ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
”آپ اتنی جلدی واپس آ گئیں؟“فاز عالم کی آواز نے فاطمہ کو ماضی کی گلیوں سے کھینچ کر حال میں لا کھڑا کیا۔سامنے والی کرسی پر پھیلے اپنے پاؤں کو فوراً سمیٹا۔
”رہنے دیں۔“فاز نے نرمی سے روکا،مگر وہ ان سنی کر گئی۔
”مجھے آنا ہی تھا،فاز عالم تمہاری طرف کچھ حساب کتاب باقی ہے،سوچا جتنا جلدی نمٹا لوں،بہتر ہے“۔اس کا لہجہ دھیمہ،مگر مضبوط تھا۔آنکھوں میں بے خوفی اور نڈر پن تھا۔
”کیا جاننا چاہتی ہیں آپ؟“۔فاز عالم پرسکون انداز میں کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا اور سنجیدگی سے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔
”تم نے میرے بابا کو ایسا کیا دکھایا تھا کہ وہ تمہارے قائل ہو گئے؟اور پھر ان کے آنکھ بند کرتے ہی تم نے جنازے میں آنا بھی گوارا نہیں کیا؟“۔زخمی نگاہوں سے وہ اسے دیکھتی ہوئی بولی۔
”دیکھنے والوں کی نگاہ میں تاثیر ہونی چاہیے۔میں شروع سے آخر تک وہی تھا“۔فاطمہ ایک پل کے لیے ٹھٹک گئی۔
”کیا مطلب؟“۔اس کے ذہن میں ایک جھماکہ ہوا۔
اس کے ذہن میں عورتوں کی آوازیں گونجنے لگیں۔
”ناجانے وہ شخص کون ہے؟بالکل بیٹے کی طرح سب کچھ کررہا ہے۔خود کو کمال کا شاگرد بتاتا ہے“۔
”کندھا دینے والوں میں سے ایک وہی تھا۔کھانے کے انتظام سے لے کر ہر چھوٹی بڑی چیز وہی کررہا تھا“۔
”تم بھیس بدل کر آئے تھے۔کیوں؟“۔۔فاطمہ اسے تفتیشی نگاہوں سے دیکھنے لگی۔دوپہر کی حبس کے بعد شام کی ٹھنڈی ہوا جیسے بوجھل سانسوں کو راحت دے رہی تھی۔
”کیونکہ مجھے یہی ٹھیک لگا تھا۔“موسم کے تیور بدل رہے تھے۔بدلی بدلی ہوتا آسمان،اور ٹھنڈی ہوائیں۔
”تم کس کو دھوکہ دے رہے ہو،فاز عالم؟خود کو؟مجھے؟یا کس کو؟“۔۔بھپری شیرنی بنی وہ اس استفسار کررہی تھی۔
”میں گینگسٹر ہوں،دنیا کی نظر میں ایک بے رحم شخص، ایک سخت دل انسان۔اگر میں سب کے سامنے آ جاتا،تو کیا لوگوں کو یہ جاننے نہ دیتا کہ فاطمہ کمال اور اس کا قریبی رشتہ میرے لیے اہم ہیں؟لوگ سمجھتے ہیں کہ گینگسٹرز کے دل میں نرمی نہیں ہوتی،کسی کے لیے محبت اور احساس نہیں ہوتا۔مجھے آپ سے اور آپ سے جڑے رشتے سے لاپرواہی ہی دکھانی تھی۔اور یوں بھی بہت سے لوگ ہمارے رشتے سے انجان ہیں۔اس لیے بھیس بدل کر آیا تھا۔کیونکہ مجھے اس شخص کے جنازے میں شامل ہونا جو میرے لیے اہم تھا۔لوگوں کو دکھانا مقصود نہیں تھا۔تو میں نا خود کو اور نا ہی آپ کو دھوکہ دے رہا ہوں“۔فاطمہ ساکت سی اس کی بات سنتی رہی،باہر کا موسم جیسے دل کی گرمی اور تپش کو دھیرے دھیرے مٹا رہا تھا۔
”تم برے انسان تو ہو نہیں،ورنہ بابا مجھے کبھی تمہیں نہ سونپتے۔تو کیا اب تم مجھے اپنا اصل تعارف کرواؤ گے؟“۔یکدم وہ ہلکی پھلکی ہوتی بار نرم لہجے گویا ہوئی۔برسات کی بوند اس کے چہرے پر گری تو اس نے پلکیں موند کر اس لمس کو میٹھی سی مسکراہٹ لیے محسوس کرنے لگی۔فاز عالم کو یہ منظر جیسے مبہوت کرگیا۔سادگی میں بھی مکمل حسن۔فالسے رنگ کے سوٹ میں،کندھوں پر شیفون کا دوپٹہ ڈالے،میک اپ سے پاک چہرے کے ساتھ،وہ اس کے دل کے نہاں خانوں میں کسی گہرے نقش کی طرح ثبت ہو رہی تھی۔
