شکن ابھری۔اس نے گردن گھما کر ارد گرد دیکھا،مگر کوئی نظر نہیں آیا۔پل بھر کو خاموشی چھا گئی۔پھر جیسے کسی خیال کے تحت اس نے سر اٹھا کر چھجے کی طرف دیکھا،اور اس کے چہرے کے زاویے بگڑ گئے۔اوپر چھجے پر ایک سایہ تھا۔وہاں کھڑا نیچے جھانک رہا تھا۔ہلکی روشنی میں چمکتی آنکھیں،ہونٹوں پر شرارتی مسکان تھی۔
”مراد؟“۔اس کے لہجے میں حیرت اور خفگی دونوں تھیں۔”کیا کر رہے ہو تم یہاں؟“۔اے آئی نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
مراد نے محض مسکرا کر جواب دیا،پھر ایک ماہر جمپ کے ساتھ نیچے اترا۔اس کی لینڈنگ بےحد پرفیکٹ تھی۔
”اطلاع ملی تھی کہ تم مجھے یاد کر رہے ہو“۔ہاتھ جھاڑتے ہوئے وہ سیدھا ہوا اور شرارت سے گویا ہوا۔
اے آئی نے گہری سانس لی، جیسے خود کو صبر کی تلقین کر رہا ہو۔پھر،جیسے کچھ سوچ کر لان کے ایک گوشے میں لگے لکڑی کے بینچ کی طرف اشارہ کیا۔
”آؤ، اس طرف چلتے ہیں“۔مراد نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا اور اس کے ساتھ چلنے لگا۔
”تم سیدھے طریقے سے نہیں آ سکتے تھے؟“۔جیسے ہی وہ دونوں بیٹھے، اے آئی نے گھورتے ہوئے سوال کیا۔
”سر نے کہا تھا کہ اسی طرح جا کر تم سے ملاقات کرنی ہے“۔مراد نے لبوں پر ہنسی دبائی اور کندھے اچکا کر کہا۔
”ایک تو تم اور تمہارے سر!ویسے،وہ خود ہے کہاں؟“۔اے آئی نے تاسف سے کہتا سر پیچھے جھکا کر آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔
”وہ ایک میٹنگ میں مصروف ہیں“۔مراد نے ذرا مسکین سا منہ بنایا۔جیسے وہ کچھ چھپانا چاہ رہا ہو۔پھر دھیمی آواز میں بولا۔یہ سنتے ہی اے آئی سیدھا ہوا،چہرے پر اچانک شرارتی چمک آ گئی۔
”اوہ! تو سسر جی سے ملاقات ہو رہی ہے؟“۔اس کے ہونٹوں پر شریر مسکراہٹ تھی۔مراد ہنس دیا۔
”سر کو تنگ مت کرنا ورنہ گردن مڑور دینی ہے میری۔سر نے خاص تاکید کی تھی کہ تمہیں نہ بتاؤں“۔۔مراد مصنوعی سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے بولا۔
”تنگ نہ کروں؟ابھی تو مزہ آنے لگا ہے!فاطمہ کے آنے سے بندہ اتنا چینج ہو رہا ہے۔اتنا زبردست موقع ہاتھ سے جانے دے دوں؟“۔۔اے آئی نے قہقہہ لگایا،پھر آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔فاز کے لیے اس کے لہجے میں محبت صاف محسوس کی جاسکتی تھی۔
”مراد، تمہیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔خیر،ابھی تو گھر پر کوئی نہیں ہے، لیکن پھر بھی…“۔اے آئی اچانک متفکر ہو گیا۔
”ڈونٹ وری! میں اتنے دنوں سے غائب تھا کیونکہ سر نے مجھے ایک خاص کام پر لگایا ہوا تھا“۔۔مراد نے اطمینان سے کندھے جھٹکے اور اعتماد سے کہا۔
”کیا؟“۔ اے آئی نے بھنویں اٹھائیں۔
”اس گھر کے مالک کا اعتماد حاصل کرنے کا۔اور میں اس میں کامیاب ہو چکا ہوں“۔۔یہ کہتے ہی مراد نے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھا۔اے آئی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
