اس کی زندگی کی کتاب کے سیاہ اوراق میں ایک اور ورق کا اضافہ ہوا تھا۔غموں کی داستان میں ایک اور غم شامل ہو گیا تھا۔آج سوئم تھا۔کون کون آیا،کس نے اسے گلے لگایا، کس نے دلاسہ دیا،اسے کچھ خبر نہیں تھی۔
سارا دن لوگ آتے رہے۔افسوس کرتے رہے۔دلاسے دیتے رہے۔مگر فاطمہ کے کانوں تک کسی کی آواز نہیں پہنچ رہی تھی۔ایک گہری چپ تھی جو اسے لگ گئی تھی۔اس کے لیے ہر شے خاموش تھی۔پر چہرہ دھندلا تھا۔وہ بس یونہی کسی جگہ بیٹھ جاتی۔یا گھٹنوں میں سر دے کر آنکھیں بند کرلیتی۔ ایک جگہ جو بیٹھتی تو وہیں بیٹھی رہتی جب تک ماریہ ابراہیم آ کر اسے اٹھا نہ لیتی۔
ایک ایسا “کاش” تھا جو بیل کی مانند اسے لپیٹ چکا تھا۔ کاش بابا اور اس کے درمیان دوری نہ آتی۔کاش وہ بابا سے باتیں کرتی۔کاش وہ بابا کے ساتھ ہوتی۔کاش بابا اور وہ ساتھ لنچ کرتے۔
مگر کاش کا دامن ہمیشہ خالی رہتا ہے۔
”بی بی،گھر جانے کا ارادہ بھی ہے یا یہی ڈیرہ ڈالنا ہے؟“۔ دادی سکینہ کی نفرت سے بھری آواز پر اس نے چونک کر دیکھا۔ پھر ارد گرد نظر دوڑائی۔تمام مہمان جا چکے تھے۔
”تمہارے اس نام نہاد عاشق شوہر سے اتنا بھی نہ ہوا کہ مروتاً ہی سہی،سسر کے جنازے میں شریک ہو جاتا“۔اسے چپ دیکھ کر انہوں نے ایک اور طنز کا تیر چلایا۔وہ جو نیچے دری پر بیٹھی ہوئی تھی،آہستگی سے کھڑی ہو گئی۔ سفید اور فون کلر کا دوپٹہ سر پر جماتے ہوئے دادی سکینہ کے بالکل پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔
”میں لوگوں سے اچھائی کی توقع رکھنا چھوڑ چکی ہوں، سکینہ بیگم۔جب اپنے آپ سے مخلص نہ ہوں،پھر غیروں سے کیسی شکایات؟“۔ٹھنڈے لہجے میں کہتے ہوئے اس نے سرد نگاہوں سے انہیں دیکھا۔ایک لمحے کے لیے وہ گڑبڑا گئیں۔
”باپ مر گیا لیکن تمہاری بدلحاظی اب بھی نہ گئی۔اب اپنے کرتوتوں سے کس کو مارنا چاہتی ہو؟“۔کچن میں کھانا پیک کرواتی ہوئی تائی اور چچی آواز سن کر لاؤنج میں آ گئیں۔ ماریہ ابراہیم جو کچھ فاصلے پر چادریں اٹھوا رہی تھیں،وہ بھی تیز قدموں سے ان کی طرف آئیں۔
”میرے کرتوت کیا ہیں،کیا نہیں،یہ تو سب اچھی طرح واقف ہیں،خود آپ بھی،سکینہ بیگم۔کس نے کیا کھیل کھیلا،سب جانتی ہیں۔اس لیے اداکاری آپ پر بالکل اچھی نہیں لگ رہی“۔۔نفرت سے دیکھتی وہ پلٹ کر جانے لگی۔
”پانچ منٹ سے پہلے اس گھر سے چلی جاؤ“۔دادی سکینہ گرجتے ہوئے کھڑی ہو گئیں۔اس کی چلتی زبان ان کے غصے کو ہوا دے رہی تھی۔
