”کوئی اتنا کیسے گر سکتا ہے،فاز؟ کیسے؟“۔فاطمہ کمال کی آواز میں شدید حیرت اور صدمہ تھا۔ساری بات سننے کے بعد وہ شاک کی کیفیت میں تھی۔
”جائیداد، حسد…یہ دونوں ایسی چیزیں ہیں جن کی خاطر لوگ رشتوں کو بھلانے میں لمحہ نہیں لگاتے۔ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں۔جانتی ہیں ایسا کیوں ہوتا ہے؟کیونکہ ان کے دلوں سے ایمان کی روشنی مدھم پڑتی جا رہی ہے اور ہوس بڑھتی جا رہی ہے،اتنی کہ سگے رشتے بھی ان کے ہاتھوں قربان کر دیے جاتے ہیں“۔فاز نے گہری سانس بھری،اس کے چہرے پر افسوس کی سیاہ چھاپ ابھری۔
”ایمان کی کس قدر کمی ہو گئی ہے ہم میں،فاز؟ہم کیوں یقین نہیں رکھتے کہ جو کچھ ہمارے نصیب میں ہے،وہ ہمیں ملے گا۔ہر شخص کو اس کے نصیب کا ملتا ہے،محبت بھی، دولت بھی اور اولاد بھی۔یہ تو نصیب کی بات ہوتی ہے“۔فاطمہ کمال نے سر جھکایا،آنکھوں میں آنسو لرزنے لگے۔
”اس لیے کہ ہم میں شکر کی عادت ختم ہو رہی ہے اور ہوس بڑھتی جا رہی ہے۔اور یہی ‘ذیادہ’ کی خواہش ہمیں لے ڈوبتی ہے۔اب لوگ قناعت پسند نہیں رہے۔ایمان والے اللّٰہ سے ڈرتے ہیں اور ہر مشکل میں اس سے ہی مدد مانگتے ہیں۔ایمان والا کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔کیونکہ اسے صرف اللّٰہ کی محبت سے غرض ہوتی ہے۔اس کی ناراضگی کی پرواہ ہوتی ہے۔ایمان والا حسد میں مبتلا نہیں ہوتا کیونکہ وہ جانتا ہے اس کا رب وہی عطا کرتا ہے جو اس کے لیے بہترین ہوتا ہے۔اور بدقسمتی سے ہم مسلمان اب صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں۔کیونکہ ہمارے دلوں میں ایمان کی روشنی مدھم پڑ چکی ہے۔“۔فاز کی سنجیدہ،بھاری آواز لاونج میں گونجی۔
”لوگ اتنے بے رحم اور سنگدل کیوں ہوگئے ہیں؟چند پیسوں کے لیے اپنے ہی رشتوں کے گلے کاٹ دیتے ہیں،ذرا ہاتھ نہیں کانپتے ان کے۔وہ پیسے جو چند سالوں میں ختم ہو جاتے ہیں،اس کے لیے ایسی بربادی مول لیتے ہیں،اور وہ قتل،وہ گناہ… وہ تو قبر تک ساتھ جاتا ہے،روزِ محشر کے دن بھی۔ پتہ نہیں ہم کیوں بھول جاتے ہیں یہ؟کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہمیں اپنے ہر عمل کا حساب دینا ہوگا؟“۔اس کی بھرائی ہوئی آواز میں رنج کی لہریں تھیں۔فاز نے اس کی تکلیف اپنے اندر اترتی محسوس کی۔چند لمحے خاموشی کے نظر ہوئے۔فاطمہ کمال بے آواز آنسو بہاتی رہی۔اس کی نظریں اپنے ہاتھ پر تھیں اور فاز کی اس پر۔
”یہ سب آپ کے بابا خود آپ کو بتانے والے تھے،مگر وہ نہ بتا سکے۔اور یہ ذمہ داری انہوں نے مجھے سونپی“۔فاز کی سنجیدہ آواز فاطمہ کمال نے چونک کر اسے دیکھا۔کچھ لمحے خاموش رہ کر گہری سنجیدگی سے اسے دیکھتی رہی، پھر دھیرے سے گویا ہوئی۔
”بتانے والے تو وہ تمہارے بارے میں بھی تھے۔تو کیا وہ نہیں بتاؤ گے؟“۔اس کی گھورتی آنکھوں میں معصومانہ طنز جھلکا۔