”میں کون ہوں؟یہ آپ کو جلد معلوم ہو جائے گا۔لیکن میں ابھی چاہ کر بھی آپ کو بتا نہیں سکتا۔جہاں اتنا انتظار کیا ہے۔وہاں کچھ دن اور سہی“۔وہ جلدی سے اپنی کیفیت سنبھالتے ہوئے معمول کی بے نیازی میں لوٹ آیا۔فون کی بیپ بجی،تو وہ کھڑے ہوگیام
”تم میرے ساتھ پھر وہی گیم کھیلنے کی کوشش کررہے ہو،فاز عالم۔جانتے ہو،تمہاری وجہ سے میرے کتنے قیمتی مہینے ضائع ہو چکے؟۔میں یوز لیس اس گھر میں پڑی رہی۔میرا لاسٹ سیمسٹر باقی تھا۔اس کے بعد مجھے پوری توجہ ہاسپٹل پر دینی تھی۔اور اب تم پھر مجھے اسی پوائنٹ میں لاکر کھڑا کرنا چاہ رہے ہو۔مجھے تم اب بتا ہی دو۔میں مزید وقت ضائع نہیں کرسکتی۔شروع میں تم نے دھمکی دی تھی۔لیکن اب کوئی فائدہ نہیں۔کیونکہ اب نہ تو میں خوفزدہ ہوں اور نہ تمہاری باتوں میں آنے والی ہوں“۔فاطمہ کی آواز میں بس خفگی تھی،نہ غصہ تھا اور نہ انداز میں بدتمیزی۔اور اس خفگی کو فاز نے پورے دل سے محسوس کیا تھا۔
”ماریہ ابراہیم آپ کی زندگی میں اب بھی ہیں“۔آنکھوں میں چمک اور ہونٹوں پہ گہری مسکراہٹ لیے وہ اسے دیکھا۔
”رئیلی؟“۔فاطمہ کمال اسے دیکھتے ہوئے ہنس دی۔”تم ماریہ کا نام لے کر مجھے بلیک میل کرنا چاہتے ہو؟“۔وہ نرمی مگر طنز سے مسکرائی۔”فاز عالم اس دن ہاسپٹل میں،میں نے خود تمہاری آنکھوں میں ماریہ ابراہیم کے لیے فکرمندی دیکھی تھی۔تم اسے تو کبھی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔اس کے علاوہ جس کے ساتھ جو چاہو کرو،میری بلا سے“۔۔
”بہت تیز ہیں آپ۔اتنی ٹینس سچویشن میں بھی جاسوسی نہیں چھوڑی“۔وہ دل ہی دل میں بڑبڑایا۔فاز عالم ایک پل کے لیے رکا،مسکرایا اور بے حد سنجیدگی سے گویا ہوا۔
”آپ ان کپڑوں میں بالکل کھٹا میٹھا فالسہ لگ رہی ہیں“۔بہت ہی غیر متوقع بات اس نے کہی تھی۔اور اسی تیزی سے وہاں سے چلا گیا۔فاطمہ کا منہ حیرت سے کھل گیا۔
”ایڈیٹ!تعریف بھی نہیں کرنی آتی۔ایک بار ہاتھ آجاؤ،تعریف کرنا نہ سکھادی تو میں بھی فاطمہ کمال نہیں…“ وہ جلتی کڑھتی بڑبڑائی،مگر دل کی گہرائی میں کہیں ہلکی سی مسکان آ بسی تھی۔بارش اب تیز ہوچکی تھی۔بوندیں زمین پر جلترنگ بجا رہی تھیں۔نیچے نظر گئی تو فاز عالم اپنے فل گیٹ اپ گاڑی میں بیٹھنے لگا۔
”بہروپیا“۔اس نے زیر لب کہا۔”میں خود پتہ لگا لوں گی تم کون ہو؟آنکھوں میں چمک ابھر آئی۔”پتہ نہیں کون سے مجبوری ہے جو اپنا تعارف کروانے پر بھی اتنی ہچکچاہٹ“۔اس نے ناک میں سے مکھی اڑائی۔اور اندر کی طرف قدم بڑھالیے۔
رات گہری ہو چکی تھی۔کھڑکیوں سے آتی ٹھنڈی ہوا کمرے کے سناٹے میں سرگوشیوں جیسی محسوس ہو رہی تھی۔ صوفے پر ڈھیلے انداز میں بیٹھے ارمان نے فون کان سے لگایا،سر پیچھے ٹکا دیا،اور آنکھیں موند لیں۔سامنے ٹیبل پر لیپ ٹاپ کھلا تھا،اسکرین پر کچھ ادھورے ڈاکیومنٹس جگمگا رہے تھے،اور ارد گرد فائلیں بےترتیب بکھری ہوئی تھیں۔
”ماریہ،کیسی ہیں آپ؟“۔کال ریسیو ہوتے ہی وہ بے قراری سے سوال کیا۔
”کال کس لیے کی ہے؟“۔آواز میں وہی اجنبیت تھی جو پچھلے کچھ دنوں سے در آئی تھی۔اس دن کے بعد،جب ارمان نے دل کی بات کہہ دی تھی،ماریہ اس سے کترانے لگی تھی۔
”آپ نے میری بات کا جواب نہیں دیا“۔ارمان نے آنکھیں بند کرتے ہوئے پیشانی انگلیوں سے دبائی۔
