ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دادی سکینہ نے گردن سیدھی کی، آنکھوں میں وہی ٹھہراؤ مگر لہجے میں سختی در آئی تھی۔
”کمال آ گیا ہے، اب سب ہوشیار رہو۔اسے ایک لفظ کا بھی اندازہ نہیں ہونا چاہیے“۔ان کی نظریں سامنے بیٹھے افراد پر گڑی تھیں۔بڑی تائی کا دل بےچینی سے دھڑک اٹھا۔وہ گھبرا کر آگے کو جھکیں۔
”اگر فاطمہ نے ان سے رابطہ کر لیا؟اور اگر….اگر وہ سچ کہہ بیٹھی کہ یہ نکاح ہم نے زبردستی کروایا ہے؟“۔ان کے چہرے پر خوف کی لکیر ابھری۔وہ جانتی تھیں،اس گھر کی باگ ڈور کمال مصطفیٰ کے ہاتھ میں ہے۔اگر وہ ان سب سے متنفر ہو گئے تو ان کا کیا بنے گا؟
”کمال کو مجھ پر پورا یقین ہے۔میں نے اسے یہی بتایا تھا کہ وہ خود اس لڑکے کے گھر گئی تھی،اور جب واپس آئی، تو اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے اسی سے نکاح کرنے کی ضد پر اڑ گئی“۔دادی سکینہ نے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ سجا لی،ایک ایسی مسکراہٹ جو اعتماد سے لبریز تھی۔
”کمال ایک غیرت مند باپ ہے،وہ کبھی پلٹ کر اس کی طرف نہیں دیکھے گا“۔انہوں نے ٹھہر کر ان سب کی طرف نگاہ دوڑائی،پھر سنجیدگی سے بولیں۔کمرے میں پل بھر کے لیے خاموشی پھیل گئی۔
”اماں، ہمارا مقصد فاطمہ سے جان چھڑانا تھا،وہ تو ہو چکا۔ اب کاغذات کب لیں گی کمال سے؟“۔علی تایا بےصبری سے آگے کو جھکے،ان کی آنکھوں میں لالچ چمک رہا تھا۔ابراہیم چچا نے بھی اثبات میں سر ہلایا۔دونوں کی نظریں دادی سکینہ پر تھیں۔
”صبر رکھو،تمہاری اماں کاغذات بھی لے لے گی۔یہ سب کچھ تم لوگوں کا ہی ہے“۔ان کے لہجے میں یقین تھا۔فاطمہ کمال انھیں پسند تو شروع سے نہیں تھی۔لیکن کھٹکنے تب سے لگی،جب وہ کمال مصطفیٰ سے کہ کر ‘ناز ہسپتال’ کی بنیاد رکھائی تھی۔اور اب اس پورے ہسپتال پر ملکیت صرف فاطمہ کمال کی تھی۔
ان کا ذہن کسی اور زمانے میں جا چکا تھا،جہاں ماضی کی تلخ یادیں ابھی بھی جل رہی تھیں۔وہ زخم،جو وقت کے ساتھ بھرنے کے بجائے مزید گہرے ہو گئے تھے۔اور انہی زخموں کی آگ میں وہ ہر رکاوٹ،ہر شخص کو جلا کر راکھ کرنے کے لیے تیار بیٹھی تھیں۔
رات کی گہری خاموشی میں سچائی کی چیخیں دب نہ سکیں۔کمرے کی مدھم روشنی میں ماریہ ابراہیم کی بےچین آنکھیں،دکھ کے رنگ لیے کمال مصطفیٰ کو دیکھ رہی تھیں۔ وہ شخص،جو ہمیشہ وقار اور ٹھہراؤ کا مجسمہ تھا،آج ٹوٹا ہوا لگ رہا تھا۔
”فاطمہ اس شخص کے گھر کیوں گئی تھی؟“۔ان کے سرد، خالی لہجے میں ضبط چھلک رہا تھا۔سرخ آنکھوں میں وہ درد تھا جو کئی سالوں کے بھروسے کے ٹوٹنے سے پیدا ہوتا ہے۔
”اسے لگا کہ احسن کو اغوا اس غنڈے نے کیا ہے۔ وہ احسن کی محبت میں وہاں گئی تھی، تاکہ وہ اسے چھوڑ دے“۔ماریہ نے بھیگی آنکھوں سے سانس بھری، پھر دھیرے سے کہا۔کمال مصطفیٰ نے بےیقینی سے سر جھکایا، جیسے خود کو کوس رہے ہوں،فاطمہ کی ان سنی صداؤں کو پھر سے سننے کی کوشش کر رہے تھے جنہیں انہوں نے ہمیشہ نظر انداز کیا۔
