ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
”میں نے کہا تھا ناں فاز،تم برے انسان نہیں ہو“۔۔وہ دھیرے سے مسکرائی،کافی کا کپ تھامے بالکونی میں کھڑی تھی۔ رات کے نرم سائے میں،ہوا مدھم سرگوشیوں میں کچھ کہہ رہی تھی۔کچھ ایسا جو صرف محسوس کیا جاسکتا تھا۔شام میں ہوئی غیر متوقع بارش کے بوندوں کی نمی ہوا میں ابھی باقی تھی۔فاز اپنے کام میں مصروف ہوگیا تھا۔اور دوپہر کے بعد اب انہیں وقت ملا تھا۔
”ہاں،کیونکہ میں نے کبھی آپ کو سچ میں گینگسٹر بن کر دکھایا ہی نہیں“۔وہ مسکرایا اور کافی کا کپ لبوں سے لگایا۔بالکونی کی لکڑی ابھی تک بارش سے نم تھی۔
”تم یہ بھی کہہ سکتے تھے فاطمہ آپ ذہین جو ہیں“۔وہ خفگی سے بولی۔ہوا کے دوش پر اڑتی آوارہ لٹوں کو کان کے پیچھے سرکاتے ہوئے۔آسمان پر چمکتا چاند اس بالکونی پر بکھری روشنی سے ان کے درمیان ایک نرم سا طلسم قائم کررہا تھا۔
”میں جھوٹ نہیں بولتا“۔جواب برجستہ تھا،مگر آنکھوں میں گہری چمک تھی۔فاطمہ نے ناراضی سے اسے دیکھا، نیلی آنکھوں میں اُترتی خفگی،کسی خزاں رسیدہ شاخ پر ٹھہرے آخری چند قطرے کی طرح تھی۔فاز عالم نے اس نظر میں کچھ ایسا محسوس کیا جو پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ایک انجانی گرفت،جو دل پر پڑی اور دل بے اختیار دھڑک اٹھا۔
”اتنے ہی تم سچے ناں…“وہ رخ پھیر کر خفگی سے بولی،نظریں سامنے موجود خاموش رات پر جما دیں۔
”کم از کم آپ کے معاملے میں تو سچا ہوں“۔اس کی گھمبیر آواز پر اس کا دل پگھلنے لگا۔
”جب ہی مجھ سے اپنے بارے میں جھوٹ کہا اور اب بھی تم نے مجھے نکاح کی وجہ نہیں بتائی“۔۔بدلتی کیفیت پر قابو پاتے ہنوز خفگی سے کہا۔
”حالات نے سچ بتانے سے منع کیا تھا۔لیکن آپ جلد جان جائیں گی“۔وہ سنجیدہ ہوا تھا۔آنکھیں گہری ہو گئیں،رات کی تاریکی سے بھی زیادہ اسرار سمیٹے ہوئے۔
”فاریہ ہاشم کیسی ہے؟“۔فاطمہ نے گہری سانس لی،پھر ایک دم چہرہ اس کی طرف موڑا۔
”فاریہ ہاشم کا ذکر کہاں سے آگیا؟“۔فاز نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا،کپ میز پر رکھا اور جونہی پلٹا نظریں اس کے پاؤں پر ٹھر گئی۔ٹھنڈے سنگ مرمر کو چھوتے وہ کومل پاؤں۔بارش کے باعث فرش گیلا اور ٹھنڈا تھا۔
