اس نے سوچا تھا۔اب وہ غصہ نہیں کرے گی۔جذباتی نہیں ہوگی۔لیکن ارمان کو فاز عالم کے ساتھ دیکھ کر وہ سب کچھ بھولی تھی۔بار بار کمرے میں چکر کاٹ رہی تھی، جیسے الجھی سوچوں کی گتھیاں کھولنے کی کوشش کر رہی ہو،مگر ہر سوال ایک نئے راز میں الجھاتا جا رہا تھا۔
”کیا ارمان شاہد بھی اسی کھیل کا حصہ تھا؟“۔
”ماریہ ابراہیم۔۔۔“لبوں سے یہ نام نکلا تو دل میں ہلچل مچ گئی۔پلکیں بھاری ہو گئیں۔جب اسے حقیقت معلوم ہوگی، تب کیا ہوگا؟اچانک دروازہ کھلا اور فاز عالم اندر داخل ہوا۔
فاطمہ کے قدم رک گئے۔اس کی نظریں بےاختیار فاز کے چہرے پر جا ٹکیں،مگر اس کے کانوں میں وہ الفاظ پھر سے گونجنے لگے جو اسٹڈی میں کہے گئے تھے۔’فاطمہ کمال بدلحاظ نہیں ہیں’۔۔
”ہمیشہ جو دکھائی دیتا ہے،وہ حقیقت نہیں ہوتا۔کچھ وقت صبر کر لیں،وقت خود سب راز کھول دے گا۔لیکن تب تک،کچھ ایسا مت کریے گا جس پر پچھتانا پڑے“۔وہ اس کے عین سامنے کھڑا تھا،مگر لہجہ پہلے سے کہیں زیادہ نرم تھا۔وہ اس کے چہرے سے نظریں ہٹا گئی۔
”دیکھو تو ذرا، مجھے غلط قدم اٹھانے سے روکنے والا وہ شخص ہے جو خود ناجانے کتنے غلط فیصلے لے چکا ہے“۔تمسخر اس کے لہجے میں نمایاں تھا، مگر دل کے کسی نہاں خانے میں فاز عالم کی کہی باتوں کی بازگشت اب بھی سنائی دے رہی تھی۔دل فاز عالم کی سچائی کا گواہ بن رہا تھا۔اس کی بات سے اتفاق کرنے لگا تھا۔
”آپ جو چاہے کہ سکتی ہیں،لیکن پلیز اسے میری گزارش سمجھ کر مان لیں“۔فاز نے لمحہ بھر کے لیے اسے دیکھا،پھر دھیرے سے بولا۔فاز عالم نے خود کو پہلے اتنا بےبس محسوس نہیں کیا تھا۔وہ ایک ایسے دوراہے پر کھڑا تھا۔جہاں ہر راستہ پیچیدہ تھا۔وہ چاہتا تو ساری حقیقتیں اس کے سامنے کھول دیتا۔لیکن وہ ابھی ایسا نہیں کرسکتا تھا۔ وہ صوفے پر بیٹھ گیا،فاطمہ اس سے کچھ فاصلے پہ کھڑی رہی۔
”اوہ، تو تم گزارش بھی کرتے ہو؟“۔اس کی مسکراہٹ میں ہلکا سا طنز تھا،مگر دل کے کسی کونے میں کچھ تھا جو فاز عالم کی حمایت کررہا تھا۔وہ اس وقت دو مخلتف کیفیت سے گزر رہی تھی۔باہر سے ویسا ہی روپ اپنایا ہوا تھا۔جو پہلے دن سے فاز کے ساتھ تھا۔لیکن اندر کہیں سینے میں دھڑکتا دل ناجانے کیوں فاز کی طرف داری کررہا تھا۔
”پتا ہے،اس وقت آپ مجھے کیسی لگ رہی ہیں؟“۔۔فاز اپنی جگہ سے اٹھا،اس کے قریب آیا۔”بدتمیز،خودسر، اور حد درجہ ضدی“۔
فاطمہ کی بھنویں تن گئیں۔اس کی نظریں سلگ اٹھیں۔”وہ تو میں تمہیں لگوں گی نا! چند مہینوں میں ہی پچھتانے لگے ہو؟“۔