”میری بیٹی…بہت حساس ہے،محبت کرنے والی اپنی ماں کی طرح..میری ناز کی طرح…اور میں نے اسے اکیلا چھوڑ دیا۔میں جس کے لیے دن رات محنت کر رہا تھا،اسے اصل خوشی دینا ہی بھول گیا۔اسے منافقوں کے بیچ چھوڑ دیا“۔الفاظ جیسے کسی گہری کھائی میں گر رہے تھے۔ان کے وجود میں برسوں پرانی محبت، عقیدت، اور بھروسے کا ملبہ گر رہا تھا۔
”اماں نے میری محبت کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔میری خالص محبت کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا۔مجھے دھوکہ دیا۔ میری بیٹی کو دکھ دیاذ“۔کمرے کی دیواریں اس دھڑکتے سناٹے میں ان کے ٹوٹنے کی گواہ بن رہی تھیں۔ماریہ کا دل کٹ کر رہ گیا تھا۔وہ ہمیشہ اپنے بڑے تایا کو پُر رعب،باوقار اور مضبوط دیکھنے کی عادی تھی،مگر آج وہ شخص سامنے بیٹھا بچوں کی طرح رو رہا تھا۔
”میں نے ہمیشہ ان کی سنی۔میری بیٹی کہتی رہی،لیکن میں…“۔وہ پلکیں جھپکنے لگے، جیسے آنکھوں میں جمتے آنسوؤں کو روکنے کی ناکام کوشش کر رہے ہوں۔”میں ہمیشہ اماں پر یقین کرتا رہا۔مائیں بچوں کے ساتھ ایسا نہیں کرتیں ناں؟ماں تو ماں ہوتی ہے…اپنی ہو یا کسی اور کی“۔۔ان کا کرب ان کے ہر انداز سے عیاں تھا۔
”لیکن انھوں نے مجھے بتا دیا…ہر کسی پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے“۔۔ان کے لہجے میں جو شکست تھی،وہ کسی ہارے ہوئے سپاہی کی طرح لگ رہی تھی، جسے اپنے قلعے کے اندر سے ہی زخم دیے گئے تھے۔
”تایا، پلیز…آپ کی طبعیت خراب ہو جائے گی۔ابھی فاطمہ کو آپ ہی نے سنبھالنا ہے۔آپ کو مضبوط رہنا ہوگا۔فاطمہ کو واپس لانے کے لیے“۔۔ماریہ کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا تھا۔وہ آگے بڑھی،التجائیہ لہجے میں بولی۔کمال مصطفیٰ نے اس کی طرف دیکھا،اس کا چہرہ آنسوؤں میں بھیگا ہوا تھا،مگر نظر میں سچائی تھی۔
”اللہ پاک تمہیں بہت خوشیاں دے،بیٹی۔تمہیں بالکل اپنے جیسا خالص دل کا ساتھی عطا کرے“۔۔انہوں نے دھیرے سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔
”آمین“۔ماریہ نے آنکھیں بند کر کے دل سے دعا مانگی۔ایک چہرہ ذہن میں جھلملایا،مگر وہ سوچوں کو جھٹک گئی۔
”اب جاؤ، اور کسی سے اس بارے میں مت کہنا“۔
”اگر آپ کو کچھ چاہیے ہو تو مجھے بلا لیجیے گا“۔ماریہ سر ہلاتے ہوئے اٹھی۔وہ دروازہ بند کر کے باہر نکل گئی،مگر کمرے میں اداسی کا سایہ باقی رہا۔
کمال مصطفیٰ نے سر صوفے کی پشت سے ٹکا دیا،نظریں چھت پر جما دیں،جیسے کسی نادیدہ نقطے کو گھور رہے ہوں۔
”میں نے ہمیشہ آپ کو اپنی اماں سمجھا۔وہی عزت،وہی محبت دی۔خود سے بڑھ کر عزیز جانا۔اپنی بیٹی آپ کے سپرد کی… لیکن آپ نے کیا کیا؟“۔آنسو بے آواز بہہ رہے تھے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
”کمال۔۔۔میرے بچے۔۔۔دیکھو کیا ہوگیا ہمارے ساتھ؟“۔۔
”اماں کیا ہوا ہے؟آپ کیوں رو رہی ہیں؟“۔.
