صبح کی نرم روشنی بالکونی میں بکھری ہوئی تھی۔ہوا میں ہلکی خنکی تھی.
”فاطمہ بیٹی، کیسی ہیں؟“۔بابا کی مانوس،شفقت بھری آواز اسپیکر سے ابھری تو آنکھیں خودبخود بھیگ گئیں۔وہ دروازہ کھولتی بالکونی میں آ گئی،گہری سانس لی۔
”بابا، آپ… آپ مجھ سے ملنے کیوں نہیں آ رہے؟“۔آواز میں نمی گھل گئی۔”بابا، آپ کو اس نے آنے سے منع کیا ہے نا؟“۔ریلنگ پر گرفت سخت ہوگئی۔دل بے اختیار بغاوت پر اتر آیا تھا۔ادھر بابا کی خاموشی،ادھر فاطمہ کے اضطراب کی شدت…پھر وہی دھیمہ،تھکا ہوا لہجہ سنائی دیا۔
”نہیں،اور شاید وہ کبھی مجھے منع کرے گا بھی نہیں“۔کمال مصطفیٰ اداسی سے مسکرائے۔فاطمہ نے چونک کر فون کی طرف دیکھا۔الجھن،حیرانی، ناسمجھی…سب ایک ساتھ امڈ آیا۔
”کیا مطلب بابا؟“۔
”سارے مطلب کل آکے سمجھاؤں گا۔کیا آپ کے بابا کل آپ کے ساتھ لنچ کر سکتے ہیں؟“۔بابا کی آواز میں مان تھا،محبت تھی،اور شاید ایک چھپی ہوئی تڑپ بھی۔کتنے وقت بعد ان کے لہجے میں وہی پرانا مان محسوس ہوا تھا۔فاطمہ نے جلدی سے آنکھیں بند کر کے کھولیں،سانس بحال کی،مگر آواز پھر بھی بھیگ گئی۔
”ہاں بابا، ضرور۔۔لیکن…“جملہ ادھورا رہ گیا۔خیالوں میں ایک چہرہ ابھرا،جو اس کے روز و شب کا،اس کی حقیقت کا حصہ بن چکا تھا۔
”اگر آپ فاز کے بارے میں سوچ رہی ہیں تو بےفکر رہیں،اسے اعتراض نہیں ہوگا“۔فون کی دوسری طرف،بابا کے ہاتھ میں اس کی تصویر تھی۔نگاہیں اس پر ٹکی تھیں،جیسے برسوں کا کوئی خالی پن آج شدت سے محسوس ہوا ہو۔دل میں ایک خلش جاگی۔کاش زندگی میں کچھ فیصلے مختلف ہوتے، کچھ رشتے پہلے سمجھے جاتے۔
”مجھے اس کے اعتراض سے کوئی سروکار نہیں بابا۔میرے لیے صرف آپ کی اور گھر والوں کی سیفٹی میٹر کرتی ہے“۔نگاہیں بےاختیار پورچ پر جا رکیں۔ایک گاڑی آ کر رکی تھی۔ دروازہ کھلا،اور وہ باہر نکلا۔بلیک فارمل سوٹ،پیشانی پہ بکھرے بال،چہرے پر تھکن کے سائے،مگر آنکھوں میں وہی سرد مہری۔
”آپ کے گھر والوں میں صرف ‘میں’ اور ‘فاز’ شامل ہیں، فاطمہ۔تو آپ کو صرف انہی کا خیال رکھنا ہے“۔انھوں نے فاز پہ زور دیا تھا۔
سانس رکی۔پلکیں جھپکنا بھول گئیں۔فاطمہ کی گرفت ریلنگ پہ ڈھیلی پڑگئی۔
”یہ… کیا کہہ رہے ہیں بابا؟وہ میرے گھر والوں میں کیسے شامل ہوگیا؟آپ تو مجھے یہاں سے نکالنے کے لیے واپس آئے ہیں نا؟“۔بےیقینی، حیرت، شاک۔
”میں کل آپ سے تفصیل میں بات کروں گا،فاطمہ۔خیال رکھیے گا،بچے،اپنا بہت سارا۔بابا لو یو“۔
فون بند ہوچکا تھا، مگر فاطمہ کی دنیا جیسے ایک نئے موڑ پر کھڑی تھی۔جہاں سوال زیادہ تھے، جوابات کم، اور حقیقت کسی انجانے راستے پر لے جا رہی تھی۔کیا وہ واقعی فاز کی دنیا کا حصہ بن چکی تھی؟۔دل کی زمین تو گداز ہوچکی تھی۔