”فاطمہ کمال،فاز عالم اپنے فیصلوں پر کبھی پچھتاتا نہیں۔ میں وہ شخص نہیں جو جلد بازی میں کسی راہ کا انتخاب کر لے“۔۔فاز نے گہری سانس لی،جیسے ضبط کی دیوار کھڑی کر رہا ہو۔اس کی آنکھوں میں سنجیدگی اتری،لہجہ گہرا ہوا۔
وہ خفگی سے رخ موڑ گئی، اور سامنے رکھے گلدان کو گھورنے لگی۔فاز نے اس کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کی۔
”کس بات پہ ناراضگی دکھائی جارہی ہے؟“۔وہ ہلکی آہ بھرتے ہوئے بیڈ پر بیٹھ گیا۔ان دونوں کے درمیان ایسا کوئی رشتہ نہیں تھا جس میں ناراضگی اور منانے کا جواز نکلتا،مگر پھر بھی…اس کا یہ رویہ فاز کو الجھا رہا تھا۔
”تم کہو، فاطمہ کمال بدتمیز نہیں ہیں“۔وہ شہادت کی انگلی اس کی طرف اٹھا کر ضدی لہجے میں بولی۔فاز عالم نے حیرت سے اسے دیکھا،پھر بےاختیار دھیرے سے ہنس دیا۔یہ مطالبہ انوکھا تھا۔
”اور میں ایسا کیوں کہوں؟“۔وہ بغور اسے دیکھ رہا تھا۔ قرمزی جوڑے میں وہ ہلکے سے جوڑے میں الجھے بال، کانوں میں سادہ ڈائمنڈ ٹاپس اور الجھن سے بھری آنکھوں کے ساتھ کھڑی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔جوڑے سے نکلتی چند آوارہ لٹیں بار بار اس کے خفا چہرے کو چھو رہی تھیں۔منظر دلکش تھا۔اس کے ہنسنے پر وہ مزید خفا ہوئی۔اس کا ذہن اسٹڈی میں کہے گئے جملے میں اٹک سا گیا تھا۔
”تم کہو گے“۔وہ ایک ضدی بچے کی طرح بولی،اور فاز کو اندازہ ہوا کہ معاملہ بس اتنا سا نہیں تھا۔اسے ایک لمحے کے لیے دیکھا۔پھر دھیرے سے قدم اٹھائے اور اس کے قریب آگیا۔اس کی خوشبو فاطمی کے نتھنوں سے ٹکرائی۔
”فاطمہ کمال بدتمیز نہیں ہیں“۔بہت ہی نرمی سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔فاطمہ کے چہرے پر یکدم طمانیت پھیل گئی۔فاز نے کچھ لمحے اسے دیکھا،مگر وہ اس کے اطمینان کی وجہ نہیں سمجھ پایا۔ایک گہری نظر ڈال کر پلٹ گیا اور دروازے کی طرف بڑھ گیا۔دروازہ بند ہونے کی ہلکی آواز کے ساتھ ہی فاطمہ کمال مسکرا دی۔پورے دل سے،خود سے انجان۔
”فاطمہ کمال بدلحاظ نہیں ہیں“۔
”فاطمہ کمال بدتمیز نہیں ہیں“۔
یہ الفاظ کسی گیت کی مانند اس کے ذہن میں گونجنے لگے۔وہ بےاختیار کھڑکی کی طرف مڑی،ہوا کے جھونکے نے اس کی زلفوں کو چھیڑا،اور وہ خود سے بیگانہ ہو گئی۔شاید کچھ بدلا تھا،یا شاید سب کچھ ویسا ہی تھا…مگر دل نے پہلی بار کسی اور کی کہی ہوئی بات کو مکمل طور پر مان لیا تھا۔
لاؤنج میں ہلکی روشنی بکھری ہوئی تھی۔دادی سکینہ اپنے مخصوص انداز میں تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھی تھیں،مگر نگاہیں دروازے پر مرکوز تھیں جہاں سے کمال مصطفیٰ گزرنے والے تھے۔جیسے ہی ان پر نظر پڑی،ان کے چہرے پر شفیق مسکراہٹ در آئی۔