”میں اپنے گھر میں ہوں۔فاطمہ کمال کے گھر میں۔مائنڈ اٹ۔اور یاد رکھیے گا فاطمہ کمال خاموش ضرور ہے لیکن بےخبر نہیں“۔۔وہ ایک کاٹ دار نگاہ ان پر ڈالتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔مضبوط قدموں کے ساتھ سیڑھیاں چڑھنے لگی۔پیچھے دادی سکینہ بیچ و تاب کھاتی رہ گئیں۔ایک دھیمی مسکراہٹ ماریہ ابراہیم کے لبوں کو چھو گئی۔
کمرے میں ہلکی مدھم روشنی پھیلی ہوئی تھی۔مغرب ہوچکی تھی،اور کھڑکی سے شام کی نیلگوں روشنی اندر آ رہی تھی۔ہوا میں ہلکی سی خنکی تھی جو پردوں کو آہستگی سے ہلا رہی تھی۔فاطمہ کمال خاموشی سے اپنا بیگ پیک کررہی تھی۔ہر تہہ شدہ کپڑے کے ساتھ کوئی پرانی یاد ذہن کے نہاں خانوں میں سرسراتی۔کوئی بوجھل لمحہ دل پر دستک دیتا۔مگر وہ چپ چاپ بنا کسی تاثر کے اپنے کام میں مشغول تھی
ماریہ دروازے پر رکی، نظر فاطمہ پر گئی جو بیگ کی زِپ بند کر رہی تھی۔ چہرے پر عجیب سی سنجیدگی تھی۔
”آپ جا رہی ہیں فاطمہ؟“۔ماریہ نے ہلکی مگر فکرمند آواز میں پوچھا۔
فاطمہ لمحہ بھر کو رُکی،پھر آہستگی سے مڑی۔نگاہیں دیوار پر لگی اُس پینٹنگ پر جا ٹھہریں جو برسوں سے وہیں موجود تھی۔کچھ بکھرے رنگ،ایک ادھورا منظر،جیسے زندگی کا کوئی ناتمام باب۔ایک سایہ ذہن کے پردے پر لہرایا، کچھ دھندلے لمحے آنکھوں کے سامنے چمکے،مگر وہ جلدی سے حقیقت میں واپس آ گئی۔
”ہاں،کچھ حساب کتاب باقی ہیں“۔ آواز میں ایک عجیب سا ٹھہراؤ تھا۔
”کیسے حساب؟اور ہاسپٹل میں آپ کی اور فاز کی تایا سے کیا بات ہوئی تھی؟“۔ماریہ چونک کر آگے بڑھی، ماتھے پر شکنیں ابھریں۔فاطمہ کی آنکھوں میں ایک چمک ابھری، مگر اس چمک میں ایک عجیب سی تلخی تھی۔ وہ آہستہ سے مسکرائی، مگر وہ عام مسکراہٹ نہیں تھی۔
”ان ہی باتوں کا راز جاننے جا رہی ہوں،ماریہ۔ فاز عالم نے مجھے بہت دھوکے میں رکھ لیا،اب اسے ہر چیز کا حساب دینا ہوگا“۔اس کی آواز میں عزم تھا،ایک ناقابلِ شکست قوت۔
”آپ ٹھیک ہیں؟مجھے آپ ٹھیک نہیں لگ رہیں“۔ماریہ نے اس کے بازو پر ہولے سے ہاتھ رکھا،آنکھوں میں فکرمندی کے سائے لرزنے لگے۔فاطمہ نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا،تسلی بھری تھپکی دی۔
”ابھی ہی تو ٹھیک ہوئی ہوں،ماریہ ابراہیم۔ ڈونٹ وری، میں سب کچھ ٹھیک کرکے واپس آؤں گی،ساری چیزوں کو فکس کرکے“۔وہ چند لمحے خاموش رہی،پھر کھڑکی کی طرف بڑھی،جہاں شام کا دھندلکا رات کے دامن میں سمٹ رہا تھا۔ہلکی ہوا اس کے دوپٹے سے کھیل رہی تھی،مگر اس کے چہرے پر مکمل سنجیدگی تھی۔
”جب دنیا میں آپ کے ماں باپ دونوں نہ رہیں،تو پھر آپ کو اپنا گارجین خود بننا پڑتا ہے،ورنہ لوگ آپ کو بے سہارا اور یتیم سمجھ کر اپنے اشاروں پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔مگر میں فاطمہ کمال ہوں۔میں کسی کے اشاروں پر نہیں چل سکتی۔ لمجھے اپنا گارجین خود بننا ہے۔اپنے فیصلے خود کرنے ہیں،اپنے زخم خود بھرنے ہیں“۔