ارمان شاہد عباسی کے آفس میں موجود تھا۔شیشے کی دیوار کے قریب کھڑا شاہد عباسی فون پر کسی سے بات کر رہا تھا،دیوار کے اس پار ہرا بھرا لان نظر آتا تھا۔اس کا چہرہ سپاٹ تھا مگر آنکھوں میں چمک تھی۔ارمان جانتا تھا کہ یہ کسی بڑی ڈیل کی بات ہو رہی تھی۔
”ہاں،کل شپمنٹ تیار ہوگی۔ولیم کو بتا دو کہ سب کچھ پلان کے مطابق ہے“۔شاہد نے سگار سلگایا اور فون بند کر دیا۔شاہد عباسی نہیں جانتے تھے کہ ان کے پیچھے بیٹھے نوجوان کی سماعت بہت تیز ہے۔جو ان کی سرگوشیوں کو بھی باآسانی سن سکتا تھا۔
ارمان نے نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبا لیا۔وہ خاموشی سے اپنی فائل بند کرتا اٹھ کھڑا ہوا۔”ڈیڈ میں ذرا باہر جا رہا ہوں“۔اس نے معمول کے انداز میں کہا۔
”کہاں جا رہے ہو؟“۔شاہد نے سگار کے دھویں میں اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”بس ایک کام یاد آگیا“۔ارمان نے مسکرا کر کہا اور باہر نکل آیا۔گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے فون نکالا اور نمبر ڈائل کیا۔
”فاز،کل ایک بڑی شپمنٹ آرہی ہے۔ولیم کا براہ راست آرڈر ہے۔میں تفصیلات نکال رہا ہوں،تیار رہنا“۔
”زبردست!جلدی پتہ کرو کہ شپمنٹ کہاں ڈلیور ہونی ہے؟میں حملے کی تیاری کرتا ہوں“۔فاز کی آواز پرعزم تھی۔
ارمان نے گہری سانس لی۔دوہری زندگی گزارنا آسان نہیں تھا،لیکن وہ جانتا تھا کہ اس کا انتقام قریب ہے۔
کمرے میں دبے دبے سرگوشیوں کا شور تھا،جیسے کوئی خاص بات کی جارہی ہو۔صبح کی روشنی کھڑکیوں سے اندر جھانکنے کی کوشش کر رہی تھی،مگر گہرے پردے اسے راستہ نہیں دے رہے تھے۔دادی سکینہ کی نظریں سامنے بیٹھی اپنی اولادوں پر جمی تھیں۔ان کے چہرے پر وہی ضد، وہی سختی تھی جو ہمیشہ سے تھی،مگر آج اس میں کچھ اور شدت تھی۔
”اماں، اب نہیں لگنے والے کوئی بھی کاغذات آپ کے ہاتھ“۔چچی کا لہجہ کاٹ دار تھا،جیسے ہر لفظ میں تپتی نفرت گھلی تھی۔ان کے بیٹے،احسن کا اب تک کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔اور وہ فاطمہ کو اس گھر میں دوبارہ دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔
”تیور بتا رہے ہیں،بھائی صاحب فاطمہ کو جلد واپس لے آئیں گے۔اور انھیں شاید اندازہ بھی ہو چکا ہے کہ فاطمہ کی شادی کس سے ہوئی ہے“۔فضا میں تناؤ مزید بڑھ گیا۔بڑی تائی کی بات پر چچی نے پہلو بدلا۔علی تایا اور ابراہیم چچا خاموش سے بیٹھے ماں کو دیکھ رہے تھے۔