”کمال،میرے بیٹے،ادھر آؤ،ماں کے پاس“۔آواز میں محبت کی شیرینی گھلی تھی۔کمال مصطفیٰ کے قدم رک گئے۔لمحہ بھر کو آنکھیں بند کیں،جیسے اندر کہیں طوفان اٹھنے کو تھا، مگر پھر ہلکی سانس لے کر پلٹے اور خاموشی سے ان کے قریب جا کھڑے ہوئے۔
”جب سے آئے ہو،ٹھیک سے کھانا نہیں کھا رہے۔دیکھو تو، کتنے کمزور ہوگئے ہو“۔دادی سکینہ کے لہجے میں بے حد فکرمندی تھی۔کمال نے غور سے ان کی آنکھوں میں جھانکا
کہیں بھی دکھاوا محسوس نہیں ہو رہا تھا۔کمال کی اداکاری تھی۔
”اماں، اب دل نہیں چاہتا“۔آواز مدھم تھی،مگر اندر کہیں ضبط کی دیواریں لرز رہی تھیں۔
”کیوں نہیں چاہتا؟میرے ہاتھ سے کھاؤ گے؟میں تمہارا پسندیدہ قورمہ بناؤں گی“۔وہ مسکراتے ہوئے بولیں۔لیکن لاؤنج کے پار،کچن میں،تائی اور چچی شمائلہ پھل کاٹتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنس پڑیں۔وہ طنزیہ ہنسی جو دیواروں میں ارتعاش پیدا کر دیتی تھی۔
”میرا دل تو وہاں ہے،جہاں میری بیٹی ہے۔میرے جگر کا ٹکڑا مجھ سے دور ہے میں کیسے کچھ کھا سکتا ہوں،اماں؟“۔ان کے چہرے پر کرب تھا۔دادی سکینہ کے چہرے پر سایہ سا لہرایا،جیسے انہیں یہ بات ناگوار گزری تھی۔
”کمال، تم…تم نے اپنی یہ حالت اس نافرمان لڑکی کی وجہ سے بنا رکھی ہے؟وہ جسے تمہاری اور ہماری عزت کی پرواہ تک نہ تھی؟بھول جاؤ اسے“۔اب کی بار ان کے لہجے میں سختی تھی،محبت کی جگہ ناپسندیدگی نے لے لی تھی۔
کمال مصطفیٰ نے گہری سانس لی،مگر ان کی آنکھوں میں ایک عجب سی سختی ابھر آئی۔
”میں اس دنیا میں موجود ہر شخص کو بھول سکتا ہوں۔ حتیٰ کہ آپ کو بھی، اماں“۔یہ جملہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کو رکے،جیسے کوئی زخم چھپانے کی کوشش کر رہے ہوں۔
”لیکن فاطمہ کمال؟اسے میں کبھی نہیں بھول سکتا۔وہ میرا خون ہے،میری بیٹی،میرے جگر کا ٹکڑا۔اگر کسی نے اسے تکلیف پہنچانے کا سوچا بھی،تو میں اس کی جان لے لوں گا۔چاہے وہ شخص میرا کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو“۔یہ جملے کسی تیز دھار تلوار کی طرح فضا میں معلق ہو گئے۔لاؤنج میں لمحہ بھر کو سناٹا چھا گیا۔دادی سکینہ کے چہرے پر حیرت جم گئی،جیسے ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو کہ کمال مصطفیٰ یہ کہہ سکتے ہیں۔کچن میں کھڑی تائی اور چچی شمائلہ بھی ساکت رہ گئیں، جیسے وہ پل بھر کو کچھ سمجھ ہی نہ سکی ہوں۔
”یہ تم کیا کہہ رہے ہو، کمال؟“۔دادی سکینہ نے بمشکل خود کو سنبھالا،مگر ان کی آواز میں بےیقینی تھی۔