ماریہ کی آنکھیں بھیگ گئیں۔اس نے ایک نظر فاطمہ کو دیکھا۔
”اللہ آپ کو کامیاب کرے، فاطمہ“۔دونوں کے لبوں پر دھیمی سی بھیگی مسکراہٹ ابھری اور فاطمہ آگے بڑھ کر ماریہ کو آہستگی سے گلے لگا لیا۔
سیڑھیوں سے اترتے ارمان کے قدم ہلکے تھے،جیسے کسی خیال میں گم ہو،ہونٹوں پر مدھم سی دھن،انگلیوں میں چابی گھماتا وہ لاپروا انداز میں آگے بڑھ رہا تھا جب ایک بارعب آواز نے اس کے قدم جکڑ لیے۔
”ارمان“۔آواز گونجی تو وہ یکدم رک گیا۔پلٹ کر دیکھا تو ہال کے وسط میں شاہد عباسی کھڑے تھے،چہرے پر سختی، آنکھوں میں گہری سنجیدگی۔
”جی، ڈیڈ؟“۔ وہ ان کے قریب آیا۔
”اسٹڈی میں آؤ“۔وہ اسی گمبھیر لہجے میں کہتے آگے بڑھ گئے۔
”ویسے، ڈیڈ،جانے والے کو اس طرح پیچھے سے نہیں بلاتے، وہ کیا کہتے ہیں؟بدشگ..بدشگن…آں ہاں بدشگونی ہوتی ہے“۔ارمان نے چابی انگلی میں گھماتے ہوئے ایک ادا سے کندھے اچکائے۔ان کے پیچھے چلتا ہوا شرارتی انداز میں گویا ہوا۔
”میں ابھی تمہاری فضول گوئی سننے کے موڈ میں نہیں ہوں“۔شاہد عباسی کی پشت کو دیکھتے اس نے برا سا منہ بنایا مگر چپ چاپ پیچھے چل دیا۔اسٹڈی میں داخل ہوتے ہی شاہد عباسی نے ریموٹ سے اے سی آن کیا،کمرے میں ٹھنڈی ہوا پھیلنے لگی۔سامنے شیشے کی دیوار کے پار لان کا منظر دکھائی دے رہا تھا،جہاں ہلکی ہوا درختوں کی شاخوں کو ہلا رہی تھی۔
”میں نے تمہیں ایک کام سونپا تھا“۔وہ اپنی کرسی پر بیٹھے اور انگلیوں کو آپس میں پھنساتے ہوئے سنجیدگی سے بولے۔ارمان نے سر پر ہاتھ مارا،جیسے کوئی بھولی بات یاد آئی ہو۔
”اوہ یس!معلوم تو اسی دن کروا لیا تھا،لیکن کمال انکل کی ڈیتھ کی وجہ سے سب ذہن سے نکل گیا“۔
”تو کیا معلوم ہوا؟“۔شاہد عباسی نے نظریں اس پر گاڑ دیں۔
”جو میں نے پہلے بتایا تھا۔فاطمہ کمال ان کی بھانجی ہی ہے، نَتھنگ ایلس۔ آپ بلاوجہ پریشان ہو رہے ہیں“۔اس نے میز پر رکھے واز کو غیر سنجیدگی سے آگے پیچھے کیا۔
”میں نے بھی معلومات حاصل کی ہیں“۔شاہد عباسی کا لہجہ بہت مطمئن تھا۔
”مطلب؟“۔ارمان کی بھنویں سکڑ گئیں۔
”فاطمہ کمال اس کی بھانجی نہیں،بیٹی ہے“۔
ارمان جیسے کرسی سے اچھل گیا۔اس کی آنکھوں میں حیرت تھی،چہرہ بےیقینی میں ڈوبا ہوا۔
”کیا؟یہ کیسے ممکن ہے؟ہاؤ از دس پوسیبل؟“۔وہ جھٹکے سے کھڑا ہوا،دونوں ہاتھوں سے چہرہ مسلا اور لمبی سانس لے کر خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی۔