”یہ سارا کاروبار،ساری زمینیں تم تینوں کی ہیں۔میں تمہیں کاغذات دلوا کر رہوں گی“۔کمرے میں جیسے وقت رک گیا۔آنکھوں میں جلتی نفرت کی آگ سب کچھ تباہ کردینے کے درپے تھی۔تایا علی نے ماں کی آنکھوں میں جھانکا،وہاں صرف ایک بےرحم فیصلہ تھا۔انھوں نے دھیرے سے سر جھٹکا۔
”اماں، ابھی کچھ نہیں بگڑا۔اگر ہم نے غلط قدم اٹھایا تو آگے کوئی نیا مسئلہ کھڑا ہو جائے گا“۔علی تایا نے انھیں ان کے فیصلے سے باز رکھنا چاہے۔آج تک اس گھر میں صرف سکینہ بیگم کا حکم مانتے ہوئے سب آئے تھے۔یہاں تک کہ کمال مصطفیٰ بھی۔وہ جو کہتی تھی وہی ہوتا تھا۔
”نہیں علی“۔دادی کی آواز کاٹ دار ہو گئی۔”اب میں کچھ ہاتھ سے جانے نہیں دوں گی“۔آنکھوں میں برسوں کا بھڑکتا ہوا شعلہ تھا۔
”بہت پہلے،میں نے اپنے بہت سے حق چھوڑ کر بہت بڑی غلطی کی تھی۔لیکن اب میں اپنے بچوں کا حق چھیننے نہیں دوں گی“۔
خاموشی اتنی گہری ہو گئی کہ گھڑی کی ٹک ٹک بھی سنائی دینے لگی۔یہ طے تھا۔دادی سکینہ کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ماضی کے شعلے اور بھڑک چکے تھے۔دل میں لگی آگ مزید سوا ہو گئی تھی۔بس اب…یا تو سب کچھ جلا دینا تھا یا خود جل جانا تھا۔
شام کا نیلگوں رنگ آسمان پر دھیرے دھیرے گہرا ہورہا تھا۔ ہلکی خنکی بھری ہوا درختوں کی ٹہنیوں کو جھُلا رہی تھی۔ماریہ ابراہیم پارک کے ایک بینچ پر بیٹھی تھی،نظریں کہیں دور خلا میں جمی تھیں۔دل میں ایک عجیب سی بےچینی تھی،ایک بےنام سا بوجھ۔جو حقیقتیں آشکار ہوئی تھیں،وہ اس کے وجود پر کسی آندھی کی طرح ٹوٹ پڑی تھیں۔اپنے اندر کے انتشار کو پرسکون کرنے کے لیے کھلی فضا میں آئی تھی۔اچانک،ایک مانوس آواز ہوا کے دوش پر اس کے قریب آ ٹھہری۔
”کیسی ہیں آپ؟“۔۔
وہ جیسے کسی خواب سے جاگی۔پلکیں جھپکائیں،چونک کر سامنے کھڑے وجود کو دیکھا۔چند لمحوں کے لیے ساکت رہ گئی۔آنکھوں میں حیرت تھی،الجھن تھی۔
”آپ؟آپ یہاں کیسے؟میں…میں ٹھیک ہوں۔آپ کیسے ہیں؟“۔ہمیشہ کی طرح بےربط الفاظ اس کے لبوں سے پھسلے۔وہ ہولے سے مسکرا دیا۔
”یہاں سے گزر رہا تھا،آپ کو اداس دیکھا تو چلا آیا۔میں بھی ٹھیک ہوں“۔۔اس کی نرم مسکراہٹ،گہری نگاہیں،اور سادہ انداز ہمیشہ کی طرح بےساختہ تھے۔
”آپ پارک سے گزر رہے تھے؟“۔ماریہ کی پیشانی شکن آلود ہوگئی۔بھنویں سکیڑیں وہ اسے دیکھنے لگی۔
”میں یہاں کسی سے ملنے آیا تھا“۔اس کے معصوم حیران چہرے کو دیکھ کر وہ دلکشی سے مسکرایا۔
”کس سے؟“۔وہ مزید الجھ گئی۔آنکھوں میں حیرانی کا رنگ اور گہرا ہوگیا۔