”آخری ملاقات میں اس سے گفتگو کچھ سنجیدہ ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے وہ ملی ہی نہیں“۔وہ دھیرے سے بولی،جبکہ فاز نے آہستگی سے اپنا سلیپر اتارا اور بنا کچھ کہے اس کے قدموں کے قریب رکھ دیا۔فاطمہ پل بھر کے لیے ٹھر گئی۔نظریں حیرت میں الجھیں،پھر اس کے سلیپر پر جا رکیں۔ایک پل کو وقت جیسے ساکت ہوگیا۔سانسوں کی تال دھیمی ہوئی۔فاز آبرو کے ہلکے سے اشارے سے اسے پہننے کو کہا۔حیرت اور عقیدت کے نرم سائے فاطمہ کی پلکوں پر ٹھر گئے۔آہستگی سے اس کے سلیپر پہن لیے۔۔دل بھر سا آیا تھا۔اتنی فکر کیوں کرتا تھا وہ؟۔دل کے کسی نہاں خانے میں کچھ نرم سا بکھر گیا۔وہ کچھ کہتا نہیں تھا، بس کر دیتا تھا۔یہی اس کا انداز تھا۔خاموشی میں سب کہہ دینا۔اس کی بےصدا مہربانیاں محبت کے سبھی دعووں سے زیادہ معتبر تھیں۔یہ محبت کی وہ صورت تھی،جس میں لفظوں کی قید نہیں۔مگر جذبات کی گہرائی اتنی بے کراں کہ سمندروں کو بھی مات دے جائے۔
”کیسی گفتگو؟“۔فاز کی آواز پر وہ اس سحر زدہ کیفیت سے چونک کر باہر آئی۔فاطمہ نے سرد ہاتھوں میں کافی کا کپ مضبوطی سے تھاما،خود کو پرسکون کیا۔
”وہ تمہیں حاصل کرنا چاہتی ہے“۔اس نے بنا کسی لگی لپٹی کے کہہ دیا۔
”چیزیں حاصل کی جا سکتی ہیں،جیتے جاگتے انسان نہیں۔ کسی بھی شخص کو اپنا بنایا جاتا ہے،حاصل نہیں کیا جاتا“۔فاز نے ایک لمحے کو اسے دیکھا،پھر دھیرے سے مسکرایا۔فاطمہ غور سے اسے سننے لگی۔
”اور ہر کسی میں یہ ہنر نہیں ہوتا کہ وہ کسی کو بھی اپنا بنا سکے۔ہر انسان کے لیے ایک مخصوص انسان ہوتا ہے،اور وہی اسے مکمل کر سکتا ہے۔میرے لیے فاریہ ہاشم وہ مخصوص انسان نہیں ہے“۔۔اس نے بڑی خوبصورتی سے اس کے بےچین دل کو پرسکون کیا تھا۔فاطمہ نے بے اختیار نظریں اس کے چہرے پر مرکوز کیں۔
”تو پھر تمہارے لیے وہ مخصوص شخص کون ہے؟“۔جب پوچھا تو آواز میں برقراری تھی۔
”فاطمہ کمال“۔فاز نے اس کے یخ ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا۔اس کی نیلی گہری آنکھوں کو اپنی سیاہ آنکھوں میں قید کیا۔”میرے لیے وہ مخصوص شخص آپ ہیں“۔یہ صرف الفاظ نہیں تھے،کوئی جادوئی سحر زدہ کرتا جملہ تھا۔فاطمہ کو اپنا دل فاز کے ہاتھوں میں قید اپنے ہاتھوں میں دھڑکتا ہوا محسوس ہوا آج سے پہلے اپنا نام کبھی اتنا خوبصورت نہیں لگا تھا۔کسی کی آواز کبھی اتنی دلآویز نہیں لگی تھی۔
”تم…“۔وہ بولنے لگی،مگر پلکیں لرز گئیں،ہاتھ کانپ گئے،دل دھڑک اٹھا۔
اور پھر۔۔
موبائل کی چنگھاڑتی ہوئی گونج نے لمحے کے طلسم کو توڑ دیا۔فاز نے اس کا ہاتھ چھوڑا،فاطمہ تیزی سے پیچھے ہوئی۔فاز نے جیب سے موبائل نکالا،اور کان سے لگایا۔اپنی بےترتیب دھڑکنوں کی گونج سنتی فاطمہ کی نظریں جیسے فاز عالم پر گئیں،حیران سی رہ گئیں۔
کچھ دیر پہلے کی نرمی کی جگہ سختی نے لے لی تھی،چہرہ پتھر کی مانند سرد ہو گیا،اور آنکھوں میں ایک عجیب اضطراب ابھرا۔