”میں واپس اپنی بیٹی کے لیے آیا ہوں“۔لفظوں میں ایسی مضبوطی تھی کہ دادی سکینہ کی آنکھیں جھک گئیں۔کچھ لمحے خاموشی چھائی رہی، پھر کمال مصطفیٰ لمبے ڈگ بھرتے وہاں سے چلے گئے۔پیچھے دادی سکینہ خاموش بیٹھی رہ گئیں۔گہری سوچ میں گم،جیسے کچھ ٹوٹ چکا ہو، جیسے کوئی انا شکست کھا گئی ہو۔تائی شمائلہ اور چچی شمائلہ ان کے قریب آئیں،مگر دادی کی آنکھوں میں ایک عجیب سا خالی پن تھا۔کیا وہ اتنی جلدی ہار گئی تھیں۔کیا ایک بار پھر وہ اپنا حق جانے دیتی؟۔۔نہیں۔۔اس بار نہیں۔۔وہ اپنا حق اس بار نہیں چھوڑیں گی۔
رات کا سناٹا لمحہ بہ لمحہ گہرا ہوتا جا رہا تھا۔فاطمہ کمال بیڈ پر بیٹھی سوچوں کے گرداب میں الجھی ہوئی تھی۔فاز عالم جو گیا تھا،لوٹ کر نہیں آیا تھا۔اب تو یہ معمول بن چکا تھا۔
ذہن میں الجھے سوالات کی بھیڑ لگی تھی،ہر طرف دھند تھی،جواب کا کوئی سراغ نہیں تھا۔ارمان شاہد اور پھر بابا؟بابا سے وہ دو تین دفعہ کال پہ بات کرچکی تھی۔لیکن وہ اس سے ملنے نہیں آرہے تھے۔سر بھاری ہونے لگا تھا۔اس نے بوجھل قدموں سے اٹھ کر بیڈ کے کنارے سے دوپٹہ اٹھایا اور سر پر جما لیا۔گھڑی پر نظر ڈالی،رات کے تین بج رہے تھے۔
آہستہ سے دروازہ کھولا اور ویران راہداری میں قدم رکھا۔ کبھی یہی گھر اس کے لیے خوف کا استعارہ تھا،اب عادت سی ہو گئی تھی۔کچن کا رخ کیا تاکہ ایک کپ کافی بنا لے، مگر قدم لاؤنج کے وسط میں پہنچ کر رک گئے۔
آنکھیں سکڑ گئیں،سانس بے ترتیب ہوئی،نگاہیں بے اختیار بائیں جانب والے کمرے پر جا ٹکیں جس کا دروازہ ادھ کھلا تھا۔یہ وہی کمرہ تھا،جو ہمیشہ بند رہتا تھا۔
کمرے سے ہلکی روشنی چھن کر باہر آ رہی تھی،ایک پراسرار روشنی جو دل کی دھڑکنوں میں ارتعاش پیدا کر گئی۔فاطمہ بے ساختہ قدم بڑھانے لگی۔جیسے ہی دروازے کے قریب پہنچی،اس کا وجود ایک لمحے کو ساکت ہوگیا۔آنکھیں پلک جھپکنا بھول گئیں۔سانس اندر ہی کہیں اٹک کر رہ گئی۔دل رک کے دھڑکا تھا۔
سامنے جائے نماز پر ایک وجود کھڑا تھا۔
سفید لباس میں ملبوس،نگاہیں جھکائے،آہستگی سے ہلتے لب۔پھر “اللہ اکبر” کی سرگوشی ہوئی،اور وہ وجود رکوع میں جھکا۔روشنی کے ہالے میں لپٹے اس شخص کا آدھا چہرہ نظر آ رہا تھا۔گندمی رنگت،ہلکی داڑھی،ایک ایسا چہرہ جو سادگی میں بھی دلفریب تھا۔فاطمہ کی پتھرائی آنکھوں سے آنسو خاموشی سے بہنے لگے۔وہ شخص سجدے سے اٹھا، التحیات میں شہادت کی انگلی بلند کی۔فاطمہ کی آنکھیں اس منظر میں قید ہو چکی تھیں۔یہ وہی آنکھیں تھیں،جو اسے یاد تھیں۔یہ وہی وجود تھا،جو ہر موڑ پر اس کے لیے دیوار بنتا رہا تھا۔فاز عالم!
