گھر پہنچ کر بھی اس کا اشتعال کم نہيں ہو رہا تھا۔
ہاتھ ميں پڑا موبائل، گاڑی کی چابی اور والٹ زور سے سائيڈ ٹيبل پر پٹخا۔
گرنے کے سے انداز ميں بيڈ سے نيچے ٹانگيں لٹکا کر ليٹا۔ وہ ابھی تک خود بھی حيران تھا کہ حاکم شاہ جيسے اوباش اور نگر نگر منڈلانے والے کے منہ سے ريم کا ذکر سن کر اسے کيا ہوا۔ شايد اسکے وہ گھٹيا الفاظ اسے اچھے نہيں لگے۔ کيا اچھا نہيں لگا۔۔ اسکے منہ سے ريم کا ذکر يا اسکے الفاظ؟۔۔ وہ شديد کنفيوز تھا۔
ابھی انہی سوچوں ميں الجھا ہوا تھا کہ موبائل پر ميسج کی بيپ ہوئ۔
کسلمندی سے اٹھ کر موبائل کھولا۔ ميسج کسی اور کی جانب سے نہيں حاکم شاہ کی جانب سے تھا۔
“جو بھرے مجمع ميں تم نے ميرے ساتھ کيا ہے ياد رکھنا اس کا حسب تمہيں بہت جلد چکانا پڑے گا۔ ميرے گريبان پر ہاتھ ڈالنے والے کو ميں کہيں کا نہيں چھوڑتا۔ اپنی بربادی کا انتظار کرو” اسکے زہر ميں بھرا ميسج اشاذ نے ايک طنزيہ مسکراہٹ کے ساتھ پڑھا۔
کچھ دير خاموشی سے جواب سوچتا رہا۔
پھر ہاتھ تيزی سے ٹائپ کرنے لگے۔
“ميں اپنے ٹکر کا بندہ ديکھ کر لڑائ کا آغاز کرتا ہوں۔ افسوس تم تو کسی جانب سے ميرے ليول کے نہيں۔ يہ لڑائ يک طرفہ سمجھو۔ تم کل بھی اجنبی تھے آج بھی اجنبی ہو۔ اور اجنبيوں سے ميں کوئ تعلق نہيں رکھتا۔ حتی کے نفرت اور بغض کا بھی نہيں” سينڈ کا بٹن دبا کر موبائل واپس سائيڈ ٹيبل پر رکھا اور واش روم ميں بند ہوگيا۔
باہر آکر لائٹس بند کيں۔ نائٹ بلب آن کرکے بيڈ پر ليٹا۔
نجانے ذہن کے پردے پہ وہ آرہی تھی۔
“خوامخواہ ہی” اسکے ہيولے سے مخاطب ہوا۔
موبائل اٹھا کر وفت ديکھا۔ رات کے ايک بج رہے تھے۔
نجانے کيا سوچ کر کہنی کے بل اٹھ کر بيڈ کی پشت سے ٹيک لگائ۔ موبائل ہاتھ ميں لے کر کچھ لمحے سوچتا رہا پھر ريم کا نمبر ملايا۔
کچھ دن پہلے ہی ارم سے ليا تھا۔