”فاز؟“۔فاطمہ نے پکارا،مگر وہ جیسے سن ہی نہ پایا،تیز قدموں سے بالکونی سے باہر نکل گیا۔
پیچھے وہ فکرمند سی کھڑی رہ گئی۔کچھ دیر پہلے وہ وہ چہرہ وہ آنکھیں کتنی نرم لیے ہوئے تھی اور پھر کیسے سختی میں بدل گئی تھیں۔ناجانے دوسری جانب سے کیا خبر دی گئی تھی۔۔
ماریہ ابراہیم بیڈ پر نیم دراز تھی،مگر دل جیسے کسی بےنام اندیشے کے بوجھ تلے دبا جا رہا تھا۔ابھی کچھ لمحے قبل ہی اس کی ارمان سے بات ہوئی تھی،مگر اچانک ایک انجانا خوف،ایک عجیب سی بےچینی اس کے اندر سرایت کر گئی۔ اس نے بےساختہ موبائل اٹھایا اور ارمان کا نمبر ڈائل کیا۔ ایک بار، دو بار، تین بار۔۔ہر دفعہ نمبر بند۔اس کا دل تیز دھڑکنے لگا۔ ایک ایسا دھڑکا جو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بدن میں سرایت کرتا جا رہا تھا۔لرزتے ہاتھوں سے دوبارہ نمبر ملایا،مگر نتیجہ وہی۔ارمان کی کہی گئی باتوں کی بازگشت زور پکڑنے لگی۔
اب وہ بیڈ سے اٹھ چکی تھی،گھبراہٹ کی شدت آنکھوں میں نمی بن کر اتر آئی۔گھر میں کسی کو خبر نہ تھی،کس سے کہتی؟کس سے مدد مانگتی؟یکایک فاطمہ کا خیال آیا۔ امید کی ایک کرن۔اس نے کانپتے ہاتھوں سے فاطمہ کا نمبر ملایا۔ ایک، دو بیلیں…اور پھر دوسری طرف سے کال اٹھا لی گئی۔
”کیسی ہو ماریہ؟“۔فاطمہ کمال کی آواز میں ایک عجیب سا خالی پن تھا۔کچھ گھنٹے پہلے سب کچھ اتنا خوبصورت تھا۔ماروائی سا۔اور اب کچھ کتنا اداس ہوگیا تھا۔
”فاطمہ…میری فاز بھائی سے بات کروا دیں“۔اس کی آواز لرز رہی تھی،آنسو ضبط سے نکل کر لہجے میں اتر آئے تھے۔
”ماریہ؟تم رو کیوں رہی ہو؟سب ٹھیک ہے؟“۔فاطمہ کی پیشانی شکن آلود ہو گئی۔
”ارمان کال ریسیو نہیں کر رہے…میرا دل بہت گھبرا رہا ہے“۔۔اس کی آواز بھرا گئی۔
”اچھا تم رو تو نہیں۔ریلکس ہوجاؤ۔ہو سکتا ہے کسی کام میں مصروف ہو…“فاطمہ نے تسلی دینا چاہی،مگر اندر ہی اندر وہ دو الگ باتوں کو جوڑ رہی تھی۔اگر فاز آرمی میں تھا تو یقیناً ارمان بھی…اور پھر کچھ دیر پہکءٹ کی وہ پراسرار کال…فاز کے بدلے ہوئے تاثرات…
”کیسے نہ گھبراؤں فاطمہ؟ان کی جان کو خطرہ تھا۔انہوں نے مجھ سے نکاح اتنی جلدی اسی لیے کیا تھا“۔ماریہ کی بےبسی اس کے الفاظ میں چیخ رہی تھی۔
”کیا مطلب؟“۔فاطمہ کے ذہن میں ایک خیال کوندا۔کہیں واقعی کوئی انہونی نہ ہو گئی ہو؟کہیں فاز کا یوں اچانک نکل جانا اسی سے جُڑا تو نہیں؟
”ارمان آرمی میں ہیں،فاطمہ“۔
یہ سن کر فاطمہ نے گہری سانس لی۔
”ماریہ ابراہیم نکاح سب کچھ جاننے کے بعد کیا تھا ناں؟اب خود کو مضبوط کرو۔میں فاز سے معلوم کرتی ہوں،اس شرط پر کہ تم اب مزید نہیں روؤ گی“۔اس کی آواز میں