”میری خیریت جان کر کیا کریں گے؟“۔ماریہ نے تکیہ سینے سے لپٹتے ہوئے بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا لی۔
”اپنے دل کو سکون پہنچاؤں گا“۔لفظ برجستہ تھے،مگر اتنے گہرے کہ ماریہ کا دل جیسے ایک لمحے کے لیے ٹھہر گیا۔اس نے دانتوں تلے لب دبا لیے۔
”آپ پلیز میرے لیے مشکل نہ کریں، ارمان“۔اس نے آنکھیں میچ کر آنسو اندر اتارے۔وہ جتنا خود کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی، اتنا ہی دل بےقابو ہوا جا رہا تھا۔جب تک وہ یہ جانتی تھی کہ اس کی محبت یک طرفہ ہے تب دل کو ڈانٹ ڈپٹ کر خاموش کروادیا تھا۔مگر جب اسے معلوم پڑا کہ ارمان شاہد کے دل میں بھی اس کے لیے جذبات ہیں، تب سے اس کا دل اپنی من مانی پر اتر آیا تھا۔اب دل ارمان شاہد سے دستبردار ہونے کو تیار نہ تھا۔
”میں آپ کو اور خود کو اس مشکل سے بچانا چاہتا ہوں“۔ماریہ کی پلکیں لرزیں۔ارمان کی آواز میں جو ٹوٹ پھوٹ تھی،وہ سیدھی اس کے دل میں اتر رہی تھی۔
”آ… آپ ٹھیک ہیں؟“۔سینے کے اندر دھڑکن بےقابو ہو رہی تھی۔وہ بےچین ہو کر کھڑی ہوئی،تیز تیز سانسیں لیں،اور کھڑکی کے پٹ کھول دیے۔
”میں روح کا تعلق جسم سے ٹوٹنے سے پہلے آپ کو اپنے نکاح میں لینا چاہتا ہوں،ماریہ“۔۔اس کی آواز بھاری ہوئی تھی۔ماریہ ٹھٹک گئی۔
”میں جانتا ہوں،یہ فیصلہ آپ کے لیے بےرحم ہے۔لیکن میں سانسوں کی بےوفائی سے پہلے آپ کا نام اپنے نام سے جڑتا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں“۔ارمان نے آنکھوں کھولیں۔سرخ بھیگی ہوئی آنکھیں۔دوسری جانب ماریہ کے لب ہلکے سے کانپے۔
”مجھے… ارمان، آپ مجھے ٹھیک نہیں لگ رہے“۔اس کے اندر گھبراہٹ کی ایک لہر دوڑ گئی۔”پلیز بتائیں،کیا ہوا ہے؟“۔۔
”آپ بہت سی چیزوں سے لاعلم ہیں،ماریہ۔بالکل ویسے جیسے فاطمہ“۔ارمان کی آواز میں جو تھکن تھی،جو تکلیف تھی،وہ ناقابلِ برداشت تھی۔
”میں جانتا ہوں،آپ مجھ سے محبت کرتی ہیں۔آپ میرے دل کی دھڑکن ہیں۔زندگی اور موت کا بھروسہ نہیں۔میں اس سے پہلے آپ کو خود کا ہوتا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں“۔ہمیشہ ہنستے مسکراتے رہنے والے مرد کی آنکھوں سے آنسو گرتے ہوئے داڑھی میں جذب ہوگئے۔اس کی سرخ،بھیگی ہوئی آنکھیں،بڑھی ہوئی شیو،شکن زدہ لباس۔وہ ایک بکھرا ہوا شخص لگ رہا تھا۔
”ارمان“۔اس کی آواز درد سے لبریز تھی۔اس کی سسکی ابھری۔
”میں نے آپ سے یہ سب اس لیے نہیں کہا تاکہ آپ رو کر خود کو تکلیف دیں۔میں بس… میں خود کو بہت اکیلا محسوس کر رہا تھا،ماریہ۔میں نے آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہا تھا“۔۔وہ بےبسی سے بولا۔
”میں نکاح کے لیے تیار ہوں، لیکن…“۔اس کی آواز کہیں بہت دور سے آتی محسوس ہوئی۔
”لیکن کیا؟“۔ارمان ایک جھٹکے سے سیدھا ہوا۔
”میں اپنے گھر کے کسی فرد کے بغیر یہ نہیں کر سکتی“۔آنسو اس کی پلکوں سے ٹوٹ کر گرنے لگے۔وہ ایک بےبسی میں آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی۔
”اگر نکاح میں آپ کے دو بھائی ہوں،پھر تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، نا؟“۔وہ اب پرسکون سا پوچھ رہا تھا۔