”آپ سے“۔اس کے لبوں پر ایک دلفریب مسکراہٹ ابھری۔ نگاہوں میں کچھ ایسا تھا جو ماریہ کی دھڑکنوں کو تیز کرگیا۔لمحہ ٹھر گیا۔جواب غیر متوقع تھا،اچانک تھا۔ہلکی خنک ہوا،قریب سے گزرتے لوگ،سب کچھ دھندلا سا گیا۔
”مجھ سے؟“۔اس کے لب بےاختیار ہلے۔
”ول یو میری می، ماریہ ابراہیم؟“۔الفاظ نہیں کوئی سحر تھا جو فضا میں بکھر گیا۔پارک کا شور اس ایک جملے کے پیچھے دب سا گیا۔ارمان شاہد کی گھمبیر آواز،اس کی آنکھوں میں جمی گہری سچائی،سب کچھ ماریہ کے حواسوں کو مفلوج کرگیا۔یہ لمحہ،یہ الفاظ،یہ جذبات…خواب تھا یا حقیقت؟۔وہ سانس بھی لینا بھول گئی۔دل ایک بےترتیب ساز بجانے لگا۔
”یہ… یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟“۔۔آواز کانپ سی گئی۔ہاتھ کی انگلیاں بےاختیار لرز گئیں۔ارمان کی آنکھوں میں سنجیدگی تھی۔محبت تھی۔عزت تھی۔احترام تھا۔
”آئی ایم سیریس، ماریہ۔آئی وانٹ ٹو میری یو وِد مائی ہول ہارٹ“۔۔پل بھر کو ہوا جیسے رک گئی۔ماریہ نے اپنی پلکیں موند لیں۔اور جب کھولیں تو آنکھوں میں بےبسی کا دریا تھا۔ایک آنسو پلکوں سے لڑھک کر گال پر آگرا۔
”کاش… کاش آپ شاہد عباسی کے بیٹے نہ ہوتے“۔لب کپکپائے،مگر لفظ دھیمے اور درد میں ڈوبے تھے۔وہ لمحہ تھا یا صدیوں پر محیط اذیت؟۔ارمان نے گہری سانس لی۔
”میں نہیں کرسکتی شادی آپ سے“۔اس کی آواز نمی میں بھیگی،چہرے پر اذیت کا رنگ تھا۔
”آپ انکار صرف اس لیے کر رہی ہیں کہ میں شاہد عباسی کا بیٹا ہوں؟“۔ارمان شاہد کے چہرے کا رنگ گہرا ہوگیا،نظریں اس کے بھیگتے چہرے پر جمی رہیں۔ماریہ نے نم آنکھوں سے اثبات میں سر ہلا دیا۔
کیسے کہتی کہ اس کا خاندان کبھی اس رشتے کو قبول نہیں کرے گا؟کیسے بتاتی کہ وہ چاہ کر بھی اپنے جذبات کی ڈور توڑنے پر مجبور تھی؟
”تو فرض کریں،میں شاہد عباسی کا بیٹا نہیں ہوں۔اب آپ کا کیا جواب ہوگا؟“۔ارمان چند لمحے خاموش رہا،پھر پرسکون انداز میں گویا ہوا۔
”لیکن… کیسے؟میرا مطلب ہے، آپ ان کے ہی بیٹے ہیں“۔ماریہ نے حیرت سے اسے دیکھا، الجھن اس کے چہرے پر پھیل گئی۔
”فرض کرنے کو کہا ہے“۔ارمان کے لہجے میں ایک ٹھہراؤ تھا۔ ماریہ چند لمحے خاموش رہی،نظریں اس کے چہرے پر جمائے،جیسے کسی ان دیکھے جواب کی تلاش میں ہو۔پھر ہلکی،مگر مضبوط آواز میں بولی۔
”تو پھر میں دعا کروں گی کہ آپ کا تعلق دنیا میں کسی سے بھی ہو،مگر شاہد عباسی سے نہ ہو“۔ارمان کے چہرے پر ایک عجیب سی طمانیت اتر آئی۔جیسے اسے اپنی جیت کا یقین ہوگیا تھا۔جیسے محبت فاتح ٹھری ہو۔