”مراد… مطلب تم… اوہ مائی گاڈ… فاز عالم واقعی سمجھ سے باہر ہے“۔وہ بے ساختہ ہنسا۔
”ہم اپنے مشن کے بےحد قریب ہیں“۔مراد نے پُراعتمادی سے اسے دیکھا۔اے آئی کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔آسمان پر چمکتے ستارے بھی جیسے اس راز کو جان کر مزید چمک اٹھے تھے۔
صبح کی روشنی دھیرے دھیرے کھڑکیوں سے اندر آ رہی تھی۔ڈائننگ ٹیبل پر ہر چیز ترتیب سے رکھی تھی۔گرما گرم پراٹھے کی خوشبو فضا میں گھلی ہوئی تھی،جیم کی مٹھاس،چائے سے اٹھتی بھاپ،تلے اور ابلے ہوئے انڈے کی مدھم سی مہک ہلکی سی حرارت کے ساتھ فضا میں تحلیل ہورہی تھی۔مگر فاطمہ کا دھیان کسی اور طرف تھا۔وہ میز پر رکھی پلیٹ کو نظر انداز کیے،سامنے بیٹھے فاز کو گھور رہی تھی۔جو خلاف توقع آج گھر پہ تھا اور پرسکون انداز میں ناشتہ کررہا تھا۔دوسری طرف فاطمہ کی پلیٹ خالی تھی۔وہ چمچ ہاتھ میں لیے بیٹھی تھی۔
”بابا پاکستان آگئے ہیں، تم ہمیں ملنے کیوں نہیں دے رہے؟“۔فاطمہ نے غصے میں آ کر ایک گہری سانس لی اور پھر بے چینی سے بولی۔
”ناشتہ کریں،پھر بات ہوگی“۔فاز نے پراٹھا توڑ کر چائے میں ڈبویا،پھر سکون سے منہ میں رکھتے ہوئے چبایا۔
”مجھے کچھ نہیں کھانا،بس تم میری بات کا جواب دو“۔۔اس نے چمچ پلیٹ میں رکھ دیا۔پٹخنا کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔پلیٹ اور چمچ کے ٹکرانے کی آواز اس سکون بھری خاموشی میں خلل ڈال گئی۔
”لیکن مجھے کھانا ہے۔اور میں کھانے کے دوران گفتگو پسند نہیں کرتا“۔۔اس نے نرمی مگر قطعی انداز میں جواب دیا۔پراٹھے ایک اور توڑ کر اب کی بار تلے ہوئے انڈے کے ساتھ کھایا۔
”تم ہمیشہ اپنی مرضی کرتے ہو“۔۔اس نے تلملاتے ہوئے ابلا ہوا انڈہ اپنی پلیٹ میں رکھا۔اور چھڑی کانٹے سے کھانے لگی۔فاز نے لمحہ بھر کو نظریں اُٹھا کر اسے دیکھا۔پھر نرمی سے سر جھٹک دیا۔دل و دماغ میں خیال سا ابھرا ‘برگر بچے’۔
فاز کا تعلق اعلیٰ خاندان سے تھا،مگر اس کی روایات میں وہ سادگی تھی جو عرصے سے چل رہی تھی،اور جو اسلامی طریقوں سے ہم آہنگ تھی۔وہ کبھی بھی چمچوں سے کھانے کے بجائے ہاتھ سے کھانے کو ترجیح دیتا تھا،کیونکہ ہاتھ سے کھانے جو راحت ملتی ہے وہ چمچوں کانٹوں میں نہیں۔ ناشتہ مکمل کرتے ہی وہ کرسی پیچھے سرکاتا اٹھ کھڑا ہوا۔فاطمہ نے بھی جھٹکے سے پلیٹ کھسکائی اور اس کے پیچھے کھڑی ہوگئی۔فاز نے پلیٹ پر نظر ڈالی تو ادھ کھایا انڈہ دیکھا،جو اُس نے درمیان میں چھوڑ دیا تھا۔
”کسی نے مجھ سے بہت بحث کی تھی حلال و حرام پر،اور پھر یہ بھی کہا تھا کہ میں بہت گناہ گار ہوں۔خود کو انھوں نے صوم و صلوٰۃ کی پابند بھی مانا تھا،لیکن شاید انھیں نہیں معلوم تھا کہ رزق ضائع نہیں کرتے“۔دھیمی آواز میں وہ سنجیدگی سے بول رہا تھا،نظریں پلیٹ پر جمائے ہوئے۔فاطمہ کا دل ایک لمحے کے لیے رک سا گیا۔