”کمال سب ختم سب برباد ہوگیا سالوں کی عزت مٹی میں مل گئی“۔۔
”اماں کچھ تو بتائیں؟“۔.
”میں فاطمہ کا ٹھیک سے دھیان نہ رکھ سکی۔۔ٹھیک کہتے ہیں ماں ہی بچوں کو سنبھال سکتی ہے۔۔میری ہی غلطی ہے۔۔میری وجہ سے سب ہوا ہے“۔۔
”اماں خدارا بتائیں بات کیا ہے؟“۔
”فاطمہ یونیورسٹی میں کسی کو پسند کرتی ہے۔۔وہ بغیر بتائے آج اس کے گھر چلی گئی۔وہاں سے لوٹی ہے تو صرف ایک ہی تکرار کیے جارہی کہ ابھی اس سے نکاح کرے گی“۔۔
”کیا اماں؟ایسے کیسے ہوسکتا ہے؟“۔۔
”مجھے معاف کردو کمال۔۔مجھے معاف کردو۔۔میں تمہاری بیٹی کا خیال نہیں رکھ سکی۔۔سب میری ہی غلطی ہے“۔۔
”اماں آپ معافی مت مانگیں۔بتائیں اماں اب میں کیا کروں؟“۔۔
”کمال ابھی کسی کو کچھ نہیں معلوم۔۔مزید بدنامی سے بہتر ہے اس کا نکاح کردیا جائے ابھی“۔۔۔
”لیکن اماں میں اتنے جلدی تو نہیں آسکتا“۔۔
”کمال بچے دیکھ لو“۔۔وہ پھر سے رونے لگی۔
”اچھا اماں آپ روئیں نہیں۔جو بہتر سمجھیں وہ کریں“۔۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
”کس جائیداد کے لیے آپ اتنا گر گئیں،اماں؟سب کچھ تو آپ کا ہی تھا۔آپ کے نام تھا…“۔ان کی آواز درد سے بھری ہوئی تھی۔
”بیٹیوں کے معاملے میں کسی پر بھی بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی میں آپ پر بھروسہ کرگیا اماں“۔۔
”رشتے اہم ہوتے ہیں۔ان کے ساتھ گزارے گئے پل انمول ہوتے ہیں۔میں دن رات پیسہ کمانے میں لگ گیا۔مجھے اپنی بیٹی کے ساتھ وقت گزارنا چاہیے تھا۔یہ نام،شہرت،پیسہ کچھ نہیں۔یہ ساری کمائی گئی دولت کچھ نہیں۔میری اصل دولت تو میری بیٹی ہے۔جسے میں بھول گیا“۔۔اندھیرے کمرے میں ایک ٹوٹے ہوئے شخص کی سسکیاں گونج رہی تھیں۔
سچ یہی ہے کہ بیٹیوں کے معاملے میں کبھی کسی پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔کیونکہ دنیا کے سوداگر رشتوں کی بولیاں لگانے میں دیر نہیں کرتے۔جیسے ان کی اماں نے ان کی بیٹی کو انجان شخص کے ساتھ رخصت کردیا تھا۔
رات کی سیاہی ہر چیز کو دھیرے دھیرے اپنی آغوش میں لے رہی تھی۔فضا میں ایک غیر محسوس سی کشیدگی تھی۔ فاطمہ ماربل صاف کرتی ہوئی ہاجرہ کو کوارٹر میں بھیج دی اور خود جوسر لیتی شیک بنانے لگی تھی۔کاؤنٹر کے پار فاریہ ہاشم کھڑی تھی۔اس کی آنکھوں میں حسرت کی پرچھائیاں لرز رہی تھیں۔چہرہ تھکن اور دل شکستگی کا آئینہ تھا۔وہ آج کسی اور ہی کیفیت میں تھی۔دکھ،رنج،بے بسی سب کچھ اس کی آنکھوں میں تھا۔
”کتنے استحقاق سے تم اس کچن میں موجود ہو، نا؟ہر چیز اپنی مرضی سے استعمال کررہی ہو“۔اس نے ہاتھ کاؤنٹر پر رکھتے ہوئے تلخ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
فاطمہ نے جوس کا گلاس بھرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا مگر یہ جملہ سنتے ہی رک گئی۔