گہری سنجیدگی در آئی تھی۔
”نہیں رو رہی میں،بس پلیز جلدی معلوم کریں“۔فوراً سے آنسو صاف کیے۔فاطمہ نے اسے مزید کچھ ہدایتیں دے کر کال بند کر دی،اور خود بھی تھکن سے بیٹھ گئی۔تنے ہوئے اعصاب کو ڈھیلا چھوڑا۔سائیڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس اٹھا کر لبوں سے لگایا۔دماغ کو ذرا پرسکون کیا اور پھر فاز کا نمبر ملایا۔بیل جاتی رہی،مگر کال ریسیو نہیں کی گئی۔ایک بار، دو بار، تین بار…
اور پھر،جب ہر کوشش بےسود گئی،تو اس کے اندر ایک لاوا سا پھٹ پڑا۔انگلیاں تیزی سے موبائل کی اسکرین پر چلنے لگیں،اور اگلے ہی لمحے اس نے ایک سخت پیغام ٹائپ کر کے بھیج دیا۔
”اب اگر تم نے میری کال ریسیو نہیں کی تو میں گھر چھوڑ کر چلی جاؤں گی،پھر ڈھونڈتے رہنا“۔لب سختی سے بھینچ رکھے تھے۔وہ کمرے میں چکر کاٹنے لگی،اندر ایک تلاطم برپا تھا۔
”کتنی بیوقوف ہو تم فاطمہ کمال۔بس ذرا سی بات پر دل موم کر لیا۔فاز کا مقصد بھلے ہی نیک ہو طریقہ غلط تھا۔تم کیسے اسے اتنی جلدی معاف کر سکتی ہو؟تین ساڑھے تین ماہ کم نہیں ہوتے،اسے مجھے سچ بتانا چاہیے تھا۔اور وہ ارمان؟وہ تو شروع سے ہمارے ساتھ رہ کر ہمیں دھوکہ دیتا رہا! اور اب،اتنا کچھ کرنے کے بعد ان دونوں نے میرے علم میں لائے بغیر ماریہ کا نکاح بھی کروا دیا۔کتنے خودغرض، کتنے مطلبی نکلے یہ دونوں“۔غصے میں وہ ہاتھ ہلا ہلا کر خود سے بات کر رہی تھی،ماریہ کی سسکیاں اب بھی کانوں میں گونج رہی تھی۔
تبھی موبائل کی اسکرین جگمگائی۔فاز کی کال۔
”یہ دھمکی کسے دے رہی ہیں،محترمہ؟“۔دوسری طرف فاز عالم کی گہری آواز ابھری،کمرے سے نکلتا ہوا وہ کھلی فضا میں آیا تھا۔
”تمہیں دے رہی ہوں،فاز عالم۔لگتا ہے میرا پیغام غور سے پڑھا نہیں“۔وہ طنزیہ بولی۔
”کیوں کال کی تھی؟“۔بالکونی میں جو نرمی تھی ابھی اس نرمی کا اس کے لہجے میں شائبہ تک نہ تھا۔
”ارمان شاہد کہاں ہے؟“۔سخت انداز میں اس نے سوال کیا۔
”میں آپ کو ہر بات نہیں بتا سکتا“۔
”میں پوچھ رہی ہوں ارمان کہاں ہے؟ایک منٹ میں بتاؤ، ورنہ میں اس کے گھر پہنچ جاؤں گی“۔اس کی آواز بلند ہوئی تھی۔
”میں اسوقت بہت مصروف ہوں، آپ کی کسی بھی بدتمیزی کا فلوقت جواب نہیں دے سکتا“۔اس نے خود کو کچھ سخت کہنے سے باز رکھا۔اپنی بات کہ کر وہ کال کاٹنے ہی لگا تھا کہ اس چیخ پر ٹھر سا گیا۔
”میں بدتمیزی کررہی ہوں؟ہاں؟تم دونوں مل کر ناجانے میری بہن کو کیا کیا کہ کر اس کا نکاح ارمان سے کروا دیتے ہو۔پھر وہ ارمان صاحب غائب ہو جاتے ہیں۔پیچھے وہ اپنے شوہر کے لیے رو رو کر خود کو ہلکان کرچکی ہے۔لیکن تم دونوں کو صرف اپنی پرواہ ہے۔باقی سب جائیں بھاڑ میں۔جب وہ ہاسپٹل پہنچ جائے تب آکر اطلاع دے دینا کہ ارمان صاحب کہاں غائب ہیں؟“۔وہ بےدریغ برستی چلی گئی۔ہمیشہ کی طرح غصے میں جو منہ میں آیا بولتی چلی گئی۔