”خدا حافظ“۔ماریہ ابراہیم نے یہ کہہ کر تیزی سے قدم بڑھائے۔وہ ایک لمحہ بھی مزید وہاں رکنا نہیں چاہتی تھی، اس کے دل کی حالت اس اجازت کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی۔ارمان شاہد خاموشی سے اسے جاتا دیکھتا رہا۔
پارک کی ہلکی خنک ہوا ماریہ کی بکھری زلفوں میں الجھ رہی تھی،مگر وہ اس سے بےخبر آگے بڑھتی جارہی تھی۔
ہال میں دھیمی روشنی،قیمتی سوٹوں میں ملبوس مرد، پرفیومز کی مہک میں لپٹی مغربی لباس پہنی خواتین،سب ایک مخصوص انداز میں برتری جتانے میں مصروف تھے۔ ایک بزنس پارٹی جو ظاہری طور پر خوشگوار تھی۔
فاخر سلمان اپنے مخصوص پُراعتماد انداز میں کھڑے تھے جب ایک گھمبیر آواز نے ان کی سماعت پر دستک دی۔
”فاخر،یاد رکھنا،اگر برباد میں ہوا تو آباد تم بھی نہیں رہو گے“۔لفظوں میں زہر،لہجے میں ٹھہراؤ اور آنکھوں میں وہ بے رحمی جو کسی بھی بازی کا پانسہ پلٹ سکتی تھی۔افتخار ہلکا سا مسکرائے،طنز بھری مسکراہٹ جو ہونٹوں پر ٹھہری مگر آنکھوں میں شعلے جل اٹھے۔
”دھمکی دے رہے ہو؟“۔انہوں نے ہنستے ہوئے کہا،مگر وہ ہنسی سرد تھی،برف کی طرح کاٹ دار۔”جو کرنا ہے کرلو، میں ڈرنے والوں میں سے نہیں“۔
دور کھڑے لوگ ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کو ایک عام بزنس ڈیل کا حصہ سمجھ رہے تھے۔سوائے حمید صاحب کے،جو ان دونوں کے بیچ چھپے طوفان سے بخوبی واقف تھے۔
”اتنا مت اڑو،فاخر۔یہ نہ ہو،پردیس میں بیٹھی تمہاری بیٹی تمہارے پر کٹنے کی وجہ بن جائے“۔شاہد عباسی کے لبوں پر ایک گہری،زہریلی مسکراہٹ تھی۔آنکھوں میں گہری چمک اور لہجے میں دبے دبے وار تھے۔فاخر کے چہرے کا رنگ لمحے بھر میں بدل گیا۔جیسے کسی نے زمین کھینچ لی ہو۔
”تم ایسا کچھ نہیں کرو گے“۔وہ دبے ہوئے غصے میں بولے، آواز میں سختی مگر اندر کہیں خوف کی لرزش۔شاہد عباسی نے اطمینان سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا،جیسے گرد جھاڑ رہے ہوں۔
”یہ تم پر منحصر ہے۔تم ایسا کچھ نہ کرو تو مجھے بھی کچھ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی“۔
فاخر نے جھٹکے سے ہاتھ ہٹایا،چہرے کے تاثرات نارمل کیے، اور وہاں سے ہٹ گئے۔لیکن وہ جانتے تھے،کہ بازی پلٹ چکی تھی۔ان کے جو بندے مرچکے تھے۔وہ مرگئے۔لیکن اب وہ کچھ نہیں کرسکتے تھے۔شاہد عباسی کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی۔
انسان دوسرے انسان کو مات تب ہی دے سکتا ہے۔جب مخالف آپ کی کمزوری سے لاعلم ہو۔ورنہ آپ کی کمزوری آپ کو مروا دیتی ہے۔