”آپ کو مجھ پر یقین نہیں تھا؟“۔پھر آہستہ آہستہ آگے بڑھا اور دونوں ہاتھ میز پر رکھ کر جھک گیا،آنکھوں میں براہِ راست سوال تھا۔شاہد عباسی نے بےتاثر چہرے کے ساتھ اسے دیکھا اور کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی۔
”میں اپنا کوئی کام کسی ایک آدمی پر نہیں چھوڑتا،ارمان۔ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا،تو کب کا برباد ہو چکا ہوتا“۔ان کے لہجے میں غرور تھا، خود پر مکمل اعتماد۔
”میں کوئی عام آدمی نہیں،آپ کا بیٹا ہوں“۔ارمان کے لب بھینچ گئے، غصے سے چہرہ سرخ ہونے لگا۔اس نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا۔
”غصہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے،ارمان۔اسی لیے میں تمہیں بزنس میں نہیں لاتا،کیونکہ تم بہت سیدھے ہو۔تم نے معلومات سیدھے طریقے سے نکلوائیں،اور دیکھ لو نتیجہ“۔شاہد عباسی پرسکون تھے، جیسے اسے پہلے سے اندازہ ہو کہ ارمان کیسا ردعمل دے گا۔
”کس سے نکلوائی ہیں معلومات؟“۔ارمان نے ایک گہری سانس لی،ضبط کرتے ہوئے پوچھا۔
”طلال احمد سے“۔شاہد عباسی نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”وہی طلال احمد جسے آپ نے تین چار ہفتے پہلے ہائیر کیا تھا؟“۔ارمان کو جیسے کسی نے زوردار دھچکا دیا ہو۔آنکھوں میں بےیقینی تیرنے لگی۔شاہد عباسی نے دھیرے سے سر ہلایا۔ارمان کی مٹھی بھینچ گئی۔کچھ لمحے وہ انہیں دیکھتا رہا، پھر بغیر کچھ کہے، بنا پیچھے دیکھے اسٹڈی سے باہر نکل گیا۔اب چہرے کے تاثرات نارمل تھے۔وہ دل ہی دل میں فاز سے نپٹنے کا سوچ تھا۔جو ہر بار کچھ نیا کرجاتا تھا۔
فاطمہ کمال گھر آ چکی تھی۔فاز عالم کے بیڈ روم سے ملحقہ بالکونی میں رکھی کرسی پر بیٹھی،وہ اس کی پشت سے سر ٹکائے آسمان کو تک رہی تھی۔آسمان پر بکھرے سرخی مائل بادل ایسے لگ رہے تھے جیسے کسی نے نیلے کینوس پر گلابی اور نارنجی رنگ بکھیر دیے ہوں۔مگر فاطمہ کے ذہن میں کوئی اور ہی منظر چل رہا تھا۔
پیر کی رات۔ہسپتال کا منظر
شیشے سے وہ اندر جھانک رہی تھی۔فاز عالم اس کے
بابا کے قریب کھڑا تھا،دھیمے لہجے میں ان سے بات کر رہا تھا۔ شیشے کی رکاوٹ نے اس کے لبوں کی حرکت تو دکھائی، مگر الفاظ کی بازگشت اس تک نہ پہنچ سکی۔
اچانک، فاز نے اپنی جیب سے کچھ نکالا اور ان کے سامنے رکھا۔فاطمہ کی پیشانی شکن آلود ہوگئی۔اگلے ہی لمحے، فاطمہ نے اپنے بابا کے چہرے پر پھیلتا سکون محسوس کیا۔ کچھ ہی دیر میں،اسے بھی اندر آنے کا اشارہ کیا۔وہ بےچینی سے دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہوئی۔