”میرے… دو بھائی؟“۔ماریہ کے ہاتھ لرز گئے۔آنکھیں حیرانی سے پھیل گئیں۔
”ہاں۔نکاح میں مل لیجیے گا ان سے“۔اس نے مبہم سا جواب دیا۔
”آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں؟۔۔آئی مین۔۔یہ چھوٹی بات نہیں۔مجھے اپنی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں“۔تکلیف دہ خیال آتے ہی وہ ہچکچا سا گیا۔پہلی بار زندگی میں شاید وہ بات کرتے ہوئے ہچکچایا تھا۔
”میں آپ کو کچھ نہیں ہونے دوں گی“۔وہ تڑپ کر بولی۔
ارمان کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی،جیسے کوئی ٹوٹا بکھرا شخص پہلی بار سکون محسوس کرے۔
”یہ سوسائٹی بیوہ کے لیے کتنی مشکل کھڑی کر دیتی ہے، آپ جانتی ہیں، نا؟ایک بار سوچ لیں ماریہ“۔۔سارے فیصلے کے حق اس سے لے کر وہ کہ رہا تھا ایک بار سوچ لیں۔۔کیا اب بھی سوچنے کی گنجائش باقی تھی؟۔
”اللّٰہ جب مجھے اتنے انتظار کے بعد آپ سے نوازے گا،تو میں اس سے کہوں گی کہ نوازنے کے بعد آپ کو واپس نہ لے بلکہ مجھے ہمیشہ کے لیے نواز دے۔مجھے یقین ہے،میرا رب مجھے خالی ہاتھ نہیں لوٹائے گا۔لیکن اگر پھر بھی کچھ ایسا ہو جائے،تو میرے لیے آپ کا نام اعزاز ہوگا،ارمان“۔اس کی مترنم آواز اس کے کانوں میں رس گھولتی ہوئی محسوس ہوئی۔ارمان نے گہری سانس لی۔اس کے اندر ایک پرسکون سی روشنی اُتر آئی۔
دونوں کے دل سے بیک وقت دعا نکلی۔ان کا رب کبھی انہیں جدا نہ کرے۔
”ویسے آپ بہت بےرحم ہیں،ابھی نکاح میں آئی نہیں اور بیوہ کرنے کا بھی سوچ لیا؟“۔چند لمحے مکمل خاموشی میں بیت گئے۔پھر ماریہ کی آواز ابھری۔
”میں تو آپ کے ساتھ بوڑھا ہونا چاہتا ہوں۔زندگی کا ہر لمحہ آپ کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں۔لیکن کچھ حقیقتیں ایسی ہوتی ہیں جن سے آپ چاہ کر بھی نظریں نہیں چرا سکتے“۔ارمان کی آنکھوں میں ہلکی سی ہنسی چمکی،لیکن آنسوؤں کے بیچ وہ دھندلا گئی۔میلوں کے سفر سے وہ تھک گیا تھا۔
”ارمان، کیا بات ہے؟“۔۔وہ فکرمندی سے سوال کی۔
”جلد جان جائیں گی سب کچھ…ابھی آپ سوجائیں۔اللہ حافظ“۔۔
کچن میں قورمے کی خوشبو دیواروں سے ٹکرا کر پورے ماحول میں گھل رہی تھی۔چمچ کی مدھم آواز اور جلتے مسالوں کی خوشبو میں ہاجرہ کے ہاتھ مہارت سے چل رہے تھے جب فاز عالم کی قدموں کی چاپ سنائی دی۔
”السلام علیکم، صاحب“۔ہاجرہ نے چمچ ہانڈی میں گھماتے ہوئے احتراماً سلام کیا۔
”وعلیکم السلام…“فاز نے کچن کی دہلیز پر کھڑے ہوتے ہی ایک نظر اردگرد دوڑائی،پھر ماتھے پر ہلکی سی شکن ڈال کر پوچھا۔”فاطمہ کہاں ہیں؟“۔اس نے اکثر فاطمہ کو ہاجرہ کے ساتھ باتیں کرتے دیکھا تھا۔ آج اس کی غیر موجودگی نے اسے چونکا دیا۔
”جی، وہ تو صبح آپ کے جانے کے بعد کمرے سے نکلی ہی نہیں“۔ہاجرہ نے جواب دیا،پھر چمچ کو ہلکی سی آواز کے ساتھ برتن کے کنارے ٹکایا۔
فاز نے ہلکا سا سر ہلایا اور لمبے قدم اٹھاتا ہوا کمرے کی طرف بڑھا۔
دروازہ کھولا تو روشنی مدھم تھی۔کھڑکی سے آتی شام کی آخری کرنیں صوفے پر بیٹھی فاطمہ پر گررہی تھیں۔وہ گھٹنوں کو سینے سے لگائے،ہاتھ ان کے گرد لپیٹے،چہرہ زانوں پر رکھے کسی گہرے خیال میں گم تھی۔
”فاطمہ، آپ ٹھیک ہیں؟“۔