”آپ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیے گا“۔فاز نے آہستگی سے سر جھکاتا ہنسا۔پھر وہ صوفے پر سے اٹھ کھڑا ہوا۔
”نہیں بتا رہے؟“۔فاطمہ نے ہاتھ باندھ کر صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی اور بہت ٹھنڈے لہجے میں پوچھا۔
”بتانے میں مجھے کوئی مسئلہ نہیں،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ عورتیں پیٹ کی بہت کمزور ہوتی ہیں۔ادھر کوئی راز سنا نہیں کہ فوراً آگے پہنچا دیا۔ابھی مجھے اپنا ایک بہت اہم کام مکمل کرنا ہے،اس لیے میں رسک نہیں لے سکتا“۔وہ کندھے اچکاتے ہوئے بے پروائی سے بولا۔
فاطمہ کا چہرہ خفت سے سرخ ہو گیا۔”ایسی بات نہیں ہے“۔دفاع کی کمزور سی کوشش کی۔
”ہاں،جبھی تو ماریہ نے اتنی جلدی آپ تک خبر پہنچا دی“۔فاز نے شرارت بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
وہ کچن میں داخل ہوا تو فاطمہ اسے غور سے دیکھنے لگی۔ پہلے وہ اس سے اتنی باتیں نہیں کرتا تھا،نہ اسے یوں دیکھتا تھا،نہ ہی اس طرح ہنستا تھا…وہ بدل رہا تھا۔اور وہ یہ تبدیلی محسوس کر رہی تھی مگر اس کی وجہ سمجھ نہیں پائی تھی۔لیکن فاز عالم کا یوں ہنسنا،بے ساختہ باتیں کرنا… فاطمہ کو اچھا لگا تھا۔
وہ صوفے کے ہتھے پر کہنی ٹکائے، ہاتھ کو گال کے نیچے جمائے مدھم سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھنے لگی،جو آستینیں موڑے کیبنٹ سے پیالہ نکال رہا تھا۔
”کیا کر رہے ہو تم؟“۔وہ وہیں بیٹھے بیٹھے بولی۔
”ڈنر لگا رہا ہوں“۔وہ مصروف انداز میں بولا۔سالن تقریباً جلنے کو تھا،فاز نے بروقت برنر بند کر کے اسے بچا لیا۔دوبارہ دھیمی آنچ پر رکھ کر گرم کرنے لگا اور فریج سے کھیرا نکال کر تیزی سے کاٹنے لگا۔
”میں لگا دیتی ہوں“۔فاطمہ فوراً سے کھڑی ہو گئی،دوپٹہ کندھوں پر درست کرتے ہوئے۔
”آپ سکون سے بیٹھیں،آج مجھے کرنے دیں“۔وہ اس کی طرف پلٹا اور ذرا سا مسکرایا۔
فاطمہ کمال آنکھوں میں بہت سے جذبات لیے سر ہلاتی ہوئی دوبارہ بیٹھ گئی۔وہ فرصت سے اسے دیکھنے لگی۔فاز کچن میں مہارت سے کام کر رہا تھا۔برنر بند کر کے ڈش آؤٹ کرنے لگا،پھر کھانے کے برتن لا کر میز پر سجا دیے۔وہ پانی کی بوتل اور گلاس لینے کے لیے اٹھی،مگر فاز نے اسے نرمی سے بٹھا دیا۔فاطمہ کمال محبت کے جگنو آنکھوں میں لیے اسے دیکھتی رہی۔فاطمہ کمال کو فاز عالم اس وقت بہت اچھا لگ رہا تھا۔حد سے زیادہ اچھا۔اس کا دل محبت سے بھر آیا تھا۔کس قدر خوبصورت منظر تھا یہ؟۔کیا اب بھی فاطمہ کمال گرویدہ نہ ہوتی؟۔
”ماریہ نے آپ کو مزید کچھ نہیں بتایا؟“۔کھانے کے دوران اچانک فاز نے سوال کیا۔
”پولیس کا ہی بتایا ہے،کچھ اور بھی تھا کیا؟“۔وہ ہاتھ روک کر اسے دیکھنے لگی۔
”آپ کی کزن نے خود کو سیف سائیڈ میں رکھا ہے“۔فاز نے ہنستے ہوئے نوالہ بنایا
”کیا مطلب؟“۔فاطمہ نے الجھن سے اسے دیکھا۔