”فاطمہ،میں آپ کو فاز عالم کے سپرد کر رہا ہوں۔آپ نے ہمیشہ اسی کے ساتھ رہنا ہے،اس سے کبھی علیحدگی اختیار نہیں کرینگی“۔یہ سن کر فاطمہ کے بدن میں سنسنی دوڑ گئی۔وہ بے یقینی کے عالم میں باپ کو دیکھ رہی تھی،جبکہ فاز عالم چند قدم دور کھڑا،سر جھکائے،موبائل میں مصروف تھا،جیسے اس گفتگو سے اس کا کوئی تعلق ہی نہ ہو۔
”یہ… آپ… بابا!آپ کیا کہہ رہے ہیں؟آپ تو مجھے اس سے آزادی دلانے آئے تھے ناں؟“۔اس کی آواز میں ناقابلِ یقین حد تک بے یقینی تھی۔
”ہاں،مگر اب جو کچھ میں نے جانا ہے،میں نے اسی کے مطابق فیصلہ کیا ہے“۔ان کی آواز نرمی اور محبت سے لبریز تھی۔اور ایک عجیب سا یقین بھی ان کے لہجے میں تھا۔
”آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟اس نے آپ کو کیا جھوٹی کہانی سنائی ہے؟بابا، یہ شخص جھوٹا ہے۔آپ اس کی باتوں میں آ کر میری زندگی برباد نہیں کر سکتے“۔تکلیف کی شدت اس کے لہجے میں جھلک رہی تھی،جب اس نے محبت کا اقرار سننا چاہا تھا تو کس طرح اس شخص نے بنا کسی لحاظ کے انکار کردیا تھا۔
”انکل کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے،آپ یہاں شور نہیں کر سکتیں۔کنٹرول یور سیلف“۔فاز عالم کی آواز کا ٹھہراؤ اس لمحے زہر لگا تھا۔
”تم نے میرے بابا سے کیا کہا ہے؟ہاں؟کیا کرنے کی کوشش کررہے ہو؟ایک ہی بار سب کچھ بتا کیوں نہیں دیتے؟“۔وہ چیخ پڑی۔
”شور نہ کریں۔پیشنٹ کا خیال کریں پلیز۔اگر کوئی مسئلہ ہے تو باہر جاکر سورٹ آؤٹ کریں“۔۔نرس کے تنبیہ کرنے پر فاز نے معذرت کی،آج تک یوں سبکی نہیں محسوس ہوئی تھی۔لیکن فاطمہ کمال کی وجہ سے وہ آج یہ بھی محسوس کرچکا تھا۔
”فاطمہ بیٹی،یہاں آئیں“۔باپ کی پکار پر اس نے بےچینی سے سر اٹھایا،نیلی آنکھوں میں درد تھا۔فاز عالم نے ایک پل کے لیے اسے دیکھا،پھر جلدی سے نظریں چرا لیں۔
”بابا کی بات نہیں مانیں گی؟“۔بہت مان سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔وہ تڑپ کر ان کے پاس گئی۔
”میں ٹھیک ہو گیا تو خود اپنی بیٹی کو سب کچھ بتاؤں گا، ورنہ فاز آپ کو سب حقیقتیں بتا دے گا۔میری بیٹی خوش نصیب ہے جو فاز عالم جیسا شخص اسے ملا ہے،اور مجھے یقین ہے میری بیٹی اپنی خوش نصیبی کو دھتکارے گی نہیں۔“فاطمہ نے حیرت سے باپ کی طرف دیکھا،پھر بےاختیار فاز کی طرف نظریں اٹھیں، اسی لمحے فاز عالم نے بھی نظریں اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔فاطمہ گھبرا کر نظریں چرا گئی،اور فاز عالم کے لبوں پر ایک محفوظ کن مسکراہٹ پھیل گئی۔