فاز کی گہری مگر نرم آواز پر وہ چونکی،تیزی سے سیدھی ہوئی،اپنے پاؤں زمین پر ٹکائے۔بائیں ہاتھ سے جلدی جلدی چہرے پر ہاتھ پھیرا،جیسے آنسو مٹانے کی کوشش کر رہی ہو۔
”آپ رو رہی ہیں؟ کیوں؟“۔فاز چند لمحے خاموشی سے اسے دیکھتا رہا،پھر اس کے قریب بیٹھتے ہوئے نرمی سے بولا۔آنکھوں میں نرم تاثر لیے۔اس پل اگر فاطمہ کمال،فاز عالم کی آنکھوں میں دیکھ لیتی تو سب کچھ بھول جاتی۔
”تھکنے لگی ہوں…“۔سر جھکائے دھیمی آواز میں بولی۔اس کی آواز میں اداسی گھلی تھی۔
”آپ کو پتہ ہے،فاطمہ؟آپ بہت بہادر ہیں،مضبوط ہیں۔بس تھوڑی سی اور ہمت کر لیں۔میں آپ کو سب کچھ سچ بتانا چاہتا ہوں، لیکن کچھ مسئلے ایسے درمیان میں آرہے کہ میں چاہ کر بھی آپ کو ابھی نہیں بتاسکتا۔اس کے بعد میں آپ کو کبھی تھکنے نہیں دوں گا…کبھی بھی نہیں“۔فاطمہ نے بےاختیار آنکھیں بند کر لیں۔فاز کی دھیمی دلکش آواز،اپنے قریب محسوس کرتی اس کی موجودگی،اس کی مدھم خوشبو،اس کے لہجے کی گہرائی۔کیا اب بھی دھڑکنوں نے شور نہیں مچانا تھا؟۔فاطمہ کی گرفت صوفے کے کنارے پر مضبوط ہوئی۔
”مجھے بابا یاد آ رہے ہیں…“۔اس کی نیلی آنکھوں سے خاموشی سے آنسو بہہ نکلے۔
”آپ ان کے لیے دعا کریں۔آپ جانتی ہیں؟تین چیزیں ایسی ہیں کہ مرنے کے بعد بھی کام آتی ہیں جیسا کہ اللہ کے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا۔جب انسان مَر جاتا ہے تو تین اعمال کے علاوہ اس کے عمل مُنقَطع ہو جاتے ہیں۔صدقۂ جاریہ،وہ علم جس سے نفع اٹھایا جاتا ہو اور نیک اولاد جو اس کے لئے دُعا کرے“۔فاز نے پل بھر کے لیے کچھ نہ کہا، پھر مدھم مگر مضبوط لہجے میں بولا۔
”بابا گھر پہ بھی نہیں آسکے“۔۔اس کی آواز میں افسردگی گھل گئی۔فاز کا چہرہ اچانک ہی سپاٹ اور آنکھیں سرد ہو گئیں۔
”کوئی مسئلہ ہے؟“۔فاطمہ چونک گئی۔فاز نے پلکیں موند لیں، جیسے کسی تلخ یاد کے دروازے بند کر رہا ہو۔
”بزنس کے کچھ مسائل ہیں،اسی وجہ سے پریشان ہوں“۔
”ایسے کاموں میں ایسا تو ہوتا ہی ہے“۔فاطمہ نے ناک چڑھائی،ذرا بدمزہ ہو کر پیچھے ہوئی،پھر دھیرے سے کہا۔فاز عالم ہنس دیا۔
”کہتے ہیں،اچھے لوگوں پر ساری مشکلات ایک ہی وقت میں آتی ہیں۔ہر جگہ سے دروازے بند ہوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں،آپ کے مشکل وقت پر ہر کوئی پیچھے ہٹ جاتا ہے۔لوگ آپ کے حالات پر ہنستے ہیں۔پتہ ہے اللّٰہ اس وقت ہمیں لوگوں کے اصل چہرے دکھا رہا ہوتا ہے۔دیکھو کون تمہارا اپنا ہے اور کون نہیں؟کون دشمن ہے اور کون دوست؟آپ اسی مشکل وقت میں ہیں فاطمہ۔باپ کو کھودینا آسان نہیں ہوتا، میں آپ کی تکلیف سمجھ سکتا ہوں۔میرے لفظ آپ کے درد کم نہیں کر سکتے،لیکن مجھے آپ پر یقین ہے۔آپ باہمت لڑکی ہیں۔آپ اس کٹھن وقت سے جلد ہی نکل آئینگی“۔
مفاطمہ خاموشی سے،گال پر ہاتھ رکھے،اس کی ہر بات کو اپنی روح میں اتارتی رہی۔
اچانک اس کے ہونٹوں پر ایک شوخ مسکراہٹ کھیل گئی۔
”تم کیا ہر لڑکی کو اسی طرح دلاسہ دیتے ہو؟کیونکہ محبت تو تم مجھ سے کرتے نہیں“۔
فاز، جو سمجھ رہا تھا کہ فاطمہ اس کی باتوں کے زیرِ اثر ہے،اس جملے پر ٹھٹک گیا۔