”ہی از انجرڈ“۔چند لمحے خاموشی رہی۔پھر،فاز کی گہری آواز سنائی دی۔فاطمہ کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔گرجتا ہوا بادل جیسے تھم سا گیا تھا۔
”جب اس کی جان کو خطرہ تھا تو نکاح چھپ کر کرنے کی کیا تُک تھی؟اگر کرنا ہی تھا تو کم از کم گھر کے بڑوں سے اجازت لیتے“۔۔لیکن ابھی بھی وہ مکمل طور پر کہاں تھمی تھی۔
”میں معذرت چاہتا ہوں،فاطمہ کمال۔پہلے آپ سے اجازت لینی چاہیے تھی“۔وہ اس کے طنز پر اچھا خاصہ شرمندہ ہوگئی۔شکر کے وہ سامنے نہیں تھا۔تو وہ جان گیا تھا سارا غصہ اسی لیے تھے کہ فاطمہ کمال انجان تھی۔
”میں اس کے والدین کی بات کر رہی ہوں“۔۔شرمندگی کے اثر کو زائل کرنے کے لیے وہ برہمی سے گویا ہوئی۔
”ماریہ کو ارمان خود کال کر لے گا۔یہ نیک کام پلیز آپ مت کریے گا۔اور رہی بات نکاح کی تو بھائیوں اور ماں کی موجودگی میں ہوا ہے،مزید اپنے ننھے دماغ کو نا تھکائیں۔ سوجائیں“۔یہ کہہ کر اس نے کال کاٹ دی۔فاطمہ نے بےیقینی سے موبائل کو گھورا۔
”یہ نیک کام پلیز آپ مت کریے گا“۔منہ ہے زاویے بگاڑتے اسکا جملہ دہرایا۔
”ایک منٹ ایک منٹ یہ ابھی اس نے کیا کہا تھا بھائیوں اور ماں کی موجودگی میں؟مطلب احسن اس کے ساتھ تھا؟اور ماں؟… تو کیا چچی بھی سب جانتی تھیں؟“۔حیرت کی گہرائی میں ڈوبی وہ خود سے بڑبڑا رہی تھی۔اور پھر،اس کے اندر ایک بار پھر غصے کا طوفان اٹھا۔
”یہ سب مل کر مجھے بیوقوف بنا رہے؟“۔
رات کا دوسرا پہر تھا۔فاطمہ کمال غیر آرام دہ حالت میں بیڈ کی پشت سے سر ٹکائے سو رہی تھی۔گردن نیچے کی طرف ڈھلکنے لگی تو جھٹکے سے جاگ اٹھی۔کچھ لمحے آنکھیں موندے بیٹھ رہی،پھر موبائل اٹھا کر وقت دیکھا۔دو بج رہے تھے۔لمبی سانس لی،بالوں سے کیچر نکال کر دوبارہ جوڑا باندھا،اور سلیپر پاؤں میں ڈالے۔
”ابھی تک فاز نہیں آیا؟“۔نیند سے بوجھل آنکھوں کو بمشکل کھولے،ڈوپٹہ درست کرتی وہ آگے بڑھی۔جیسے ہی بائیں طرف والے کمرے کا دروازہ کھلا دیکھا،سکون کا سانس لیا۔ مگر اگلے ہی لمحے وہ ٹھٹک گئی۔کمرے کے اندر کچھ گرنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔دل دھڑک اٹھا۔قدم خودبخود دروازے کی طرف بڑھے،اور جیسے ہی اندر جھانکا،اس کے ہوش اڑ گئے۔
”تمہیں خوش ہونے کا کوئی حق نہیں ہے“۔یہ جملہ جیسے کسی زہر میں بجھا تیر تھا،جو سیدھا اس کے دل میں ترازو ہو گیا۔