”کھانا اچھا بناتی ہیں آپ“۔فاز نے گھمبیر لہجے میں کہتے نوالہ اس کی طرف بڑھایا۔وہ حیران نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
”لے لیں،اب اس کا حق تو ہے میرے پاس“۔وہ دلکشی سے مسکرایا۔
فاطمہ کمال اس کے اس روپ پر مبہوت رہ گئی تھی۔ دھیرے سے منہ کھولتی ہوئی نوالہ لے لیا،نظریں جھکا کر چبانے لگی چہرہ سرخ ہونے لگا تھا،دھڑکنیں بے ترتیب ہوئیں تھیں۔
”تم یہ ساری بات کیسے جانتے ہو؟بابا نے تمہیں کب بتایا؟“۔کچھ لمحے بعد وہ سوال کی۔
”آپ کے بابا نے نہیں۔ایک عورت نے بتایا تھا۔جب کمال انکل نے مجھے بتانا چاہا تب میں انہیں روک دیا کہ میں سب جانتا ہوں اور ان سے زیادہ ہی“۔۔وہ کسی گہرے خیال میں گم ہوتا ہوا بولا۔
”کون تھی وہ عورت؟“۔۔فاطمہ ٹشو سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے اچھنبے سے بولی۔
”تھی ایک پیاری خاتون“۔۔۔وہ کہ کر کرسی پیچھے گھسکا کر کھڑا ہوا۔پلیٹ اٹھاتے سنک پر رکھا۔
”اب آپ مجھ سے دھونے کی توقع نہ رکھیے گا۔اتنا زن مرید ابھی واقع نہیں ہوا میں“۔۔۔فاطمہ کے پرسوچ چہرے کو دیکھ کر وہ شرارت سے گویا ہوا۔جواباً فاطمہ اسے گھور کر رہ گئی۔۔
ابراہیم مصطفیٰ بےچینی سے کمرے کے طول و عرض میں چکر کاٹ رہے تھے۔ان کی پیشانی پر فکر کی لکیریں نمایاں تھیں،سانسوں میں اضطراب گھلا ہوا تھا۔شمائلہ بیگم دروازے پر چند لمحے ٹھہر کر انھیں دیکھتی رہیں،پھر خاموشی سے اندر داخل ہو کر چائے کا کپ ان کے سامنے بڑھایا۔
”آپ ٹھیک ہیں؟“۔نرم لہجے میں پوچھا،مگر نگاہیں ان کی الجھن کا جائزہ لے رہی تھیں۔
ابراہیم مصطفیٰ نے ایک لمحے کے لیے کپ تھاما،مگر پھر جیسے کسی اور ہی خیال میں کھو گئے۔ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سی بے چینی تھی۔
”میں نے کہا تھا کسی نے آنا ہے،اور وہ آگیا ہے“۔وہ جیسے خود سے بول رہے تھے۔
”کیا مطلب؟کون آگیا؟“۔شمائلہ بیگم نے ناسمجھی سے انھیں دیکھا۔
ابراہیم مصطفیٰ نے آہستہ سے سر اٹھایا،ان کی نگاہیں کسی دور کے منظر میں اٹک چکی تھیں۔
”فاز۔۔۔شمائلہ،میرا دل کہہ رہا تھا کہ وہ یونہی ہماری زندگی میں نہیں آیا“۔ان کے لہجے میں یقین کی روشنی اور ماضی کی گونج تھی۔شمائلہ بیگم الجھی نظروں سے انھیں دیکھتی رہیں۔
”ابراہیم،یہاں بیٹھیں،آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی“۔ وہ فکر مندی سے ان کا بازو تھام کر انھیں بیڈ پر لے آئیں اور خود بھی پاس بیٹھ گئیں۔
”فاز عالم کا ذکر کہاں سے آگیا ابراہیم؟“۔انھوں نے نرمی سے استفسار کیا۔
ابراہیم مصطفیٰ نے تھکی ہوئی سانس لی،جیسے کوئی بوجھ برسوں سے سینے پر رکھا تھا اور اب الفاظ کے ذریعے باہر آنا چاہتا تھا۔
”جس پاور فل آدمی کا ذکر آفیسر نے کیا تھا،میرا دل کہتا ہے وہ فاز عالم ہے“۔ان کے لب ہلے اور ذہن جیسے لمحوں میں برسوں کا سفر طے کر گیا۔