”میں بہت مصروف آدمی ہوں،اتنا وقت نہیں ہوتا کہ ہر کسی کو دلاسہ دیتا پھروں۔میرا قیمتی وقت صرف خاص لوگوں کے لیے ہوتا ہے“۔چہرے پر دھیمی مگر دلکش مسکراہٹ پھیل گئی۔
”تو تم کہنا چاہتے ہو کہ میں خاص ہوں؟“۔فاطمہ نے آنکھوں میں چمک لیے پوچھا۔
”آف کورس!آپ میری بیوی ہیں،تو خاص لوگوں میں ہی آئیں گی“۔فاز نے لمحہ بھر کے لیے اس کی نیلی آنکھوں میں دیکھا،پھر ہلکا سا مسکرا کر عام سے انداز گویا ہوا۔کتنے آرام سے وہ ایسی باتیں کہ جاتا تھا؟اس کے گال سرخی مائل ہوئے۔
یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر نکل گیا،اور پیچھے فاطمہ کے دل و دماغ میں جذبات کا ایک نیا طوفان برپا ہو چکا تھا۔
صبح کی پہلی کرن جیسے ہی کمرے میں اتری،سنہری روشنی نے ہر گوشے کو دھیرے دھیرے اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا۔نرم روشنی اس کے چہرے پر پڑی تو وہ بے ساختہ کروٹ بدل کر کسمسایا،پھر دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔ پلکوں پر نیند کی کچھ رمق باقی تھی،مگر ذہن پوری طرح بیدار ہو چکا تھا۔
بلینکٹ ایک جھٹکے سے پرے پھینکا،سائیڈ ٹیبل پر رکھا موبائل اٹھایا اور اسکرین پر انگلیاں پھیرنے لگا۔ ایک لمحے کے لیے نوٹیفکیشنز پر نظر ڈالی،پھر موبائل سائیڈ پر رکھ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔کچھ ہی لمحوں بعد،وضو کر کے واپس آیا،جائے نماز بچھائی اور مکمل خاموشی میں نماز ادا کی۔
نماز سے فارغ ہو کر وہ اٹھا،ہاتھ چہرے پر پھیر کر آنکھوں کی نمی صاف کی،پھر الماری سے کپڑے نکال کر تیار ہونے لگا۔لباس درست کرتے ہی اس نے کسی کو کال ملائی،آواز کی گہرائی میں ایک خاص سنجیدگی تھی۔
”شاہد عباسی کو فاطمہ کمال کے بارے میں تو پتہ چل ہی گیا ہے۔اب آگے تمہیں خیال رکھنا ہوگا“۔یہ کہتے ہی اس نے موبائل جیب میں رکھنا چاہا مگر ٹھیک اسی لمحے دروازہ دھڑ سے کھلا،اور شاہد عباسی غصے سے بھرا چہرہ لیے اندر داخل ہوا۔
ارمان کی نظریں لمحے بھر کے لیے اٹھیں،مگر اس کے چہرے پر کوئی پریشانی نہیں تھی،جیسے یہ سب اس کے لیے غیر متوقع نہیں تھا۔وہ جلدی سے موبائل کی اسکرین پر انگلیاں چلاتا ہوا کوئی پیغام ٹائپ کر کے اسی سرعت سے موبائل جیب میں رکھ چکا تھا۔
”صبح بخیر“۔اس نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا اور پرسکون انداز میں کف کے بٹن لگانے لگا۔
”تم فاطمہ کمال کو پروٹیکٹ کر رہے ہو؟“۔سرد سلگتی نگاہیں ارمان شاہد پر جمی تھیں۔
”میں نے کب کہا کہ میں ان کو پروٹیکٹ کر رہا ہوں؟“۔ارمان نے سنجیدگی سے انہیں دیکھا، پھر بے نیازی سے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”تم نے اس کی سچائی مجھ سے چھپائی،اور ابھی کسی کو اس کے متعلق اطلاع دے رہے تھے۔یہ سب کیا ہے؟“۔ شاہد عباسی کی آواز میں درشتگی تھی۔
کمرے کی فضا میں تناؤ بڑھ چکا تھا۔بھروسے کی دیوار جو ان کے درمیان حائل تھی وہ گرچکی تھی۔اس کی جگہ ایک نئی دیوار تعمیر ہوئی تھی۔شک کی دیوار۔ایک ایسی دیوار جو ایک بار اٹھ جائے تو آسانی سے نہیں گرتی۔
”مجھے معلوم نہیں تھا کہ ان کی حفاظت بھی کرنی ہے، لیکن لگتا ہے آپ انہیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں،جب ہی آپ کو خدشہ ہے کہ کہیں میں ان کی حفاظت نہ کر لوں“۔ارمان نے بہت اطمینان سے نظریں ان پر گاڑھیں،پھر دھیمے مگر کاٹ دار لہجے میں کہا۔