فاز عالم تیز قدموں سے کچن میں داخل ہوا۔اس نے چہرے پر کوئی ماسک نہیں لگایا ہوا تھا۔وہ فاز عالم کے روپ میں تھا۔اپنے اصل چہرے کے ساتھ۔کچن میں ہلکی روشنی پھیلی ہوئی تھی،ہنڈیا میں چمچ ہلاتی فاطمہ کی پشت اس کی نظروں میں قید ہوچکی تھی۔گلابی اور سیاہ جوڑے میں ملبوس،بالوں کو سلیقے سے جوڑے میں لپیٹے،وہ کسی خوابیدہ تصویر کا حصہ معلوم ہو رہی تھی۔چہرے پر روشنی سی بکھری ہوئی تھی۔وہ روشنی جو شاید نہیں، یقیناً اس کے بابا کے آنے کی خوشی سے جھلک رہی تھی۔اس مینشن میں نوکروں کی فوج تھی۔لیکن یہاں صرف ہاجرہ تھی۔جس کی بیٹی کی طبعیت خراب تھی۔سو کھانے کا زمہ فاطمہ خود لی ہوئی تھی۔
”فاطمہ“۔اس نے تھکے مگر ضبط بھرے لہجے میں پکارا۔وہ چونک کر مڑی،گہری نیلی آنکھوں میں سوالوں کی چمک لیے۔
”تم کب آئے؟“۔چمچ ہلاتے ہاتھ ایک لمحے کو رکے،آنچ دھیمی کرتے وہ پوری توجہ سے اس کی جانب متوجہ ہوئی۔
”آدھا گھنٹہ پہلے۔۔۔آپ میری چیزوں میں گھسی ہیں؟“۔فاز نے گھورتی تفتیشی نگاہوں سے اسے دیکھا۔فاطمہ نے نچلا ہونٹ دبایا،گھبراہٹ کے باوجود خود کو سنبھالا،پھر نفی میں سر ہلا دیا۔
”میں؟میں تمہاری چیزوں میں کیوں گھسوں گی بھلا؟“۔گردن اکڑاتے ہوئے اعتماد بحال کرنے کی کوشش کی،مگر دل کی دھڑکن سو کی رفتار سے دوڑ رہی تھی۔
”آپ نے میری چیزوں کو اِدھر سے اُدھر کیا ہے۔کیوں؟“۔اس کی بات سرے سے نظر انداز کرتے،ہاتھ باندھے ٹھنڈے انداز میں سوال کیا۔
”ٹھیک سے تو رکھا تھا سب“۔وہ دھیرے سے بڑبڑائی۔مگر اس کی تیز سماعتوں نے اس کے الفاظ بخوبی سنے تھے۔
”جی جی۔۔جب ہی وہ نیلی فائل جو تیسرے نمبر پر تھی،اب پہلے نمبر پر آگئی ہے“۔اسی طرح سینے پر ہاتھ باندھے،کاونٹر سے ٹیک لگائے وہ طنز کررہا تھا۔فاطمہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
”اتنا کون یاد رکھتا ہے؟“۔وہ تنک کر بولی۔چہرے کے تاثرات بگڑے۔
”فاز عالم“۔وہ مسکراہٹ روکتے ہوئے بولا،سینے پر ہاتھ رکھے،فخریہ انداز میں۔اس کے چہرے کے بگڑے تاثرات ناجانے کیوں اسے اچھے لگے تھے؟۔
”فاطمہ کمال،آپ چاہے گھر کا کونا کونا کیوں نہ چھان ماریں،لیکن پھر بھی میرے بارے میں کچھ نہیں جان سکیں گی“۔اس نے دھیمی لہجے میں کہتے ہوئے ایک قدم آگے بڑھایا۔
”تم جتنا چاہے خود کو چھپالو،میں تمہارے بارے میں ضرور جان جاؤں گی“۔فاطمہ لمحہ بھر کو جھجھکی،پھر آنکھوں میں دلیری لیے بولی۔
”گو آہیڈ“۔وہ چمکدار نیلی آنکھیں سیاہ آنکھوں کی ضد میں جھلملائیں،جیسے رات اور صبح کی پہلی کرن آپس میں ٹکرا رہی ہوں۔اچانک فاز کا فون بجا، لمحہ بھر میں وہ گرمجوشی تحلیل ہوگئی۔فاز نے ایک نظر فاطمہ پر ڈالی، پھر فون نکال کر ایک طرف چلا گیا۔