فاز عالم…
وہ جو ہمیشہ پر سکون،متوازن،اور ٹھہرا ہوا نظر آتا تھا۔آج بالکل بکھرا ہوا تھا۔آنکھیں سرخ،سانسیں بھاری،ہاتھ کی گرفت میں موجود گلدان فاطمہ کو دیکھ کر لمحے بھر کو فضا میں معلق رہا،اور پھر زمین پر گرنے سے قبل ہی اس نے خود کو روک لیا۔
”یہ کیا کر رہے ہو، فاز؟“۔کانچ کے بکھرتے ٹکڑوں سے بچتی،
وہ اس کے قریب آ گئی۔
”آپ یہاں کیا کر رہی ہیں؟“۔اس کے اجنبی،سرد بیگانہ لہجے پر فاطمہ کے قدم جہاں کے تہاں رک گئے۔
”کیوں توڑ رہے ہو یہ چیزیں؟کس بات کا غصہ ہے؟“۔
اسکے سوال کر نظر انداز کرتے سنجیدگی سے استفار کیا۔
”میں اس وقت آپ سے بات نہیں کرنا چاہتا“۔چہرہ سامنے دیوار کی طرف کرتے آستینوں کو ٹھیک کرنے لگا۔فاطمہ زخمی نظروں سے اسے دیکھتی رہ گئی۔
”لیکن میں ابھی،اسی وقت تم سے بات کرنا چاہتی ہوں“۔اس کے ضدی لہجے پر فاز نے سرخ آنکھوں سے اسے دیکھا۔فاطمہ کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔
”اپنے زخم انہیں نہیں دکھانے چاہیے،فاطمہ کمال جن کے پاس مرہم نہ ہو“۔اس کی گہری، سنجیدہ آواز جیسے رات کے سناٹے میں گونج گئی۔وہ ایک لمحے کے لیے خاموشی ہوگئی۔فاز بیڈ پر جاکر بیٹھ گیا اور سرد نگاہیں سامنے آف وائٹ رنگ کی دیوار پر جمادیں۔
”عام لوگ زخموں پر مرہم لگانے کے بجائے انہیں کریدنا زیادہ بہتر لگتا ہے۔۔لیکن فاز… میں عام تو نہیں ہوں“۔اس کے برابر بیٹھتے ہوئے مضبوط اور مان بھرے انداز میں بولی۔فاز کے چہرے کا رنگ بدلا۔ نظریں تیزی سے دیوار سے ہٹا کر اس کی نیلی آنکھوں میں دیکھا۔رات کی خاموشی میں صرف گھڑی کی ٹک ٹک سنائی دے رہی تھی۔
”آپ مجھے مشکل میں ڈال رہی ہیں“۔نظریں ہٹانے کی کوشش نہیں کی گئی تھیں۔اس کی سرگوشی جیسی بےبسی میں کچھ تھاجس نے فاطمہ کے ہونٹوں پر ایک مدھم مسکراہٹ بکھیر دی۔
”میں تمہاری مشکل آسان کرنا چاہتی ہوں، فاز“۔آہستگی سے اس کا دایاں ہاتھ تھام لیا۔فاز عالم کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو گئیں۔بہت کچھ بدل گیا تھا اس ایک لمحے میں۔
”میرے بابا نے کہا تھا فاطمہ،آپ کی فیملی میں صرف میں اور فاز ہیں۔بابا تو چلے گئے، لیکن..“۔اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔فاز کی سانسیں تھم سی گئیں۔
”میں تمہیں کھونا نہیں چاہتی“۔بالکل قریب،آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ کہہ رہی تھی۔یہ اگر اعترافِ محبت نہیں تھا،تو کیا تھا؟فاز نے نیلی سمندری آنکھوں میں اپنے لیے محبت دیکھی تھی۔