”زیادہ اترانے کی ضرورت نہیں ہے،سمجھے؟میں ناشتہ تم سے بات کرنے کے بعد ٹھیک سے کروں گی۔مجھ پر سوال مت اٹھانا آئندہ“۔۔فاطمہ کا چہرہ تپ گیا۔لیکن اندر کہیں وہ شرمندہ ہوئی تھی۔کیونکہ اس کا دوبارہ ناشتہ کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔اس کی بات پر فاز نے ایک نظر اس پر ڈالی،پھر بنا کچھ کہے آگے بڑھ گیا۔
”کیا مسئلہ ہے؟تم میری بات سنتے کیوں نہیں؟“۔اس کے پیچھے لپکی،اسٹڈی کے دروازے کو تیزی سے کھولا اور اندر داخل ہو گئی۔فاز ابھی تک اپنی چیزیں اٹھا رہا تھا۔
”کب سے آپ کی ہی تو سن رہا ہوں“۔وہ بڑبڑایا،اور ایک دراز سے باکس نکالتے ہوئے سیدھا کھڑا ہوا۔
”آپ کے والد آپ سے ایک دو دن میں خود آ کر مل لیں گے“۔اسے دیکھ کر کہا،پھر ایک نظر اس پر ڈالی اور لیپ ٹاپ اُٹھا کر بیگ میں ڈالنے لگا۔فاطمہ نے اس کی بات پر سکون محسوس کیا۔ اسے کوئی مسئلہ نہیں تھا بابا کے آنے سے،اور اب وہ انہیں یہاں آنے کا کہے گی۔
”فاریہ ہاشم مجھ سے ملنا چاہتی ہے“۔فاطمہ نے کچھ دیر خاموش کھڑے رہنے کے بعد یہ بات کی۔
”آپ سے؟ کیوں؟“۔فاز چونک کر اس کی طرف مڑا، پھر سوال کیا۔
”پتہ نہیں،کل رات میں اس کی کال آئی تھی،بس یہی کہا کہ مجھ سے ملنا چاہتی ہے“۔فاطمہ نے کندھے اُچکائے،گویا اسے اس بات کا کوئی علم نہ تھا۔
”اوہ ہاں،فاریہ نے مجھ سے نمبر لیا تھا،لیکن یہ نہیں بتایا کہ آپ سے ملنا ہے۔خیر آپ انھیں یہاں آنے کا کہ دیے گا۔میں ایڈریس سینڈ کردوں گا“۔فاز نے اسے بتایا،اور پھر فاطمہ سر ہلاتی ہوئی چلی گئی۔
اس کے جاتے ہی فاز نے باکس کھولتے ہی اندر سے ایک ہائپر-رئیلسٹک پروستھیٹک ماسک نکالا اور آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر چہرے پر جمایا۔ماسک فوری طور پر جلد میں گھل گیا۔کوئی جوڑ یا لائن دکھائی نہ دی۔اگلے ہی لمحے،اس کے چہرے کی رنگت بدل گئی تھی۔وہی نقوش،مگر ہلکی سنہری جھلک کے ساتھ،جیسے روشنی کے زاویے نے اسے مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہو۔کوئی بھی اسے چھو کر محسوس نہیں کرسکتا تھا یہ مصنوعی جلد ہے۔بھوری آنکھیں لینز کے پیچھے چھپ گئیں،اور ایک لمحے میں وائے ڈی سے بدل کر وہ دوسرے شخص کا روپ اختیار کر چکا تھا۔اب وہ کوئی اور تھا۔نہ ہی فاز عالم اور نہ وائے ڈی۔یہ وہ فاز تھا جو باہر نکل کر اپنے آپ کو ایک الگ شخص کے روپ میں ڈھال لیتا تھا تاکہ کوئی اس کے گھر تک نہ پہنچ سکے۔
وہ گھر سے نکلتے ہی ہجوم میں تحلیل ہوگیا۔لوگ سمجھتے تھے کہ اس کی زندگی آسان ہے،مگر حقیقت میں یہ سب کرنا کسی جنگ سے کم نہ تھا۔آج بھی،اس نے احتیاط سے وہی پرانا راستہ اپنایا۔رش والی جگہ پر پہنچ کر بھیڑ میں گم ہو جانا،پھر سنسان گلی میں جا کر گاڑی میں بیٹھنا،جہاں مراد اس کا انتظار کررہا ہوتا تھا۔اور آخر میں، گاڑی کے اندر دوبارہ روپ بدل کر وہی وائے ڈی کا ناقابلِ شناخت چہرہ اختیار کر لیتا۔اب وہ مینشن جانے کے لیے تیار تھا، مگر اس کی اصل پہچان ہمیشہ کی طرح پردے میں رہنے والی تھی۔اور اب وہ وائے ڈی بن کر مینشن جانے کے لیے تیار تھا۔اس احتیاط کا واحد مقصد فاطمہ کی حفاظت تھا۔وہ اکیلا ہوتا تو اسے دشمنوں کا کوئی ڈر نہ ہوتا۔وہ اب اس دنیا میں داخل ہوچکا تھا۔جہاں فاز کی نہیں صرف مسٹر عالم عرف وائے ڈی کی پہچان تھی۔