”یہ گھر فاز عالم نے بہت محنت سے بنایا ہے۔دن رات محنت کرکے۔ایک ایک اینٹ اپنی کمائی سے لگائی ہے۔اس میں صرف ان کے خوابوں کا رنگ ہے،کسی اور کی مداخلت نہیں۔انھیں اپنا ہر کام خود کرنے کی عادت ہے۔وہ کسی پر ڈیپینڈ ہونا پسند نہیں کرتے۔جانتی ہو؟آج تک انھوں نے یہ گھر کسی کو نہیں دکھایا تھا۔میں نے بھی بہت بار کہا کہ مجھے دکھائیں،لیکن نہیں…اور آج دیکھو،فاطمہ کمال،وہ تمہیں اس گھر میں لے آئے اور تم اس گھر کی مالکن بن چکی ہو“۔۔آخری جملے میں اذیت تھی۔فاطمہ نے الجھن سے فاریہ کو دیکھا،جو ہنسی تھی،مگر اس ہنسی میں تکلیف تھی۔
”تم مجھے ٹھیک نہیں لگ رہی“۔فاطمہ نے دھیرے سے کہا۔
”ہاں،میں ٹھیک نہیں ہوں۔میں نے انھیں اپنی دعاؤں میں مانگا تھا،فاطمہ،اور تمہیں..تمہیں وہ بن مانگے دے دیا گیا ہے۔وہ شادی نہیں کرنا چاہتے تھے۔کبھی بھی نہیں۔لیکن انھوں نے تم سے شادی کرلی“۔فاریہ کی آواز زخم خوردہ تھی۔وہ لڑکھڑاتے قدموں سے چلتی ہوئی صوفے پر بیٹھ گئی۔
”شادی نہیں کرنا چاہتے تھے؟“۔اس کے لبوں سے بےاختیار نکلا۔“تو پھر اس نے مجھ سے نکاح کیوں کیا؟“۔فاطمہ کو شاک لگا۔لیکن فاریہ ہاشم نے سنا ہی نہیں۔وہ اپنی کہتی گئی۔
”ایک بات بتاؤ؟وہ کم گو ہیں یا باتیں کرتے ہیں تمہارے ساتھ؟“۔۔فاریہ آنکھوں میں بہت سا کرب لیے اسے دیکھ رہی تھی۔
”کم گو تو نہیں ہے“۔۔اس کی نظریں اتنی خالی اور ویران تھیں کی فاطمہ کمال ہچکچا سی گئی۔۔
”مجھے پتہ تھا“۔فاریہ کی مسکراہٹ تلخ تھی۔”وہ کم گو ہی ہیں،مگر تمہارے ساتھ بالکل ایک الگ فاز عالم ہے۔وہ جانتے تھے کہ تم ہمارے گھر میں بالکل محفوظ ہو،مگر پھر بھی آدھی رات کو تمہیں لینے پہنچ گئے،صرف اس لیے کہ تم کمفرٹیبل نہیں تھی“۔۔فاطمہ کا دل زور سے دھڑکا۔وہ اس رات کی یاد میں کھو گئی جب فاز عالم اسے لینے آیا تھا۔
”کیا تم نے انھیں انزائیٹی میں دیکھا ہے کبھی؟آؤٹ آف کنٹرول ہوتے ہوئے،چیزیں توڑتے ہوئے؟“۔۔فاطمہ کے دل میں انجانا خوف ابھرا۔بمشکل نفی میں سر ہلایا۔۔
”دو تین ماہ میں وہ اس کیفیت سے گزرتے تھے۔وہ اینٹی ڈپریسنٹ نہیں لیتے تھے۔مگر اب جانتی ہو؟وہ antidepressants لینے لگے ہیں۔پہلے وہ کبھی کبھار اس کیفیت سے گزرتے تھے،مگر اب وہ خود کو سنبھالنے کے لیے دوا لینے لگے ہیں۔جانتی ہو کیوں؟صرف اس لیے کہ کہیں فاطمہ کمال خوفزدہ نہ ہو جائے۔ وہ پہلے ہی پریشان ہے،مزید پریشان نہ ہو جائے“۔۔فاطمہ کے ہاتھوں سے گلاس لرز گیا۔فاریہ روتے روتے ہنسنے لگی۔
”کتنا خیال کرتے ہیں وہ تمہارا۔میں نے ایسے ہی چاہا تھا کہ وہ میرا خیال کرے،مجھ سے بات کرے،مگر…“۔وہ ایک بار پھر روتے روتے ہنس دی۔اپنی لاحاصل خواہشات پر۔اپنی یکطرفہ محبت پر۔
”وہ antidepressants کیوں لیتا ہے؟“۔۔حلق تر کرتے ہوئے اس نے سوال کیا۔