جب وہ سلام پھیر چکا تو فاطمہ جیسے ہوش میں آئی۔ جلدی سے پلٹی اور لاؤنج میں صوفے پر آ بیٹھی۔دل سینے میں دھک دھک کر رہا تھا،سانسیں بکھری ہوئی تھیں۔ہاتھ سینے پر رکھ کر دھڑکن کو معتدل کرنے کی کوشش کی۔
”فاز عالم“۔آواز دھیمے مگر گہرے ارتعاش کے ساتھ نکلی۔
کمرے سے باہر آتے وجود کے قدم ایک لمحے کو رکے،مگر وہ فوراً مضبوطی سے آگے بڑھا اور لاؤنج کی نیم روشن فضا میں نمودار ہوا۔
”آپ اس وقت یہاں؟“۔وہ اپنے مخصوص انداز میں سوال کیا۔شاید اسے اندازہ تھا۔کبھی نہ کبھی اس صورتحال کا سامنا کرنا ہوگا۔
فاطمہ کی نگاہیں اس کے چہرے پر مرکوز تھیں،ہر زاویہ پہچان رہی تھیں،ہر تاثر یاد کر رہی تھیں۔مگر فاز عالم کے چہرے پر ذرا بھی گھبراہٹ نہیں تھی۔
”تم میرے سامنے اب اپنے اصل چہرے کے ساتھ ہی آنا۔میرے سامنے بھیس بدل کر آنے کی ضرورت نہیں ہے“۔ تعجب سے فاطمہ کو دیکھا،مگر وہ جس سمت بیٹھی تھی،وہاں روشنی بہت کم تھی۔وہ اس کے تاثرات پوری طرح نہ دیکھ سکا۔
”اب جب آپ دیکھ ہی چکی ہیں،تو اس کا فائدہ بھی نہیں“۔دھیمی سنجیدہ آواز لاونج میں گونجی۔فاطمہ مدھم مسکرائی۔
یہ آنکھیں… یہ آواز… یہ انداز…۔سب کچھ ایک تسلسل میں جُڑ رہا تھا۔
”آئی وانٹ ٹو نو آل تھنگز آباؤٹ یو،فاز عالم!تم میرے پیچھے بھیس بدل کر کیوں آتے تھے؟تم مجھے کیوں بچاتے تھے؟لفٹ میں،سڑک پر،ہر جگہ؟“۔فاطمہ کمال کی نگاہیں،اس کی سیاہ گہری آنکھوں پر تھیں۔ذہانت سے چمکتی ہوئیں سیاہ آنکھیں۔اب یہ ایک اجنبی کی سیاہ آنکھیں نہیں رہی تھیں۔اب اس اجنبی کو نام مل گیا تھا۔فاز عالم۔
فاز عالم کا وجود لمحے بھر کو جامد ہوا۔مگر اس کے چہرے پر کوئی الجھن نہیں تھی،جیسے سب کچھ پہلے ہی طے شدہ تھا۔
”یو آلریڈی نو می۔۔اور میں نے اس رات بھی کہا تھا،آپ اکیلی نکلیں گی تو مجھے آنا ہی پڑے گا“۔وہی دھیمی، سنجیدہ مگر باوقار آواز۔جو کسی کو بھی اپنے سحر میں جکڑ سکتی تھی۔فاطمہ نے گہری سانس لی، آنکھیں آہستہ سے بند کیں، جیسے ہر سوال کا جواب اب غیر ضروری ہو چکا ہو۔فاطمہ کو زیادہ شاک نہیں پہنچا تھا۔اس رات سڑک میں ہوئی ملاقات۔اسے شک میں ڈال گئی تھی۔اس کا ہر جگہ بچانے آنا۔لیکن نکاح کے روز نا آنا۔دونوں میں مماثلتیں بھی تھیں۔دونوں ہی اسے آپ کہ کر مخاطب کرتے تھے۔دونوں کی آواز میں مدھم نرمی ہوتی تھی۔جو دل میں اترتی جاتی تھی۔وہی گہری سنجیدہ،مگر سکون بخش لہجہ۔وہی آنکھیں،جو کسی بھی ہنگامے میں ٹھہراؤ کا گمان دیتی تھیں۔جو کبھی بھی سخت نہ ہوتیں۔کبھی بھی بےرحم نہ لگتیں۔
”ٹھیک ہے، نہیں بتاؤ، میں خود ہی جان لوں گی“۔اس کے ہونٹوں پر ایک مطمئن مسکراہٹ ابھری۔
“I know you are so stubborn.”