ماریہ ابراہیم دادی سکینہ کے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ چائے پیتے ہوئے وہ اپنا موبائل وہیں بھول آئی تھی۔اب لینے جا رہی تھی۔دروازے کے قریب پہنچ کر وہ ٹھٹکی۔ہلکی مگر دبیز سرگوشیاں سنائی دے رہی تھیں۔لبوں میں دبی باتیں، جن کے الفاظ تو مکمل سنائی نہیں دے رہے تھے۔اس نے دروازہ کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا،مگر انگلیاں ہوا میں ہی معلق رہ گئیں آنکھیں بےیقینی سے پھیلیں،دل کی دھڑکن جیسے سینے کی دیواروں سے سر ٹکرانے لگی۔
اور پھر…
جو الفاظ کانوں میں اترے، انھوں نے اندر کچھ ٹوٹنے کی آواز پیدا کر دی۔قدم پیچھے ہٹے،دل نے جیسے اعتراف سے انکار کر دیا۔ مگر جو سچ وہ سن چکی تھی،اس سے مفر ممکن نہ تھا۔آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے،گھبراہٹ میں اس نے ایک نظر دروازے پر ڈالی،پھر تیزی سے پلٹی اور لرزتے قدموں کے ساتھ دوڑتی ہوئی راہداری پار کرنے لگی۔فاطمہ کے پورشن تک پہنچتے پہنچتے سانسیں بوجھل ہو چکی تھیں۔مگر عین دروازے سے پہلے،ایک اور کمرے کا دروازہ نیم وا تھا۔ماریہ نے بےاختیار اندر جھانکا اور بنا سوچے دستک دیے بغیر اندر چلی آئی۔کمال مصطفیٰ لیپ ٹاپ پر جھکے تھے۔ جیسے ہی انھوں نے اسے اس حالت میں دیکھا، پریشانی سے فوراً کھڑے ہوگئے۔
”بیٹا؟ خیریت؟“۔وہ حیران تھے،مگر ان کی آواز میں بے ساختہ نرمی تھی۔ماریہ نے کوئی جواب نہ دیا،بس تڑپ کر آگے بڑھی اور ان کے سینے سے جا لگی۔
”بڑے تایا“۔اس کی ہچکیاں ماحول میں پگھلنے لگیں۔کمال مصطفیٰ نے نرم ہاتھوں سے اس کے سر پر شفقت بھری تھپکی دی،اسے نرمی سے تھاما اور صوفے پر بٹھایا۔
”بیٹا،کسی نے کچھ کہا؟کسی نے ڈانٹا ہے کیا؟“۔انھوں نے جلدی سے جگ سے پانی نکالا اور اس کے لرزتے ہاتھوں میں تھمایا۔ماریہ نے دو گھونٹ لیے، پھر گلاس لرزتے ہاتھوں سے پرے رکھ دیا۔
”بڑے تایا، مجھے کچھ بتانا ہے…“۔
”کہو بیٹا کیا بتانا ہے؟“۔کمال مصطفیٰ قریب آ بیٹھے۔ان کی آنکھوں میں تشویش کے سائے تھے،مگر لہجہ اب بھی وہی مہربان۔
ماریہ نے پل بھر کو دروازے کی طرف نظر دوڑائی،جیسے یقین کر رہی ہو کہ کوئی اور تو نہیں۔پھر نظریں جھکائیں، لب کانپے،اور وہ دھیرے دھیرے ان سچائیوں سے پردہ اٹھانے لگی،جو برسوں سے خاموشی کے گہرے پردوں میں دفن تھیں۔
یہ رات صرف آنسو بہانے کی نہیں تھی،یہ رات آگاہی کی تھی۔یہ رات ان بھیدوں کے آشکار ہونے کی تھی جنھیں ہمیشہ چھپایا گیا تھا۔