”تم تو کچھ بھی نہیں جانتی،فاطمہ کمال۔فاز عالم نے زندگی میں بہت کچھ برداشت کیا ہے،ایسی چیزیں جن کا اندازہ تمہیں شاید کبھی نہ ہو۔لیکن دیکھو،وہ تمہاری خاطر خود کو بدل رہے ہیں۔تمہاری حفاظت کر رہے ہیں،تمہیں ہر خوف سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں“۔۔فاطمہ کے سینے پر عجیب بوجھ اترنے لگا تھا۔
”تم میں ایسا کیا ہے،فاطمہ کمال؟وہ جو شادی سے بھاگتا تھا،وہ تمہیں اپنا نام دے گیا؟میں نے ان سے محبت کی،بے پناہ محبت۔مگر وہ مجھے کیوں نہیں ملے؟ کیوں؟“۔
وہ اچانک فاطمہ کے قریب آئی۔فاطمہ فوراً سے پیچھے ہوئی۔فاریہ کی آواز میں شدت تھی۔آنکھیں ویران، چہرہ سوالات کی اذیت میں گھرا ہوا۔
”میرے پاس تمہارے سوالوں کا جواب نہیں ہے،فاریہ ہاشم“۔ فاطمہ کی آواز میں سختی آگئی تھی۔”اگر اتنا ہی جاننا ہے تو جا کر یہ سوال فاز عالم سے کرو کہ فاطمہ کمال میں ایسا کیا تھا،جس کی وجہ سے اس نے مجھ سے نکاح کیا“۔فاطمہ کے سخت لہجے نے لمحہ بھر کے لیے فاریہ کو خاموش کر دیا، مگر اس کی آنکھوں میں ہار نہیں تھی،بس بے بسی تھی۔
”مجھے فاز عالم چاہیے“۔ہر لفظ پر زور دیتے ہوئے اس نے کہا۔فاطمہ نے لمحہ بھر کو آنکھیں بند کیں۔پھر کھولیں۔
”جو چیزیں نصیب میں نہ ہوں،وہ کبھی نہیں ملتیں،فاریہ ہاشم۔چاہے انسان کتنا ہی بھاگ لے،رہتا خالی ہاتھ ہی ہے“۔
فاریہ جیسے اس جملے کے وار سے پیچھے ہٹ گئی۔چند لمحے خاموش رہی،پھر تیز قدموں سے دروازے کی طرف بڑھ گئی۔دروازہ بند ہونے کی آواز گونجی۔فاطمہ صوفے پر بیٹھ گئی۔اس نے گہری سانس لی،نظریں جوس کے گلاس پر جم گئیں۔
”یا اللہ، میں کہاں پھنس گئی ہوں؟“۔وہ خود سے بڑبڑائی اور گہری سانس بھرتی، گلاس لبوں سے لگا لیا۔
کمرے میں ہلکی روشنی تھی، مگر کشیدگی اتنی گہری کہ دیواریں بھی اس بوجھ تلے دبی محسوس ہو رہی تھیں۔ شاہد عباسی کی آنکھوں میں ایک وحشیانہ چمک تھی۔ان کے ہاتھ میں پسٹل تھی،جس کا رخ سیدھا فاخر کے سینے کی جانب تھا۔
”میں نے تمہیں وارننگ دی تھی، فاخر“۔شاہد کی آواز میں غرّاہٹ تھی۔”میرے معاملات سے دور رہو،لیکن تم نے وہ ہیروں کا بیگ کیسے غائب کروایا؟اور وہاں سے وہ لڑکیاں بھی غائب ہو گئیں،جن کی خبر صرف تمہیں تھی“۔۔شاہد عباسی نے ایک ہاتھ سے فاخر کی گردن کو شکنجے میں لیا۔
فاخر کی سانسیں تیز ہو گئیں،ماتھے پر شکنیں ابھر آئیں۔ ”تم پاگل ہو گئے ہو،شاہد! چھوڑو مجھے“۔انہوں نے خود کو چھڑانے کی کوشش کی،لیکن شاہد کی گرفت لوہے کی مانند سخت تھی۔
”جھوٹ مت بولو“۔شاہد عباسی کی گرجتی ہوئی آواز کمرے کی دیواروں سے ٹکرا کر گونجنے لگی۔فاخر کی آنکھوں میں ایک سرد حقارت ابھری۔
”میں نے کوئی بیگ غائب نہیں کروایا،شاہد۔اور اگر مجھے تم سے بدلہ لینا ہوتا،تو میں تمہارا ماضی سب کے سامنے لا کر لیتا…لیکن میں ولیم کے کسی کام کو نقصان نہیں پہنچا سکتا“۔ان کا لہجہ برف کی مانند سرد تھا۔شاہد کی آنکھیں دہکنے لگیں،ان کی گرفت اور سخت ہو گئی۔