شاہد عباسی نے غصے سے لب بھینچ لیے۔ایک گہری سانس لی، مگر ان کی آنکھوں میں بھڑکتا شعلہ بجھنے کو تیار نہیں تھا۔
”ارمان، میں تمہیں وارن کر رہا ہوں…دور رہو ان سب چیزوں سے۔اگر محبت کا چکر ہے تو بھول جاؤ،کیونکہ یہ ممکن نہیں“۔ان کا لہجہ سرد تھا۔
”آپ اسے کچھ نہیں کر سکتے… کچھ بھی نہیں“۔۔اس نے اسپاٹ چہرے کے ساتھ کہا۔
”مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ میں نے آستین کا سانپ پال رکھا ہے۔اگر تم نے میرے معاملات میں دخل دینے کی کوشش کی، لتو میں بھول جاؤں گا کہ ہمارے درمیان کیا رشتہ ہے“۔شاہد عباسی کا ضبط لرزنے لگا۔ وہ چند لمحے خاموشی سے اسے دیکھتے رہے، پھر آگے بڑھ کر غصے سے انگلی اٹھائی۔ارمان کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے ایک عجیب مسکراہٹ آئی۔
”ہمارے درمیان کیا رشتہ ہے؟“۔وہ بے خوفی سے ان کی آنکھوں میں جھانک کر بولا۔یہ سوال تھا، میا وار؟۔شاہد عباسی کی سانس رک گئی۔رنگت پھیکی پڑ گئی۔”باپ اور بیٹے کا،اور اب کوئی باپ اپنے بیٹے کو نقصان تو نہیں پہنچائے گا، نا؟“۔اس کے اگلے جملے پر انکی سانسیں اور رنگت بحال ہوئیں۔
”آپ میرے بیٹے سے کس لہجے میں بات کر رہے ہیں، شاہد؟“۔اور تبھی، باہر سے ایک مضبوط نسوانی آواز گونجی۔
شاہد عباسی ایک جھٹکے سے پلٹے۔دروازے کے فریم پر ایک فائزہ کھڑی تھیں۔ارمان کے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔
”بس ایسے ہی،بزنس کی باتیں ہو رہی تھیں“۔شاہد عباسی نے لمحہ بھر انہیں دیکھا،پھر ہلکی سی مصنوعی مسکراہٹ سجائی۔
”میں نے آپ کی ساری گفتگو سن لی ہے، شاہد۔کیا چاہتے ہیں آپ میرے بیٹے سے؟ اور اس لڑکی سے؟“ فائزہ آگے بڑھیں،نظریں شاہد عباسی پر گاڑھیں۔شاہد عباسی نے سختی سے لب بھینچ لیے۔ان کے چہرے کے تاثرات ان کے اندر کے طوفان کی عکاسی کر رہے تھے۔
”کمرے میں چل کر بات کرتے ہیں“۔وہ سنجیدگی سے بولے، اور آگے بڑھ کر ان کا ہاتھ تھامنے کی کوشش کی،مگر وہ پہلے ہی اپنا راستہ بنا چکی تھیں۔
جیسے ہی وہ دونوں کمرے سے نکلے،ارمان کے ہونٹوں پر ایک گہری،تمسخرانہ مسکراہٹ ابھری۔اس نے آرام سے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی،جیسے کوئی ایسا کھیل کھیل رہا ہو،جس کا اختتام وہ پہلے سے جانتا ہو۔
نرم سفید لباس،جس پر نفیس سنہری کام تھا،روشنی میں یوں جھلملایا جیسے چاندنی پر سونے کی آبشار بہا دی گئی تھی۔گلے اور آستینوں کے کنارے سنہری حاشیوں سے سجے تھے،جبکہ گٹھنوں تک آتی کمیز کے ساتھ گھیردار گرارا پہنے اسے کسی شہزادی کی طرح آراستہ کر رہا تھا۔سر پر سلیقے سے جمایا گیا دوپٹہ،جس کے اوپر لال چنری کا گھونگھٹ تھا،اس کے حسن کو اور نکھار رہا تھا۔
وہ صوفے پر بیٹھی تھی،دل کی دھڑکن معمول سے کہیں زیادہ تیز تھی۔سرخ گھونگھٹ کے پیچھے اس کی آنکھیں انتظار اور بے قراری سے لبریز تھیں۔تبھی دروازہ کھلا،اور دو شخصیات اندر داخل ہوئیں۔