”آپ مجھے معتبر کر رہی ہیں،فاطمہ“۔اس کے دل نے اس سے یہ کہنا چاہا تھا۔مگر لبوں سے جو نکلا، وہ بس یہ تھا۔”میں سب تو نہیں،لیکن کچھ حصہ بتا سکتا ہوں“۔فاز عالم سے فاطمہ کمال کا مان نہیں توڑا گیا۔وہ مان جو اسے فاز پر تھا۔
”میں بہت ڈسپلنڈ،سنجیدہ،اور ذہین آفیسر مانا جاتا ہوں۔ جو ہر صورتحال کو سنبھال سکتا ہے،تحمل سے فیصلے کر سکتا ہے۔لیکن فاطمہ…“اس کی آواز میں کہیں بہت دور کا درد لرزنے لگا۔”میں اپنی زندگی کا یہ حصہ سنبھال نہیں پاتا“۔فاطمہ کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا۔
”میں جب بھی خوش ہوتا ہوں،اگلے لمحے کوئی بری خبر میرا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔میں ہر بار خود کو یہ ذہن نشین کرواتا ہوں مجھے خوش نہیں ہونا۔۔خوشیوں پر میرا کوئی حق نہیں“۔کھڑکی سے چاند کی مدھم روشنی اندر آ رہی تھی۔فاطمہ حق دق سی رہ گئی۔اس کی نگاہیں فاز پر جمی تھیں،اور فاز کی نظروں میں کہیں ماضی کا کوئی منظر ابھر رہا تھا۔
”میں شام میں خوش تھافاطمہ۔بہت دنوں بعد پرسکون۔ اور اس کے بعد…وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا ہے۔ایک بری خبر میرا انتظار کر رہی تھی“۔اس کی مدھم مسکراہٹ میں بکھرا ہوا کرب تھا۔”آپ جانتی ہیں،ارمان مجھے بہت عزیز ہے۔میں یہاں ایک لمحے کو بے دھیان ہوا،اور دشمن نے اسے نشانہ بنا لیا۔ لاگر آج مراد وہاں نہ ہوتا،تو میں اسے کھو دیتا“۔چہرہ موڑ لیا۔ شاید آنکھوں میں ابھرتی نمی چھپانے کو۔
”اب کیسا ہے ارمان؟“۔فاطمہ کے آواز مدھم تھی۔وہ بس اثبات میں سر ہلاگیا۔کچھ لمحے خاموشی کی نظر ہوئے۔
”پہلی بری خبر کب اور کیا ملی تھی؟“۔پھر فاطمہ کی مدھم سنجیدہ آواز گونجی۔فاز عالم نے زخمی نظروں سے اسے دیکھا۔
”دس سال پہلے،دوسری بری خبر۔فریحہ عالم کی موت کی صورت میں“۔بے تاثر خالی لہجہ فاطمہ کو اندر تک ہلا گیا۔
”فاطمہ،بابا نے کہا کچھ دنوں کے لیے آپ اسکول نہیں جائیں گی۔اور کل تک وہ آپ کو ترکی بھیج رہے ہیں۔میری پھوپھو کے گھر“۔دفعتاً، کسی گمشدہ یاد کی دھند میں ایک آواز ابھری۔دس سال پہلے،جب وہ پندرہ برس کی تھی۔تب کہا گیا یہ جملہ پوری جزئیات سے تازہ ہوا تھا۔
”فریحہ عالم“۔اس کے لب ہلے۔آنکھوں میں بےتحاشہ سوال امڈ آئے
”میری گڑیا،میری بہن،فریحہ“۔فاز کی سیاہ آنکھوں میں زخموں کی گہرائی اتر آئی۔”میں انیس سال کا تھا،میرا فیورٹ یونیورسٹی میں داخلہ ہونے پر گھر میں چھوٹی سی دعوت رکھی گئی۔میں بہت خوش تھا۔بچپن سے خواب تھا سوفٹویئر انجینئر بننے کا“۔اس کے لہجے میں کانچ کی کرچیاں تھیں،جو سیدھا فاطمہ کے دل میں پیوست ہو رہی تھیں۔سیاہ آنکھوں میں ماضی کے منظر ابھرنے لگی۔آنکھوں کو زخمی کرتے ہوئے۔