”جھوٹ مت بولو“۔وہ ایک بار پھر دھاڑے،ان کے غصے میں بے بسی کی جھلک نمایاں تھی۔بیگ کی اہمیت ان کے لیے زندگی اور موت کے برابر تھی،اور وہ کسی قیمت پر اسے کھونا برداشت نہیں کر سکتے تھے۔
عین اسی لمحے دروازہ دھڑاک سے کھلا اور کمرے میں دھمک بھری آواز گونجی۔”شاہد، چھوڑو اسے“۔۔
حمید صاحب کمرے میں داخل ہوئے، ان کے چہرے پر شدید غصہ تھا۔وہ تیزی سے آگے بڑھے اور فاخر کو شاہد کی گرفت سے آزاد کروا لیا۔فاخر کی سانسیں اب بھی بے ترتیب تھیں، مگر چہرے پر بےخوفی کی جھلک تھی۔
”میں دیکھ رہا ہوں،شاہد،تم آج کل بہت عجیب برتاؤ کر رہے ہو“۔حمید صاحب کی آواز میں سنجیدگی تھی۔”فاخر میرے ساتھ تھا، وہ ایسا کچھ نہیں کر سکتا“۔
شاہد نے پسٹل آہستہ آہستہ نیچے کی اور پھر جھٹکے سے اپنی پینٹ کی جیب میں رکھ لی۔ان کے ماتھے پر پسینے کے قطرے چمکنے لگے۔”تو پھر کس نے کیا؟“۔ان کی آواز میں بےچینی تھی۔
”دشمن بہت اندر تک گھس چکا ہے، شاہد…“۔حمید صاحب کی نظریں گہری ہو گئیں۔وہ دھیمے لہجے میں بولے،مگر ان کے الفاظ میں ایک خطرناک یقین تھا۔کمرے میں سناٹا چھا گیا۔
فاز کی اسٹڈی میں نیم گرم روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ دیواروں سے لگی بھاری کتابوں کی الماریاں خاموشی سے اس مکالمے کی گواہ بن رہی تھیں جو ابھی ہونا باقی تھا۔ ایک بڑی لکڑی کی میز پر فائلز،لیپ ٹاپ اور کچھ بےترتیب کاغذات رکھے تھے،مگر سب سے نمایاں تھا وہ نیم پلیٹ،جو جگمگا رہی تھی۔فاز عالم۔اے آئی اسٹڈی میں بےفکری سے بیٹھا تھا،جیسے اسے کسی بات کی پرواہ ہی نہ ہو۔چِل پرسن!۔
”فاز،تقریباً سارے ثبوت ہمارے پاس آ گئے ہیں۔بس مین لاکر تک پہنچ جائیں اور ولیم کی ساری انفارمیشن لے لیں،تو یہ مشن مکمل ہو جائے گا“۔ہلکی سی سنجیدگی اس کے لہجے میں اتر آئی۔” پھر آگے تم نے کیا سوچا ہے؟“۔لیکن اگلے ہی لمحے وہ اپنے مخصوص شرارتی انداز میں بولا۔
فاز اپنی مخصوص سربراہی کرسی پر بیٹھا،سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔انگلیاں آپس میں الجھی ہوئی تھیں۔
”پہلے تو تم یہ بتاؤ، آج اپنے اصل روپ میں کیوں آئے ہو؟“۔اس نے گہری نظروں سے اسے دیکھا۔
”یار،مجھے اپنا اصل چہرہ اتنا پیارا لگتا ہے،اب بلاوجہ میں کیوں ماسک چڑھائے رکھوں؟“۔اے آئی نے ہنستے ہوئے کندھے اچکائے۔
”میں فاطمہ کی وجہ سے کہہ رہا ہوں“۔۔فاز کی نظریں اس پر جمی رہیں۔
”تم نے ہی تو کہا تھا وہ کمرے سے نہیں نکلتی،تو یہاں کیسے آئیں گی؟“۔اے آئی نے اچھنبے سے سوال کیا۔
فاز نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ دروازہ زوردار آواز کے ساتھ کھلا اور آتش فشاں بنی فاطمہ کمال اندر داخل ہوئی۔وہ دونوں بیک وقت کھڑے ہو گئے۔فاز نے لب بھینچ لیے،جبکہ اے آئی نے پریشانی سے فاز کو دیکھا۔