”آپ یونہی سوچ رہے ہیں، وہ تو ایک غنڈہ ہے“۔شمائلہ بیگم نے ان کی پریشانی کو کم کرنے کی کوشش کی۔
مگر ابراہیم مصطفیٰ کی آنکھوں میں گزرے وقت کی وہ کہانیاں جھلک رہی تھیں جو ابھی مکمل کہی نہیں گئی تھیں۔وہ خاموشی سے آنکھیں موند گئے،اور کمرے میں ایک گہری اداسی پھیل گئی۔
ماریہ پارک سے واپس آئی تو گھر کا سنّاٹا اس کے وجود میں اتر گیا۔عام طور پر اس وقت دادی، پھوپھی، اور تائی لاؤنج میں بیٹھی باتیں کر رہی ہوتیں تھی،کسی دن چائے کے کپ کے ساتھ،تو کسی دن ماضی کی یادوں میں گم۔مگر آج…؟آج ہر کونا خاموش تھا،جیسے کوئی طوفان آ کر گزر چکا تھا۔
اس کا دل بےچینی سے دھڑکنے لگا۔قدم خودبخود شگفتہ بیگم کے کمرے کی طرف اٹھ گئے۔
”امی، گھر میں اتنی خاموشی کیوں ہے؟“۔شگفتہ بیگم نے سر اٹھایا۔ ان کی آنکھوں میں ایک انجانی تھکن تھی۔
”ایک کے بعد ایک آفت آ رہی ہے اس گھر پر“۔وہ تھکے ہوئے لہجے میں بولیں۔ماریہ کا دل بیٹھ گیا۔وہ جلدی سے ان کے قریب آ بیٹھی۔
”کیا مطلب؟ اب کیا ہوا ہے؟“۔
”کچھ دیر پہلے بہت بڑا تماشہ لگا تھا…تمہاری پھوپھی اور تائی میں شدید لڑائی ہوئی ہے“۔۔شگفتہ بیگم نے گہری سانس لی۔
”مگر کیوں؟ ہوا کیا ہے؟“۔وہ چونک گئی۔
شگفتہ بیگم نے ایک پل کے لیے اسے دیکھا،پھر وہ بات کہہ دی،جو کسی دھماکے سے کم نہ تھی۔
”عابد اور علینہ نے کورٹ میرج کر لی ہے“۔
کمرے میں جیسے سانس لینا بھی دشوار ہوگیا۔ماریہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں،الفاظ اس کے لبوں پر آ کر منجمد ہوگئے۔
”کورٹ میرج؟“۔وہ شدید صدمے سے بولی۔
ان دونوں کی شادی اس کے لیے غیر متوقع نہ تھی،مگر یوں اچانک،کورٹ میرج—یہ بات اسے ہلا گئی تھی۔
”چند روز پہلے ان دونوں نے شادی کی بات کی تھی۔تمہاری تائی نے صاف انکار کر دیا،اور تمہاری دادی… وہ ان حالات میں شادی کے لیے ہرگز تیار نہیں تھیں۔مگر آج،اچانک،وہ دونوں یہ خبر لے کر آئے“۔
شفگتہ بیگم کے لہجے میں افسوس تھا،مگر ماریہ شاک سے نکل کر پرسکون ہوگئی۔
زندگی تو جیسے ایک آئینہ ہے۔جو جیسا کرتا ہے،اسے ویسا ہی ملتا ہے۔
اس نے گہری سانس لی،سر جھٹکا،اور خاموشی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔ یہ سب اس کے لیے کوئی اہمیت ہی نہ رکھتا تھا۔
دو دن بیت چکے تھے۔فاز عالم ہر لمحہ مصروف تھا۔دوسری طرف پولیس بھی اپنے کام میں لگی ہوئی تھی۔فاطمہ کمال فاز کی جانب سے مطمئن تھی،مگر اس کا تجسس مسلسل انگڑائیاں لے رہا تھا۔
ہر روز فاز کے نکلتے ہی وہ جیسے کسی راز کی تلاش میں گھر کا چپہ چپہ کھنگالتی۔اس کا کمرہ،میز پر رکھی فائلیں، دراز میں پڑی چیزیں،حتیٰ کہ اس کی خوشبو میں بسے کپڑے بھی۔مگر ہر بار ناکامی اس کی انگلیاں چوم کر پیچھے ہٹ جاتی۔آج بھی وہ تھک ہار کر لاؤنج میں آ بیٹھی۔