فاز عالم نے کندھے اچکائے اور پلٹ کر جانے لگا۔
”ٹھیک ہے،وہ تو میں کر لوں گی…لیکن ابھی،تم مجھے کافی بنا کر دو“۔۔فاز عالم چونک گیا،حیرت سے پلٹ کر اسے دیکھا۔اب وہ اس کے سامنے کھڑی تھی۔اس پر نظریں جمائے وہ حیران کرنے کے در پے تھی۔روشنی اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔منظر واضح تھا۔ڈوپٹہ سر سے اتر کر کندھے پر ٹھرا ہوا تھا۔بکھرے بال چہرے پر آئے ہوئے تھے۔جوڑا ڈھیلا ہوچکا تھا۔
”میں؟ آپ کو اس وقت کافی بنا کر دوں؟“۔۔اس نے بےیقینی سے اپنی طرف اشارہ کیا۔
”ہاں، تم“۔۔دونوں ہاتھ سینے پر باندھے،چہرے پر مکمل اعتماد سجائے،وہ مسکرا رہی تھی۔
”میں سونے جا رہا ہوں،آپ کی طرح فارغ نہیں ہوں۔بہت سے کام ہیں مجھے“۔۔نفی میں سر ہلاتا وہ پلٹا ہی تھا کہ فاطمہ کی آواز نے ایک بار پھر روک لیا۔
”فاز… بنا کر دو۔میرے سر میں پہلے ہی بہت درد ہو رہا ہے“۔اس کے لہجے میں ضد تھی،اور شاید کچھ اور بھی۔وہ چیز جو دل کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔فاز عالم کو رکنا پڑا۔تیزی سے اس کے پاس سے ہوتا ہوا لاؤنج کے بالکل سامنے اوپن میں آکھڑا ہوا۔کپ نکال کر کاؤنٹر پر رکھا،کافی جار اٹھایا،اور پوچھا۔
”آپ کے سر میں درد کیوں ہو رہا ہے؟“۔لہجہ بالکل سرسری سا تھا۔مگر آنکھوں میں کچھ اور بھی تھا۔کچھ ایسا جو عام نہ تھا۔
”اتنے سوال جو سر پر سوار ہیں“۔بیزاریت سے کندھے جھٹک کر فاطمہ کرسی پر بیٹھ گئی۔
”فاز عالم کون ہے؟اس نے مجھ سے نکاح کیوں کیا؟بابا مجھ سے ملنے کیوں نہیں آ رہے؟دادی، پھوپھی، چاچو، سب سوتیلے کیسے ہو گئے؟اور اب یہ ارمان بھی بیچ میں گھس آیا“۔ہاتھ ہلاتی ہوئی وہ بولتی جا رہی تھی،فاز عالم خاموشی سے سنتا جا رہا تھا۔فاز عالم نے اس کے انداز پر مسکراہٹ دبائی۔اس کے سامنے کافی کا کپ رکھ دیا۔
”اتنا مت سوچیں،خود کو اذیت میں نہ ڈالیں۔بس کچھ وقت انتظارکر لیں۔کافی لیں،اور کمرے میں جا کر پئیں۔اور یہ دوا لے لیجیے گا“۔آواز میں سنجیدگی تھی،مگر آنکھوں میں ایک نرم روشنی تھی۔وہ سنجیدگی سے کہ رہا تھا۔اور وہ بنا پلک جھپکائے اسے دیکھنے میں محو تھی۔فاطمہ نے کپ تھاما، مگر نظریں اس پر مرکوز رہیں۔یہ چہرہ اسے بہت اچھا لگ رہا تھا۔یہ سیاہ آنکھیں،یہ ہلکی داڑھی،یہ آواز…
فاز عالم اپنے کمرے میں جا چکا تھا،مگر فاطمہ وہیں بیٹھی رہ گئی۔دل کی دھڑکن نے کوئی نیا سر تار چھیڑ دیا تھا۔
محبت جیت گئی تھی، نفرت ہار گئی تھی۔
فاطمہ کمال کو محبت ہوگئی تھی۔محبت فاتح ٹھری تھی۔
وہ اجنبی جو ہر موڑ پر تھا
وہی راز دل کا شریک نکلا
جس سے دشمنی کا گمان تھا
وہی پیار کی آخری جیت نکلا
جاری ہے