”اتنا بڑا دھوکہ؟“۔اس کی آواز میں کپکپاہٹ تھی اور آنکھیں غصے سے دہک رہی تھیں۔”ارمان شاہد،تم اس شخص کے ساتھ ملے ہوئے ہو؟صحیح کہتے تھے تایا اور چاچو،شاہد عباسی ایک برا شخص ہے۔اس سے اور اس کی فیملی سے میل ملاپ اچھا نہیں۔اور تم نے ہمیں بیوقوف بنایا۔تم ماریہ کو پاگل بنا رہے ہو“۔۔اس کی سانسیں بےترتیب ہوچکی تھیں۔اور آنکھوں میں بےیقینی کے سائے لرز رہے تھے۔وہ ہاتھ ہلاتے ہلاتے اونچی آواز میں بول رہی تھی۔
”فاطمہ،میں سب کلیئر کر دوں گا،میں…“۔ارمان نے کہنے کی کوشش کی،مگر اس سے پہلے ہی فاطمہ نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا۔
”آئی ڈونٹ نیڈ اینی ایکسپلینیشنز،ارمان شاہد“۔وہ غصے سے اس کے قریب آئی۔”فاطمہ کمال کہتی تھی وہ نظروں کو پہچاننا جانتی ہے،پھر کیوں ارمان شاہد،کیوں میں تمہاری آنکھوں میں موجود فریب نہیں دیکھ پائی؟“۔اس کی کرب زدہ ہنسی اسٹڈی میں گونجی۔فاز نے نظریں اس کے چہرے سے ہٹا لیں۔
”کیونکہ یہاں کوئی فریب نہیں تھا“۔ارمان نے اسے دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔
”بند کرو اپنا یہ ڈرامہ!خدا کے لیے بس کر دو!تم نے ثابت کر دیا،ارمان۔تمہاری رگوں میں شاہد عباسی کا خون دوڑتا ہے۔ میں نے تمہیں الگ سمجھا تھا،لیکن تم وہی نکلے۔تم اس غنڈے کے ساتھ ملے ہوئے تھے“۔۔نفرت سے اسے دیکھتے ہوئے وہ بلند آواز میں بول رہی تھی۔ارمان اس کے الفاظ پر لب بھینچ گیا۔ مٹھیاں اس نے زور سے بھینچ لیں۔فاز نے ایک گہری سانس کی اور آگے بڑھا۔
”فاطمہ کمال،آپ اپنی لمٹ کراس کر رہی ہیں۔میرے گھر میں آئے میرے مہمان کے ساتھ آپ اس طرح بات نہیں کر سکتیں“ ۔وہ بالکل اس کے سامنے آ کر رک گیا تھا۔رعب دار، مگر دھیمی آواز میں،جو ماحول پر چھا جانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔اس کی آنکھوں میں موجود ٹھہراؤ کسی کو بھی خاموش کرواسکتا تھا۔
”سیریسلی؟“۔فاطمہ نے نم آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا۔”اتنا سب کچھ ہو جانے کے باوجود تم مجھ سے یہ توقع کر رہے ہو کہ میں آرام سے بات کروں؟“۔اس کی مسکراہٹ میں استہزاء تھا۔فاز پہلو بدل کر رہ گیا۔اس نے ایسا نہیں چاہا تھا۔
”فاز عالم،میں فاطمہ کمال ہوں!میں دھوکے باز لوگوں کو یونہی نہیں چھوڑ سکتی“۔اس نے کاٹ دار نگاہ ارمان پر ڈالی،پھر فاز کی طرف دیکھا۔