لاؤنج کی بڑی کھڑکیوں سے شام کی ہلکی مدھم روشنی اندر آرہی تھی،جیسے کسی مصور نے کینوس پر نرمی سے پیلے اور سنہری رنگ بکھیر دیے ہوں۔مخملی پردے ہوا کے ہلکے جھونکوں سے ذرا ذرا سرک رہے تھے۔فانوس کی روشنی میں کرسٹل گلاس چمک رہا تھا،جس میں گلابی اسٹرابیری شیک بلور کی طرح صاف نظر آ رہا تھا۔ہاجرہ چپ چاپ شیک پکڑا کر چلی گئی،مگر فاطمہ کا دھیان کہیں اور تھا۔
گلاس کے کنارے پر انگلی پھیرتے ہوئے اس نے ماریہ ابراہیم کا نمبر ملایا۔دوسری طرف کال جیسے ہی ملی،اس نے سلام دعا کے رسمی جملوں کے بعد اصل بات پر آتے ہوئے دھیمے مگر سنجیدہ لہجے میں کہا۔
”ماریہ، تمہاری ارمان سے بات ہوتی ہے؟“۔کافی دنوں سے وہ اس سے یہ بات کرنا چاہ رہی تھی۔ماریہ کے جواب میں ایک لمحے کی خاموشی در آئی۔
”ہاں۔۔۔ہوتی ہے“ ۔پھر دھیمی سی سرگوشی ابھری۔
”تم اس سے دور رہو، ماریہ“۔فاطمہ کی بھنویں تن گئیں۔شیشے کے گلاس پر انگلی پھیرتے ہوئے اس نے دھیرے سے کہا۔
”فاطمہ۔۔۔“۔ماریہ کی آواز کسی پس و پیش میں الجھی ہوئی تھی۔
”ہاں کہو؟“۔
”میں ارمان سے نکاح کر چکی ہوں“۔الفاظ گونجے اور ایک لمحے کے لیے سب کچھ تھم گیا۔
”کیا؟“۔فاطمہ کا سانس اٹک گیا۔اسٹرابیری شیک کا گھونٹ جو ابھی لبوں سے لگا تھا،اچانک حلق میں اٹک گیا اور ایک فوارے کی طرح باہر آیا۔وہ بری طرح کھانسنے لگی۔
”فاطمہ!آپ ٹھیک ہیں؟“۔ماریہ کی گھبرائی ہوئی آواز فون سے گونجی۔
”چھپ کر کی ہو؟“۔خود کو سنبھالتے ہوئے،گہری سانس لے کر اس نے سخت لہجے میں پوچھا۔
”مکمل طور پر نہیں کہہ سکتے“۔ماریہ نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے،مگر پھر خود کو روکتے ہوئے گول مول جواب دیا۔ابھی وہ اسے سب خود سے بتانے کا رسک نہیں لے سکتی تھی۔
”تم جانتی ہو اس شخص نے ہمیں دھوکہ دیا ہے؟“۔فاطمہ کے چہرے پر سختی ابھری۔”وہ فاز عالم کے ساتھ ملا ہوا ہے“۔وہ برہم ہوئی تھی۔۔
”ہاں تو فاز بھائی کون سا برے انسان ہیں؟“۔اس نے کہتے لب دانتوں تلے دبایا اور آنکھیں میچ گئی۔فاطمہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
”واہ ماریہ! واہ! تم ایک ہی بار مجھے سارے جھٹکے دے دو نا،یہ وقفے وقفے سے دینے کی کیا ضرورت ہے؟فاز بھائی بھی ہوگئے؟“۔۔خفگی سے کہتے اس نے منہ کے زاویے بگاڑے۔
”آپ ہی تو کہتی ہیں وہ اچھے انسان ہیں۔بس خود کو کسی وجہ سے برے انسان کے گیٹ اپ میں ڈھالے ہوئے ہیں“۔ماریہ کی آواز دفاعی تھی۔
فاطمہ نے آنکھیں میچ کر لمبی سانس لی۔فاز کا دو دن پہلے ڈنر پر کہا گیا جملہ گونجا۔
”تمہاری باتوں سے لگتا ہے،تم پہلے سے سب کچھ جانتی ہو۔۔۔ شاید اور بھی کچھ۔اب مجھے سچ بتاؤ گی؟“۔کچھ سوچتے ہوئے سنجیدگی سے سوال کیا۔
”فاطمہ،امی بلا رہی ہیں،میں بعد میں بات کرتی ہوں“۔تیزی سے کہتے ہی کال کٹ گئی۔فاطمہ نے سختی سے لب بھینچ کر موبائل کی اسکرین کو دیکھا۔لاؤنج کی کھڑکیوں سے آتی روشنی مدھم ہو چکی تھی۔ شام کی حدت رات کے سائے میں ڈھل رہی تھی۔