”کیا؟ کیسے؟“۔فاز چونک سا گیا۔آواز میں سختی در آئی۔ فاطمہ کے ماتھے پر شکنیں ابھریں،اس کی آنکھیں بےچینی سے فاز کو دیکھنے لگیں۔
”مراد،تم فوراً وہاں پہنچو،کسی کو اندر نہیں جانے دینا۔دو بندے نگرانی پر مامور کرو۔فوراً“۔چہرے پر ایک سایہ سا لہرا گیا تھا،جیسے کسی بھیانک خبر نے اس کے اندر کی دنیا ہلا دی ہو۔
”کیا ہوا؟“۔جیسے ہی اس نے فون بند کیا۔فاطمہ بےتابی سے پوچھنے لگی۔فاز نے ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند کرکے گہری سانس لی۔پھر اس نے بہت سنجیدگی سے فاطمہ کی طرف دیکھا۔خود کر پرسکون کرتے ہوئے بولنے لگا۔
”فاطمہ، آپ نے مجھے تحمل سے سننا ہے“۔فاطمہ اچھنبے سے اسے دیکھنے لگی۔فاز عالم کب ایسی تمہید باندھتا تھا؟۔
”آپ کے بابا ہاسپٹل میں ہیں“۔فاطمہ کے دل میں دھک سے کچھ گرا۔الفاظ تھے یا پگھلا ہوا سیسہ،وہ پتھرائی نظروں سے اسے دیکھتی رہی،پھر نفی میں سر ہلانے لگی۔
”نہیں،یہ جھوٹ ہے۔بابا نے میرے ساتھ لنچ کرنا تھا۔وہ…وہ مجھ سے ملنے آرہے تھے“۔وہ کپکپاتے لبوں سے بولی،آنکھوں میں بےیقینی اور دل میں شدید خوف تھا۔پھر اس کی بھیگی نگاہیں ماربل پہ رکھے کھانوں پر جا ٹھہریں۔جو خاص اس نے بابا کے لیے بنایا تھا۔
”میں آپ کو ہسپتال لے چلتا ہوں“۔فاز نے اس کے بکھرتے وجود کو افسوس سے دیکھا۔
”مجھے میرے بابا چاہیے،ابھی،اسی وقت۔۔میرے پاس“۔۔آنسو پلکوں کی دہلیز سے بہہ نکلے۔
”فاطمہ پلیز۔۔اس طرح مت کریں۔ابھی آپ کا ہاسپٹل جانا زیادہ ضروری ہے۔آپ کو مضبوط بننا ہوگا“۔فاز نے اسے بازوؤں سے پکڑا۔نرمی سے سہارا دیا۔مگر وہ جھٹک کر پیچھے ہٹ گئی۔
”دور ہٹو۔تم نے ہی کچھ کیا ہوگا۔۔اگر تم نہیں چاہتے تھے کہ بابا مجھ سے ملیں تو صاف کہہ دیتے،میں نے کب تمہاری کسی بات سے انکار کیا تھا؟تم نے میرے بابا کے ساتھ کیا کیا ہے؟بولو“۔وہ روتے ہوئے اس پر مکے برسانے لگی۔فاز نے اذیت بھری نظروں سے اسے دیکھا،پھر ایک جھٹکے سے اس کے ہاتھوں کو پکڑ کر روکا۔
”ہوش میں آئیں،بند کریں یہ رونا دھونا“۔اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔آواز میں سختی تھی مگر لہجے میں بےحد ضبط۔
”ابھی آپ کو ہسپتال جانا ہے،اپنے بابا کے پاس۔اس وقت آپ کے بابا کو آپ کی ضرورت ہے۔اور آپ میری انویسٹیگیشن کررہی تھی ناں؟اس بار ثبوت میں آپ کو خود دوں گا،لیکن ابھی جلدی سے فیس واش کرکے آئیں“۔
اونچی آواز میں بولتا وہ فاطمہ کو ساکت کر دیا۔بس ایک جملہ فاطمہ کےذہن میں اٹک گیا تھا۔بابا کو اس کی ضرورت ہے۔وہ سب کچھ بھول کر تیزی سے کمرے کی طرف بھاگی،فاز نے آگے بڑھ کر برنر بند کیا۔