”میں تمہارے ساتھ تین ماہ سے اس لیے ہوں کیونکہ یہ نکاح میری دادی نے کروایا تھا،میرے باپ کی اجازت سے۔اگر تم زبردستی کرتے،تو میں یا خود مر جاتی یا تمہیں مار دیتی۔ میں تم سے نکاح کرنے پر مجبور اس لیے تھی کیونکہ میرے گھر والوں نے مجھ پر اعتبار نہیں کیا۔ورنہ کوئی دوسری چیز مجھے تم سے نکاح پر مجبور نہیں کر سکتی تھی“۔۔زخمی نگاہیں،آنکھوں میں بےپناہ کرب لیے وہ اس کے جھکے سر کو دیکھی رہی تھی۔نیلے رنگ کے سوٹ میں وہ روئی روئی نیلی آنکھوں کے ساتھ بےپناہ حسین لگ رہی تھی،مگر یہاں اس حسن کی پرواہ کسے تھی؟۔فاز کی نظریں اس کے پاؤں پر تھیں۔
”آپ کو کچھ اور بھی کہنا ہے، یا ہو گیا؟“۔اس کے خاموش ہوتے ہی اس نے بہت ہی ٹھنڈے انداز میں پوچھا۔فاطمہ کمال کا منہ غصے کی زیادتی سے کھل گیا۔لب وا کیے،لیکن الفاظ نہ ملے۔
”تم نہایت بدتمیز، بدلحاظ، اور بدتہذیب ہو“۔وہ غصے سے بری طرح تلملائی اور پھر جو منہ میں آیا بولتی چلی گئی۔فاز عالم اسی پرسکون انداز میں سنتا رہا۔
ارمان نے کچھ بولنا چاہا،جیسے فاز کے بارے میں یہ الفاظ اسے پسند نہیں آئے تھے مگر فاز نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا۔
”آپ جاننا چاہتی ہیں کہ ارمان نے آپ لوگوں سے کیوں چھپایا کہ وہ میرا پارٹنر ہے؟اس کا جواب آپ کو کل رات مل جائے گا“۔اس کی آواز آہستہ، مگر سنجیدہ اور مضبوط تھی۔
”لیکن اگر آپ نے کچھ بھی الٹا سیدھا کرنے کی کوشش کی، تو پھر آپ اپنے بابا سے مل نہیں پائیں گی“۔یہ کہتے ہوئے اس نے فاطمہ کی آنکھوں میں دیکھا۔
”تم مجھے روک نہیں سکتے! اور اب تو بالکل بھی نہیں۔ بہت ہو گیا تمہارا یہ کھیل۔اب میں وہی کروں گی، جو میرا دل چاہے گا“۔
“You’ll do as I said.”
فاز نے تیزی سے اس کا بازو تھاما مگر گرفت نرم تھی۔
“I’m not your property, Faaz Alam! I’m a human being. Stop treating me like a slave!”
وہ جھٹکے سے بازو چھڑا کر غصے سے چیخی۔
”آپ کمرے میں جائیں،میں وہی آکر آپ سے بات کرتا ہوں“۔اپنے اعصاب پر قابو پاتے ہوئے دھیمی آواز میں بولا۔
”تم جھوٹے فریبی،قاتل،اسمگلر ہو۔۔تم دنیا کے سب سے برے انسان ہو“۔۔اس کی آواز غصے میں بھی بھراگئی تھی۔تیزی سے باہر نکلی۔دروازہ ایک زوردار آواز کے ساتھ بند ہوا۔
فاز نے آنکھیں موند کر نفی میں سر ہلایا۔ارمان اس کے قریب آیا۔
”فاطمہ ایسی تو نہیں تھیں۔تم نے کچھ کہا کیوں نہیں؟وہ تم سے کتنی بدتمیزی کرکے گئی ہیں۔بہت بدلحاظ ہوگئیں ہیں وہ“۔۔ارمان نے تاسف بھرے انداز میں کہا۔
”تم اپنی جگہ ٹھیک ہو ارمان۔لیکن وہ میری بیوی ہیں۔تم ان کے بارے میں اس طرح بات نہیں کرسکتے۔فاطمہ کمال بدلحاظ نہیں ہیں“۔۔
دروازے کے پار کھڑی فاطمہ کے آنسو بہنے لگے۔
کیا تھا یہ شخص؟کون تھا؟کیوں وہ چاہ کر بھی اس سے نفرت نہیں کر پا رہی تھی؟۔وہ تو پہلے اس طرح بدتمیزی بھی نہیں کرتی تھی۔لیکن پھر بھی کیا کچھ سننا نہیں پڑتا تھا؟۔آج جب وہ ارمان شاہد کو دیکھ کر بے قابو ہوگئی تھی۔تب بھی اس شخص نے اسے سپورٹ کیا تھا۔کیوں؟۔وہ روتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی۔