نظر جیسے ہی ان پر پڑی،وقت ایک لمحے کو تھم گیا۔اس کی سانس جیسے رک گئی تھیں،نظریں پتھرا گئیں،ہاتھ غیر محسوس طریقے سے لرزے۔وجود ایک لمحے کو ساکت ہوگیا۔ جھٹ سے گھونگھٹ ہٹا کر وہ بے یقینی سے انہیں تکنے لگی، پلکیں جھپکنا بھول گئی۔ان میں سے ایک شخص کو دیکھ کر حیرت کی شدت ایسی تھی کہ الفاظ بھی کھو گئے،اور دوسرے شخص کو اس کے ساتھ دیکھ کر حیرانی دوچند ہو گئی۔
وہ دونوں قریب آئے۔ابھی بھی اس کے وجود میں سکت نہ تھی کہ ہل سکے،کہ پلکیں جھپکا سکے،کہ کوئی لفظ ادا کر سکے۔
اور پھر…
ایک نرم، مضبوط لمس نے اسے خود سے لگا لیا۔
وہ شاک کے حصار سے نکلی تو زار و قطار رونے لگی،برسوں کی پیاس آنسوؤں میں بہنے لگی تھی،دل میں جمع ہونے والے دکھ پل میں بہا دیے گئے ہوں۔وہ محبت، وہ دوستی،وہ اپنائیت،وہ لمس…جس کی وہ متلاشی رہی تھی،آج وہ سب کچھ اسے اس ایک لمحے میں مل گیا تھا۔
پھر نرمی سے اسے چپ کرایا گیا،تھپکیاں دی گئیں،سنبھالا گیا۔اسی نرمی اور محبت کے ساتھ دوسرے شخص کا تعارف کروایا گیا۔
اور وہ تعارف… ایک اور شاک تھا۔
وہ حیرت کے ایک اور دائرے میں داخل ہوگئی۔اب کی بار وہ دوسرے شخص کے سینے سے لگ کر رو دی،برسوں کا کوئی خلا پورا ہو گیا تھا،بکھری ہوئی زندگی یکدم جڑنے لگی تھی۔
وہ دونوں،وہ دو سایہ دار شجر،اس کے دائیں بائیں کھڑے تھے،اسے سنبھال رہے تھے،اسے حوصلہ دے رہے تھے۔
تبھی مولوی صاحب اندر داخل ہوئے۔وہ دونوں شخص اس کے ساتھ سایہ بن کر کھڑے ہوگئے۔
”قبول ہے؟“۔
ایک لمحے کو آنکھیں بھیگ گئیں،لب لرزے،شگفتہ بیگم اور ابراہیم صاحب کی شدت سے یاد آئی۔اس کے دائیں طرف کھڑے اس کے بھائی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تو دل میں سکون اترنے لگا۔محبتوں کے حصار میں وہ خود کو کسی اور ہی دنیا میں محسوس کر رہی تھی۔
”قبول ہے“۔
”قبول ہے“
”قبول ہے“۔
نکاح کے ان مقدس الفاظ کے ساتھ،اس کی روح میں روشنی بھر گئی تھی۔زندگی نے ایک نیا رنگ اختیار کر لیا تھا۔اور وہ پھر سے رو دی۔
یہ خوشی کے آنسو تھے،تشکر کے آنسو،برسوں کی تڑپ کے بعد ملنے والے سُکون کے آنسو۔
اسے ارمان کے ساتھ بٹھایا گیا،اسے خود پر شہزادی کا گماں ہونے لگا۔اس کی زندگی میں آج کے دن شامل ہونے والے تینوں مرد اسے شہزادی کی طرح ٹریٹ کررہے تھے۔اسے یکدم خود پر ناز ہونے لگا۔وہ تینوں مرد،اسے کسی قیمتی خزانے کی طرح سنبھال رہے تھے،اسے محبت اور عزت کے ہالے میں باندھ رہے تھے۔
پھر کسی نے نرمی سے اسے موبائل کی طرف متوجہ کیا۔اسکرین پر ایک باوقار،نفیس خاتون نمودار ہوئیں۔ویڈیو کال پر،نکاح کے لمحے سے لے کر اختتام تک،وہ ہر لمحہ موجود تھیں۔نظر جیسے ہی اس چہرے پر پڑی،ایک اور لہر آئی، آنکھیں مزید بھیگ گئیں۔ان سے بات کرتے ہوئے،اس نے اپنی روح میں عجب سا سکون محسوس کیا۔جیسے زندگی کی سب کھوئی ہوئی کڑیاں مل گئی تھی،جیسے نامکمل کہانی مکمل ہو چکی تھی۔
اور پھر ایک لمحے کو دل میں ایک خلش ابھری…”فاطمہ”۔اس کی سب سے عزیز ہستی،اس کی سب سے گہری دوست، اس کے سب سے قیمتی لمحے میں اس کے ساتھ نہیں تھی۔اس کی غیر موجودگی کا احساس دل میں ایک چبھتی ہوئی کسک چھوڑ گیا،مگر پھر اس نے آنکھیں بند کیں اور مسکرا دی۔کیونکہ آج،یہ دن اس کی زندگی کا سب سے حسین دن تھا۔
Mohabbat Fateh Tehri by Ayesha Asghar Episode 8
